کراچی – ہائبرڈ نظام تعلیم، طویل عرصے تک اسکولوں کی بندش، امتحانات کی غیر یقینی صورتحال اور طلباء کا بے مثال نمبر حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنا، یہ چند جھلکیاں ہیں، جو ملک میں تعلیمی سال کے ہنگامہ خیز ہونے کا پتہ دیتی ہیں
ایک طرف تعلیمی اداروں کی طویل بندش ہے تو دوسری طرف والدین، طلباء اور اساتذہ یکساں طور پر ”فاصلاتی تعلیم“ کے حق میں نظر نہیں آتے، کیونکہ اس سال ستمبر میں جب اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں پوری حاضری کے ساتھ دوبارہ کھلیں، تو انہوں نے اجتماعی طور پر سکون کا سانس لیا۔ تاہم تیزی کے ساتھ پھیلتے کرونا کے نئے ویریئنٹ اومیکرون کے خطرے کے ساتھ، تعلیمی ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز اس بات پر متفق ہیں کہ مزید بندش طلباء کے مستقبل پر منفی اثر ڈالے گی۔ مثال کے طور پر، ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں، تعلیمی ادارے سال بھر میں محض 125 دن کے لیے کھلے تھے اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں، ذرائع نے بتایا کہ سرکاری اسکول مارچ 2020 سے ستمبر 2021 تک محض 45 دن کے لیے کھلے تھے
بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پشاور کے ایک اہلکار نے بتایا، ”پرائیویٹ اسکول طلباء کو آن لائن پڑھا کر چیزوں کا انتظام کرتے ہیں لیکن سرکاری اسکولوں میں آن لائن کلاسز کا کوئی تصور نہیں ہے۔“
تاہم لاہور کا رہائشی رضوان، جس کی بیٹی ایک پرائیویٹ ادارے میں چوتھی جماعت میں ہے، اس سے اتفاق نہیں کرتے، ان کا کہنا ہے کہ ”آن لائن کلاسز لینے کا کوئی واضح طریقہ کار نہیں ہے۔ ممکن ہے آن لائن کلاسز سے یونیورسٹی اور کالج کے طلباء کو فائدہ ہو، لیکن میری بیٹی کو بہت نقصان پہنچا ہے‘‘
کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد عراقی کا خیال ہے کہ آن لائن تعلیم کی کسی بھی شکل کا مقصد پاکستان کی تعلیمی صورتحال سے مطابقت نہیں رکھتا
وہ کہتے ہیں ”مغرب نے آن لائن تعلیم فراہم کرنے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ وہ انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی اور بجلی کے مسائل سے متاثر نہیں ہیں اور ان کے پاس آن لائن پڑھانے کے لیے ماہر اساتذہ بھی موجود ہی“
یہاں تک کہ اگر انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کا کوئی مسئلہ نہ بھی ہو، تب بھی پنجاب کے دارالحکومت کی رہائشی شمائلہ محمود کے والدین کی طرح کئی لوگ آن لائن کلاسز کے ساتھ آنے والے زیادہ اخراجات کی شکایت کر رہے ہیں. انہوں نے کہا ”ایک طرف پرائیویٹ اسکولز زیادہ فیسیں وصول کر رہے ہیں اور دوسری طرف مجھے اچھے انٹرنیٹ کنکشن کے لیے بھی بھاری رقم ادا کرنی پڑ رہی ہے۔“
جہاں ایک طرف پرائیویٹ اسکول ہائبرڈ ماڈل کی تدریس کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہیں پشاور کے ایک سرکاری پرائمری اسکول کے ٹیچر طارق خان کی خواہش ہے کہ سرکاری اسکولوں میں بھی اسی طرح کی سہولیات موجود ہونی چاہییں۔ ان کا کہنا ہے ”کاش ہمارے پاس اپنے طلباء کے لیے آن لائن کلاسز منعقد کرنے کی سہولیات ہوتیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ حکومتی سطح پر یہ خلا کبھی پر نہیں ہو سکے گا“
لیکن سب اساتذہ طارق کی طرح نہیں سوچتے، اور نہ ہی صرف اس طرح سوچنے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے، کیونکہ بدقسمتی سے ملک کے کئی علاقوں میں سرے سے اساتذہ کی کمی اور اسکولوں میں سہولیات کی فقدان بھی ہے
جیسا کہ بلوچستان کے صوبائی وزیر تعلیم، میر نصیب اللہ مری نے بتایا ”کاغذوں میں ہمارے صوبے میں ستر ہزار سے زائد اساتذہ ہیں، لیکن ہمارے پاس ملک کا سب سے کمزور تعلیمی نظام ہے۔“ مری کے جائزے میں وزن ہے کیونکہ 2021ع میں صوبے میں تعلیمی اصلاحات کے لیے 71 ارب روپے سے زائد کا بجٹ مختص کیا گیا تھا، لیکن ایک اندازے کے مطابق بلوچستان کے پندرہ ہزار سے زائد اسکولوں میں سے تین ہزار غیر فعال ہیں، صرف چار ہزار 491 کو بجلی کی سہولت میسر ہے۔ چار کو گیس تک رسائی حاصل ہے، اور صرف تین ہزار 311 اسکولوں میں پانی کے ٹینک اور طلباء کے لیے واش رومز میں پانی کی سہولت موجود ہے
تاہم کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی ماہر تعلیم پلوشہ جلالزئی کا خیال ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان میں چھ ہزار سے سات ہزار کے درمیان اسکول ایسے ہیں، جہاں صرف ایک ہی استاد پانچوں کلاسوں کو پڑھا رہا ہے۔ ہم تعلیم کے پست معیار کے لیے اساتذہ کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں، لیکن اس بات پر کبھی غور نہیں کرتے کہ انہیں کس قسم کی مدد ملتی ہے‘‘
پنجاب ٹیچرز یونین کے جنرل سیکرٹری رانا لیاقت نے بھی پلوشہ جلال زئی کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ حکومت تعلیمی اصلاحات لانے میں ناکام رہی ہے۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کی جانب سے سال بھر میں جو تعلیمی اصلاحات کی گئی ہیں وہ بھی”انصاف آفٹرنون اسکول پروگرام“ کی طرح کام کرنے میں ناکام رہی ہیں، جو صوبے میں ڈراپ آؤٹ کی بلند شرح کی روشنی میں متعارف کرایا گیا تھا اور یہاں تک کہ واحد قومی نصاب، جسے نجی اسکولوں نے مسترد کر دیا اور اس پر تعلیمی ماہرین کی طرف سے شدید تنقید کی گئی
جن طلبا نے اسکول میں حاضری کے مہنگے ہونے یا انٹرنیٹ تک رسائی نہ ہونے کے باوجود اسکول نہیں چھوڑا، ان کے لیے مسئلہ مقابلہ کی کمی ہے، جسے حکومت نے یہ اعلان کرکے فروغ دیا کہ اس سال میٹرک اور انٹر کی سطح پر صرف لازمی مضامین کا امتحان لیا جائے گا، جس کے نتیجے میں مستقبل قریب میں ان کے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں داخلے کے امکانات ختم ہو جائیں گے
ایڈورڈز کالج پشاور کے ایک طالب علم فصیح اللہ کہتے ہیں ”حکومت نے صرف سب کو پاس کیا۔ جب کوئی گھر بیٹھ کر بغیر کسی کوشش کے امتحان پاس کر سکتا ہے تو یہ ٹاپ کرنے والوں کے ساتھ ناانصافی ہے.‘‘