ایک پیدائشی باغی کی کہانی (پہلا حصہ)

زاہدہ حنا

برطانوی استعمار کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والوں میں سبھاش چندر بوس کا نام تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔

میں اکثر ان کے حوالے سے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہارکرتی رہی ہوں۔ ان کی ایک مکمل سوانح حیات لکھی گئی تھی، جس کے مصنف اخبار پرتاپ لاہور کے نائب مدیر کامریڈ یمن لال تھے۔ اس وقت اس کتاب کی قیمت آٹھ آنے تھی۔

میری خواہش ہے کہ اس نادر اور نایاب تصنیف کا ایک مختصر سا ٹکڑا آپ کی نذر کیا جائے، تاکہ ہمیں اندازہ ہو سکے کہ پورا برصغیر آج جس آزادی کے ثمرات سے فیضیاب ہو رہا ہے، اس کے حصول کے لیے لوگوں نے کتنی بے مثال قربانیاں دی تھیں۔

کتاب کے مطابق چندرجی بوس 1897 میں کٹک میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے والد رائے بہادر جانکی ناتھ بوس کئی سال تک کٹک میں سرکاری وکیل رہے۔ ان کے آٹھ بیٹوں میں سے شری سبھاش چندر بوس، ڈاکٹر سرت چندر بوس، اور ڈاکٹر سینل چندر بوس کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کے والد ایک نہایت اور متمول گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے خاندان کا شمار بنگال کے بڑے گھرانوں میں ہوتا تھا، چنانچہ انھوں نے اپنے تمام بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم کی غرض سے یورپ بھیجا۔

سبھاش چندر بوس کٹک کے ایک ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد پریذیڈنسی کالج کلکتہ میں داخل ہوئے۔ ان دنوں آپ کا رجحان زیادہ تر سوشل سروس کی طرف تھا اور اپنا وقت معذوروں کی خدمت اور دکھی انسانوں کے دکھ دورکرنے میں صرف کیا کرتے تھے، جب آپ ایف اے کی تعلیم حاصل کر رہے تھے تو آپ کی زندگی میں پہلی تبدیلی آئی۔ ہندوستان کے مہا پرشوں اور مہاتمائوں کے جیون رہن سہن کا آپ پر گہرا اثر ہو چکا تھا۔

اچانک ایک روز آپ نے دنیا داری کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا اور چپ چاپ گھر بار اور سکھ چین چھوڑ کر گورو کی تلاش میں گھر سے نکل کر مردار کا رخ کیا۔ ان حالات میں اگر یہ کہا جائے کہ آپ پیدائشی باغی تھے تو چنداں غلط نہ ہوگا۔ بچپن میں ہی دنیاوی بندشوں کو کاٹ کر پھینکنے والا سبھاش اگر باغی نہیں تو کیا کہلا سکتا ہے؟ وہاں سے آپ بنارس، برندابن اور دیگر مقامات کی یاترا پر روانہ ہو گئے۔

اس دوران آپ نے بہت سے سادھوؤں اور نام نہاد مہاتماؤں سے ملاقات کی، لیکن ان کا طرزِ زندگی انہیں پسند نہ آیا۔ یہ سادھو اور مہاتما نہایت شان و شوکت سے رہتے تھے اور گوشہ نشینی کی آڑ میں لوگوں کو بیوقوف بنا کر خود اپنا تمام وقت عیش و عشرت میں گزارتے تھے۔ بھلا ایسے دھوکے باز سادھو شری سبھاش جیسے سچے متلاشی کی زندگی پر کس طرح اثر انداز ہو سکتے تھے۔

چنانچہ آپ بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ انسان دنیاوی کاموں میں حصہ لیتے ہوئے ہی خدمت خلق سے اپنی زندگی کے مشن کو پورا کر سکتا ہے۔ دنیاوی برائیوں کو دیکھ کر دنیا کو ترک کرنا بزدلوں کا کام ہے اور یہ کہ انسان کا فرض ہے کہ وہ دنیا ترک کرنے کے بجائے دنیا کی جدوجہد میں حصہ لیتے ہوئے تمام برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کرے اپنے جیون کو آسان کرے۔

بوس ڈھونگی سادھوؤں اور دھوکے باز مہاتماؤں کے چنگل سے نکل کر پھر اپنے گھر لوٹ آئے اور 1914 میں کالج میں داخل ہوئے۔ بی اے کا امتحان بھی اول ڈویژن میں پاس کر لیا اور 1919 میں ولایت چلے گئے۔ وہاں آپ انڈین سول سروس کے مقابلے میں شریک ہوئے اور بہترین پوزیشن میں کامیابی حاصل کی۔ اب آپ کے لیے دنیاوی سکھ و عیش و آرام کا راستہ کھل گیا، کیونکہ انڈین سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ بہترین سرکاری ملازمت کر سکتے تھے۔

آپ چاہتے تو کسی ضلع کے ڈپٹی کمشنر بن کر لاکھوں روپے کماتے، لیکن خدا نے ان کے دل میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا اور ولایت کے سفر نے ان کے سینے میں آزادی کی روح پھونک دی تھی۔ ایک طرف بڑے بڑے سرکاری عہدے انہیں جاہ و حشمت اور دنیاوی شان و شوکت کا پیغام دے رہے تھے، دوسری طرف غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی بے بس اور بے کس ہندوستانی سرزمین انہیں دیش کی خدمت کا سندیشہ دے کر مصائب اور کٹھن زندگی کی راہ دکھا رہی تھی۔ یہ ذہنی کشمکش کافی دیر جاری رہی۔ ایک طرف دنیاوی سکھ اور عیش و آرام، دوسری طرف جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑی اور ہتھکڑیوں کی جھنکار۔۔

آخر اس ذہنی کشمکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ شری سبھاش بوس کی زندگی نے دوسری بار پلٹا کھایا اور غیر ملکی حکمرانوں کی طرف سے پیش کردہ سرکاری عہدوں کی نسبت غلامی کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے بھارت کی کشش زیادہ قوی ثابت ہوئی اور آپ نے نہایت سرگرمی سے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے اجڑے ہوئے دیش کو غیروں کے آہنی پنجوں سے نجات دلانے کا تہیہ کر لیا۔

ہزاروں امنگوں اور سیکڑوں ارمانوں کو اپنے سینے میں دبائے، ہندوستان کو ایک نیا پیغام دینے کے لیے آپ ایک ڈبکنی کے ذریعے یورپ سے روانہ ہو گئے۔ جاپان پہنچ کر جنرل ٹوجو اور دیگر سرکردہ جاپانی سیاستدانوں سے طویل ملاقاتیں کیں۔ شری راش بہاری بوس سے کئی روز مشورہ کیا۔ ان ملاقاتوں اور مشوروں کے نتیجے کے طور پر خود نیتا جی کی قیادت میں دوسری آزاد ہند فوج کا جنم ہوا۔

21 اکتوبر 1943کا یادگار دن ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ یہ وہ دن ہے، جس دن شری سبھاش چندر بوس پہلی مرتبہ ’نیتا جی‘ کے روپ میں دنیا کے سامنے آئے اور آپ نے آزاد ہندوستان کی عارضی گورنمنٹ کے قیام کا اعلان کیا۔ اس دن سنگاپور سے ہندوستان کے نام جو ہنگامہ خیز اور تاریخی اعلان جاری کیا گیا، اسے ذیل میں درج کیا جاتا ہے:

1757 میں ہندوستانیوں نے پہلی مرتبہ انگریزوں سے بنگال میں شکست کھائی تھی، اس کے بعد وہ متواتر سو برس تک بہت سے صبر آزما اور خونریز جنگوں میں ان کا مقابلہ کرتے رہے۔ اس عرصے میں ہندوستانیوں نے جس ایثار جانبازی اور بہادری کا ثبوت دیا۔ اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔

اس سنہری دور کی تاریخ کے صفحوں میں بنگال کے سراج الدولہ، موہن لال، جنوبی ہند کے حیدر علی، ٹیپو سلطان، مہاراشٹر کے نانا صاحب، بھونسلے اور پیشوا باجی رائو، اودھ کی بیگمات، پنجاب کے سردار شام سنگھ اٹاری والے و ملتان کے گورنر مولراج اور پھر رانی جھانسی اور تانتیاٹوپی جیسے ہندوستان کے بہادر سپوتوں کے نام ہمیشہ سنہری حروف میں لکھے جائیں گے۔

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے بزرگ شروع میں اس بات کا احساس نہ کر پائے کہ برطانوی اقتدار تمام ہندوستان کے لیے ایک زبردست خطرہ ہے۔ یہ وجہ ہے کہ انہوں نے دشمن کے مقابلے میں متحدہ محاذ بنانے کی کوشش نہ کی، لیکن کچھ عرصے بعد ہندوستانیوں کو اس بات کا احساس ہو گیا اور وہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہو گئے۔

1857 میں ہندوستانیوں نے بہادر شاہ بادشاہ کے جھنڈے تلے جمع ہو کر غیر ملکی اقتدار کو ختم کرنے کے لیے آزاد باشندوں کی حیثیت سے پہلی لڑائی لڑی۔ لڑائی کے ابتدائی دور میں وہ ہر جگہ نہایت شاندار کامیابی حاصل کرتے رہے، لیکن ان کی قسمت کا ستارہ گردش میں آ چکا تھا۔ ان کی رہنمائی غلط لوگوں کے ہاتھوں میں تھی۔

آخرکار جنگِ آزادی کے سپاہی ہار گئے اور غلامی کے مصائب کا شکار بن گئے، لیکن اس کے باوجود جھانسی کی رانی، تانتیا ٹوپی، کنور سنگھ اور نانا صاحب جیسے بہادر ہمارے دلوں میں اپنی عظمت اور بہادری کی یاد چھوڑ گئے، جو ہمیں ہمیشہ ایثار اور جانبازی کے بلند کارناموں کی طرف اکساتی رہے گی۔1857 کے بعد انگریزوں نے ہندوستانیوں کو غیر مسلح کردیا اور ان پر مصائب و مظالم کے پہاڑ توڑنے شروع کردیے۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close