اطلاعات ہیں کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے ساحلی شہر گوادر کے لیے اعلان کردہ آئل ریفائنری کا منصوبہ اب سی پیک کا ‘گیٹ وے’ کہلائے جانے والے اس شہر کے بجائے کراچی کے قریب بلوچستان کے ساحلی قصبے حب میں منتقل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے
اس منصوبے سے منسلک ایک سے زیادہ سرکاری اور سیاسی عہدیداروں نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی ولی عہد کی جانب سے اعلان کردہ اس منصوبے سے متعلق متعدد مسائل کی وجہ سے یہ آئل ریفائنری اب حب میں لگانے پر غور کیا جا رہا ہے
یاد رہے کہ فروری 2019ع میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے پاکستان کے دورے کے دوران پاکستان میں سعودی عرب کی جانب سے بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے تھے، جن میں سعودی عرب کی جانب سے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ریفائنری لگانے کا معاہدہ بھی شامل تھا
آٹھ سے دس ارب ڈالر لاگت کی اس ریفائنری کے معاہدے پر دستخط ہوئے تقریباً تین سال کا عرصہ ہونے کو ہے، تاہم اس معاہدے پر اس کے بعد کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آئی
سی پیک کے گیٹ وے گوادر میں اس ریفائنری کی تعمیر کے بارے میں کچھ عرصے سے خبریں منظر عام پر آنا شروع ہوئیں کہ سعودی عرب کی جانب سے گوادر میں ریفائنری کا منصوبہ ترک کر دیا گیا اور اب ان کی جانب سے کراچی سے متصل بلوچستان کے صنعتی ٹاؤن حب میں اس ریفائنری کی تعمیر کی جائے گی
اگرچہ حب میں بھی سعودی عرب کی جانب سے بنائی جانے والی ریفائنری کے سلسلے میں کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے، تاہم پاکستان میں تیل و گیس کے شعبے سے وابستہ افراد سعودی عرب کی جانب سے منصوبے میں عدم دلچسپی کی وجہ کچھ عرصہ سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں سرد مہری کو قرار دے رہے ہیں
تیل کے شعبے کے حکومتی ادارے نے بھی نشاندہی کی ہے کہ اب اس منصوبے کی حب میں تعمیر زیر غور ہے۔ اگرچہ حکومتی عہدیدار ابھی تک کھل کر اس پر موقف دینے سے گریز کر رہے ہیں، تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا ہے کہ بلوچستان کا صنعتی شہر حب بھی اس سلسلے میں شروع سے زیر غور رہا ہے
سعودی ریفائنری کا منصوبہ کیا ہے؟
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان سے پہلے سعودی عرب کے وزیر توانائی خالد الفلیح نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب پاکستان کے ساحلی شہر گوادر میں ایک بڑی ریفائنری تعمیر کرے گا۔ اس اعلان پر اس وقت مزید پیش رفت ہوئی جب فروری 2019 میں محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کے موقع پر اس ریفائنری کے قیام کے لیے ایک مفاہمتی یاداشت پر دستخط کیے گئے جس کے تحت آٹھ سے دس ارب ڈالر کی لاگت سے یہ گوادر میں بنائی جائے گی
اس حوالے سے تیل کے شعبے سے وابستہ ایک حکومتی ادارے کے اعلیٰ افسر نے بتایا کہ یہ ریفائنری ڈیپ کنورژن ریفائنری کا معاہدہ ہے جس کے تحت اس ریفائنری میں پٹرول، ڈیزل کے ساتھ کیمکلز یعنی لبریکینٹس کی بھی پیداوار ہوتی ہے
ان کا کہنا تھا کہ دراصل یہ ریفائنری نہیں، بلکہ پٹروکیمیکل کمپلیکس کا منصوبہ ہے. ان کے مطابق پاکستان میں کام کرنے والی موجودہ ریفائنریاں پٹرول، ڈیزل کے ساتھ فرنس آئل پیدا کرتی ہیں اور ان میں لبریکینٹس کی پیداوار نہیں کی جاتی۔ تاہم سعودی ریفائنری پٹرو کیمیکل کا پراجیکٹ ہے، جو تین سے چار لاکھ بیرل خام تیل کو ریفائن کرنے کی صلاحیت کی حامل ہوگی، جس پر اگر آج کام شروع کر دیا جائے تو اس کے مکمل ہونے میں سات سے آٹھ سال لگیں گے
دوسری جانب تیل و گیس کے شعبے سے وابستہ افراد کے خیال میں سعودی عرب کی جانب سے گوادر میں ریفائنری کا منصوبہ ناقابل عمل ہے
حکومتی ادارے کے اعلیٰ افسر نے اس سلسلے میں کہا کہ یہ منصوبہ اس لیے قابل عمل نہیں کہ گوادر میں ریفائنری کے قیام کے بعد اس میں تیار ہونے والی مصنوعات کی ترسیل کیسے ہوگی؟
انہوں نے بتایا کہ کراچی میں کام کرنے والی ریفائنری میں خام تیل سے تیار ہونے والے ڈیزل کو وائٹ پائپ لائن سے پنجاب ترسیل کیا جاتا ہے اور اسی طرح پٹرول کا کچھ حصہ بھی اس پائپ لائن سے پنجاب اور شمال کی جانب سے بھیجا جاتا ہے۔ گوادر کراچی سے بہت دور ہے اور وہاں کی ریفائنری میں تیار ہونے والی مصنوعات کی تیاری اور ان کی ترسیل کے لیے ایک نئی پائپ لائن ڈالنی پڑتی، جس کا تخمینہ ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر لگایا گیا ہے اور سعودی عرب کی جانب سے اس کا امکان نہیں ہے کہ وہ انتی بڑی سرمایہ کاری اس پائپ لائن پر کرے
انھوں نے کہا کہ یہ مسئلہ ریفائنری کے قیام کے لیے فزیبلٹی رپورٹ تیار ہونے کے بعد سامنے آیا
منصوبے کے قابل عمل ہونے سے متعلق عارف حبیب لمٹیڈ کے ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس کا کہنا ہے کہ کسی سرمایہ کاری کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا اس کا مستقبل میں آوٹ لک مثبت ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ ریفائنری کے قیام کے بعد اس میں تیار ہونے والی مصنوعات کی کھپت کیسے ہو پائے گی، جب ملک میں حکومت الیکٹرک گاڑیوں اور ہائی برڈ گاڑیوں کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہی ہے
طاہر عباس نے کہا کہ کسی بھی منصوبے کو لگانے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ مسقبل میں کس حد تک کارآمد رہے گا، تاہم سعودی ریفائنری کے سلسلے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ملک میں جب حکومت تیل کی مصنوعات کے بجائے دوسرے ذرائع کر فروغ دینے کی پالیسی پر کام کر رہی ہے تو پھر کیسے اس ریفائنری میں بننے والی مصنوعات استعمال ہو پائیں گی؟
کیا حب ریفائنری کے منصوبے کے لیے شروع سے ہی زیر غور رہا؟
گوادر کی بجائے بلوچستان کے شہر حب میں اس ریفائنری کے قیام کے بارے میں جب تحقیقات کی گئیں تو یہ بات سامنے آئی کہ ریفائنری کے قیام کے معاہدے میں صرف گوادر شامل تھا اور حب اس کے بنیادی منصوبے میں شامل نہیں تھا
حکومتی عہدیدار نے اس سلسلے میں کہا کہ حب کے لیے فیزیبلٹی رپورٹ پر کام ہو رہا ہے۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ حب بنیادی معاہدے میں شامل نہ تھا اور اب گوادر میں سعودی عرب کی عدم دلچسپی کی وجہ سے حب کو اس کام کے لیے منتخب کیا گیا ہے
اس سلسلے میں حکومتی آئل مارکیٹنگ کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) ، جو سعودی کمپنی آرامکو کے ساتھ اس ریفائنری کے قیام کے لیے رابطے میں تھی، کے ایم ڈی سید طحہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ حب بھی اس سلسلے میں زیر غور ہے
انہوں نے کہا حکومتی سطح پر اس معاملے پر دیکھا جا رہا ہے اور ریفائنری کے قیام کے لیے مناسب محل وقوع کا تعین کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ حب بھی اس سلسلے میں زیر غور ہے
ایک حکومتی عہدیدار نے اس سلسلے میں کہا کہ حب ہی اب وہ علاقہ ہے، جہاں سعودی عرب کی جانب سے ریفائنری لگائی جائے گی
انہوں نے کہا ”اس کی دو تین وجوہات ہیں، جس کی وجہ سے یہ سعودی عرب کے لیے حب زیادہ مناسب مقام ہے۔ ایک تو کراچی کے ساتھ جڑے ہونے کی وجہ سے یہاں کی ریفائنری میں بننے والی مصنوعات با آسانی پورے ملک میں ترسیل کی جا سکتی ہیں اور اس سے پہلے ایک ریفائنری بائیکو بھی حب میں کام کر رہی ہے۔“
”دوسری وجہ یہ ہے کہ تیل پیدا کرنے والے ممالک اپنا تیل بیچنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں چاہے انہیں ریفائنری میں کم ہی منافع ہو۔ اگر حب میں ریفائنری لگتی ہے تو سعودی عرب کا تیل آسانی سے استعمال ہو سکے گا اور پھر اس کی ترسیل آسانی سے پورے ملک میں ہو سکے گی جس کے لیے انہیں گوادر میں ریفائنری کی صورت میں ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی اضافی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت پڑتی تاکہ وہاں سے تیل کی مصنوعات پورے ملک میں ترسیل کی جا سکیں۔“
حکومتی عہدیدار نے اس سلسلے میں بتایا کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں ریفائنری اب حب میں ہی بنائی جائے گی، تاہم اس پر بھی ابھی پیش رفت نہیں ہو پا رہی کیونکہ اس سال پہلے سعودی عرب کی کمپنی آرامکو نے حب میں ریفائنری کے لیے فزیبلٹی رپورٹ بھی بنائی تھی تاہم اس کے بعد اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی، جس کی ایک وجہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں آنے والی ہلکی سی تلخی تھی، جو اب دور ہو چکی ہے اور اس کے بعد پاکستان کو تین ارب ڈالر ڈیپازٹس میں رکھنے اور موخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی کی سہولت بھی دی گئی ہے تاہم ریفائنری کے منصوبے پر ابھی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی ہے۔