سری نگر – مقبوضہ کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر بنگلہ دیش نامی ایک چھوٹا سا گاؤں آباد ہے، جس کی مجموعی آبادی تین سو افراد پر مشتمل ہے
یہ گاؤں ایشیا کی میٹھے پانی کی بڑی جھیل ’ولر‘ کے کنارے پر واقع ہے۔ گاؤں کے پیچھے اونچے پہاڑ اور اردگرد کا علاقہ بہت ہی دلکش منظر پیش کرتا ہے
اس گاؤں کے وجود کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ پانچ دہائی قبل یہ گاؤں زوریمنز کا حصہ تھا۔ سنہ 1971ع میں جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو اسی زمانے میں زوریمنز علاقے میں آتشزدگی کا ایک واقعہ پیش آیا تھا، مکانات مکمل طور پر جل کر خاکستر ہونے سے لوگ بے گھر ہوگئے اور پھر گاؤں کے مکینوں کو جھیل کے پاس بسایا گيا
گاؤں کے ایک معمر شخص عبدالعزیز ملہ کے مطابق ’سنہ 1971ع میں بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ چل رہی تھی اور بنگلہ دیش آزاد ہوا۔ اسی دوران یہ گاؤں جل کر خاک ہو گیا۔ چند گھروں نے زوریمنز سے نقل مکانی کی اور قریب ہی خالی زمین میں جا بسے۔ گاؤں میں ایک بزرگ شخص تھے، جنہوں نے اس گاؤں کا نام بنگلہ دیش رکھ دیا۔‘
گاؤں میں ہونے والی آتشزدگی کے حوالے سے عبدالعزیز نے بتایا کہ ’گاؤں کے لوگ سوئے ہوئے تھے، اچانک ایک رہائشی مکان میں آگ لگی جس نے پوری بستی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آگ اس قدر بھیانک تھی کہ چند منٹوں کے اندر ہی پوری بستی سے آگ کے شعلے بلند ہونے لگے۔ اس حادثے میں درجنوں مکان خاکستر ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ مال مویشی بھی جل کر مر گئے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اس علاقے میں جب یہ سانحہ پیش آیا تو اس وقت تین سو سے زیادہ خاندان مقیم تھے، جن میں سے چند لوگوں نے نقل مکانی کی اور وہاں جا کر بس گئے۔ اِس وقت بنگلہ دیش گاؤں میں تقریباً پچاس خاندان ہیں۔ سرکاری کاغذات میں بھی یہی نام درج ہے۔ کسی نے اسے تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ علاقے کے لوگوں کو بھی اس سے کوئی پریشانی نہیں رہی
اس گاؤں کے مکینوں نے اپنے خوابوں اور خواہشات کو تعبیر دینے کے لیے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا تھا، تاہم یہاں بنیادی سہولیات نہ ہونے کے باعث لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لوگ بھارتی حکومت اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے ’سوتیلی ماں‘ جیسا سلوک کیے جانے پر سخت نالاں ہیں
عبدالعزیز کے بقول گاؤں کے لوگوں کا انحصار جھیل پر ہے۔ لوگ ولر سے ہی مچھلیاں اور سنگھاڑے نکالتے ہیں اور پھر فروخت کرکے اپنے اہل و عیال کی کفالت کرتے ہیں
وہ کہتے ہیں ’حکومت ہماری طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔ اللہ کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے۔ صرف دو گھنٹے بجلی رہتی ہے۔ گاؤں کی سڑک کی حالت کافی خستہ ہے، جگہ جگہ گہرے گڑھے پڑھے ہوئے ہیں، جو مریضوں کے لیے وبالِ جان بن گئی ہے۔ حتیٰ کہ پیدل بھی چلنا دشوار ہے۔‘
محمد یاسین بابا بھی اسی گاؤں کے رہائشی ہیں اور پیشے کے لحاظ سے ڈرائیور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’1971 میں آتشزدگی کے ایک واقعے میں گاؤں جل گیا تھا۔ اس وقت گنے چنے لوگوں نے علاقے سے تھوڑا دور اپنا گھر بنانے کا فیصلہ کیا۔ میرے نانا نے بھی نقل مکانی کی اور وہ بھی یہیں بسنے لگے۔‘
ان کے بقول: ’اس گاؤں کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔ اسکول میں جب اساتذہ کو بتایا کہ میں بنگلہ دیش میں رہتا ہوں تو وہ پہلے حیرت میں پڑ گئے، لیکن جب میں نے انہیں پوری کہانی سنائی تو وہ بہت خوش ہو گئے اور اس کے بعد دیگر بچوں سے تالیاں بجانے کو کہا۔ لوگوں کو پتا چلا ہے کہ کشمیر میں ایک گاؤں کا نام بنگلہ دیش ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ”کشمیر کے دیگر حصوں میں لوگوں کا جس طرح سے رہن سہن ہے، ویسے ہی یہاں بھی لوگ رہتے ہیں۔ سرکاری دستاویزات اور سرٹیفکیٹس پر بھی بنگلہ دیش نام درج ہے، لیکن گوگل پر یہ نام نہیں آتا۔ سڑک کی حالت خستہ اور کوئی انتظامات نہ ہونے کے باعث بہت کم سیاح اس گاؤں کو دیکھنے آتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے وہ مایوس ہو کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔“
یاسین بابا کے مطابق: ”موسم گرما میں یہاں پانی کی سطح کافی حد تک بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے راستہ بند ہو جاتا ہے۔ سڑک پر لوگوں کا چلنا پھرنا بھی محال ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی بیمار ہو یا کوئی خاتون ہوں تو انہیں کشتی کے ذریعے ہسپتال پہنچانا پڑتا ہے۔ یہاں کوئی رہنے نہیں آتا، نہ ہی کوئی سرکاری افسر۔ ضلعی افسران کو بھی شاید پتہ نہیں ہوگا کہ بانڈی پورہ میں بنگلہ دیش نامی کوئی گاؤں ہے۔“
انہوں نے مزید بتایا کہ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے۔ اس کے علاوہ ولر جھیل سے سنگھاڑے نکال کر فروخت کرتے ہیں، یہی ہمارا ذریعہ معاش ہے.