کرکٹ کو چھوڑ کر دیگر کھیلوں سے وابستہ اور ان کھیلوں میں کامیابیاں سمیٹنے والے کھلاڑیوں کو اس ملک میں چشم فلک نے ہمیشہ کسمپرسی کا شکار ہو ہی دیکھا، وہ جو اپنی محنت اور لگن سے اپنے ملک کا نام روشن کرتے رہے، خود ان کا نام آج وقت کی دھول میں کہیں گم ہو کر رہ گیا
ایسا ہی ایک نام پاکستان کے مایہ ناز باکسنگ اسٹار عبدالرشید قمبرانی کا بھی ہے، جو سولہ برس تک پاکستان کے نیشنل چمپین رہے، دو مرتبہ سیف گیم کے گولڈ میڈلسٹ قرار پائے، ایشیا کے ٹاپ اور ورلڈ ریکنک میں پانچویں نمبر پر رہے، لیکن آج وہ بھی حکومتی بے حسی کا شکار ہیں
اسی بے حسی سے دل برداشتہ عبدالرشید قمبرانی کا کہنا ہے کہ ’مجھے میری ملازمت پر بحال نہ کیا گیا اور میرا علاج نہ کیا گیا تو میں کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجاً اپنے ملکی اور بین الاقوامی طلائی تمغے جلا دوں گا۔ اب ان تمغوں کا میں کیا کروں؟‘
عبدالرشید قمبرانی چند ہفتے قبل اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اپنی بہن کے گھر منتقل ہوئے، جب ایک حادثے میں ان کا ایک بازو فریکچر ہو گیا
گذشتہ متعدد برسوں سے ان کی ٹانگ پر بھی گہرے زخم موجود ہیں۔ عبدالرشید قمبرانی کے مطابق وہ ڈاکٹرز کو علاج کے لیے پچیس ہزار روپے ادا نہ کر سکے، تو ڈاکٹروں نے علاج سے انکار کر دیا، جس کے بعد انہوں نے اپنے بازو اور ٹانگ پر موٹر سائیکل کے ٹائر کی پرانی ٹیوب چڑھا لی
عبدالرشید قمبرانی کے علاوہ ایک کمرے کے مکان میں پانچ مکین اور بھی رہائش پذیر ہیں
عبدالرشید قمبرانی کہتے ہیں ”مجبوری میں اس گھر میں پناہ حاصل کی ہے کیونکہ اسٹیل مل کراچی میں ستائیس سال تک ملازمت کرنے کے بعد چند ہفتے قبل مجھے بتایا گیا ہے کہ اب میں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ہوں۔ اسٹیل مل کی رہائشی کالونی میں موجود گھر بھی خالی کرنا پڑا
عبدالرشید قمبرانی کا کہنا ہے کہ بچپن میں مجھے میرے بھائی محمد یونس قمبرانی سخت ترین تربیت دیا کرتے تھے تو کہتے تھے کہ محنت کرو اس کا پھل ملے گا۔۔ اور پھل ملا بھی تھا
عبدلرشید قمبرانی کے مطابق ”جب میں رنگ میں اترا تو ہجوم علی علی (محمد علی کلے) کے نعرے لگاتا تھا“
’جب میں باکسنگ رِنگ میں جاتا تو لوگ مجھے لڑتا دیکھ کر محمد علی کلے کو یاد کیا کرتے تھے۔ عبدالرشید قمبرانی کہتے ہیں ’مجھے لوگوں نے دوسرا محمد علی کلے کا نام دے رکھا تھا۔‘
ان کے مطابق ’اب بھی جن لوگوں نے میری باکسنگ دیکھ رکھی ہے، وہ لوگ مجھے دیکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔‘
عبدالرشید قمبرانی نے 2001ع میں باکسنگ چھوڑ دی تھی۔ اس کے بعد سے وہ کوچنگ کر کے اپنا گزر بسر کر رہے تھے، مگر انہیں دس پندرہ ہزار روپے تک ہی آمدن ہوتی تھی
انہوں نے بتایا کہ ٹانگ اور دل کے مسائل کا تو وہ پہلے ہی شکار تھے لیکن چند دن ہوئے ایک موٹرسائیکل سوار کی ٹکر سے ان کا بازو بھی فریکچر ہو گیا۔
ماضی میں باکسنگ کے کھیل میں ملک کا اثاثہ رہنے والے عبدالرشید قمبرانی کہتے ہیں ’علاج کے لیے ہسپتال گیا تو انہوں نے کہا کہ تین دن بعد آنا اور ساتھ میں بتایا کہ پندرہ ہزار روپے بھی ساتھ لانا۔ میں نے ان کے ساتھ بہت بحث کی تھی کہ پندرہ ہزار روپے کس بات کے، مگر وہ نہیں مانے تھے۔ تین دن تک میں نے ان پیسوں کا انتظام کیا مگر جب تین دن بعد ہسپتال گیا تو انہوں نے کہا کہ پچیس ہزار لگیں گے۔‘
بے بسی کے عالم میں انہوں نے کہا کہ ’اب یہ پچیس ہزار میں کہاں سے لاتا؟ وہ پندرہ ہزار کسی اور معاملے میں خرچ ہو گئے تھے، جس کے بعد میں نے اپنا دیسی طریقہ علاج اختیار کر لیا۔‘
ملک کے لیے کئی میڈلز جیتنے والے ماضی کے عظیم باکسر قمبرانی نے بتایا ’ایک پنکچر والے سے ناکارہ ٹیوب دو سو روپے میں خرید کر اس کو کاٹ کر اپنے بازو اور ٹانگ پر چڑھا لیا ہے۔ خیر ہے میں پہلے بھی ایسے کرتا رہا ہوں، مگر مزید دکھ یہ ہے کہ میں اب اپنے بچوں سے بھی بچھڑ چکا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت میرے پاس میرے دل کی بیماری کی دوائی کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ بہن کوشش کر رہی ہے مگر وہ غریب بھی کیا کرے
’میں بہن کے گھر اور میرے بچے اپنے نانا نانی کے گھر میں ہیں۔ بیماری کے سبب کئی دن تک ان کو دیکھنے بھی نہیں جا سکتا ہوں۔ میری اہلیہ وفات پا چکی ہیں. اس عمر میں بچوں سے بھی جدا ہونا بہت تکلیف دہ ہے۔ ان کو پاس رکھ بھی نہیں سکتا کہ رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔‘
عبدالرشید قمبرانی کہتے ہیں کہ اسٹیل مل میں ملازمت ملنے کا وہ زمانہ تھا، جب میں نے شاید پہلی یا دوسری مرتبہ نیشنل چمپئین شپ جیتی تھی۔ اس کے بعد پہلی مرتبہ سیف گیمز میں کامیابی حاصل کی، جس کے بعد مجھے اسٹیل مل میں شمولیت کی دعوت دی گئی، تو بخوشی اس وقت تقریباً سات ہزار ماہانہ تنخوا پر یہ آفر قبول کی
ان کے مطابق ’وہ وقت میرے عروج کا دور تھا‘۔
عبدالرشید قمبرانی کے مطابق ’مجھے جاپان اور امریکا سے بھی کھیلنے اور وہاں جانے کی دعوت ملی تھی، مگر میں نے پاکستان اور اسٹیل مل کو ترجیح دی‘۔
ان کے مطابق ’آج جب مجھے اسٹیل مل سے ملازمت سے فارغ کیا گیا تو تقریباً ستائیس سال بعد میری تنخواہ صرف ستاون ہزار روپے تھی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے بنگلے، کوٹھیاں اور کاریں دو۔ یہ بھی نہیں کہتا کہ لاکھوں روپے دو، مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ مجھے میرے حق سے تو محروم نہ کیا جائے‘
پاکستان کے سابق باکسنگ اسٹار کا کہنا ہے کہ ’میں نے ساری زندگی اپنا سر نہیں جھکایا۔ رِنگ میں پاکستان کا پرچم سب سے بلند رکھا۔ اب بیماری اور حالات کے ہاتھوں بہت مجبور ہوچکا ہوں۔ پھر بھی کہتا ہوں کہ مجھے کچھ زیادہ نہیں بس اپنا حق چاہیے۔‘
عبدالرشید قمبرانی کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں کہ میرے باکسنگ کرئیر میں مسائل نہیں تھے، وہ کرئیر بھی مسائل سے بھرا ہوا تھا۔
ان کے مطابق ’میں ایشین چمپئین شپ میں سخت مقابلے کے بعد سلور میڈل حاصل کر کے عالمی مقابلوں کے لیے کوالیفائی کر چکا تھا، مگر اس وقت بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے ان مقابلوں میں شریک نہیں ہو سکا۔‘
عبدالرشید قمبرانی کے مطابق اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ’سیف گیمز اور ایشین گیمز میں تو میڈل جیتے ہی تھے مگر اس کے علاوہ ایران، بلغاریہ اور دیگر کئی عالمی مقابلوں میں بھی پاکستان کے لیے میڈل جیتے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ’حقیقی معنوں میں اپنی زندگی اور جوانی پاکستان اور باکسنگ کو دی۔‘