ریاضی دان شکُنتلا دیوی کی کہانی، جنہیں ’ہیومن کمپیوٹر‘ کا خطاب ملا!

ویب ڈیسک

ایک ٹیلی ویژن پروگرام کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی، جس میں شریک بہت سے لوگ اپنے ساتھ مشکل سے مشکل سوال لکھ کر لائے تھے

ان لوگوں کو امید تھی کہ وہ اپنے مشکل ترین سوالات سے ’ہیومن کمپیوٹر‘ کے نام سے عالمی شہرت حاصل کرنے والی خاتون کو لاجواب کر دیں گے

انہوں نے سوال کرنا شروع کیے تو خاتون ان کے ہر سوال کا تحمل سے جواب دیتی رہیں اور چند ہی منٹوں میں تمام لوگوں کو درست جواب دے کر ان کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا

پروگرام میں شریک ایک شخص نے ان سے سوال پوچھا ”25 اپریل 1960 کو کیا دن تھا؟“

”سوموار“ انہوں نے فوراً ہی جواب دیا، اور مزید سوالات کے لیے تیار ہو گئیں

یہ پروگرام سنہ 1977 میں بھارت کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل ’دور درشن‘ سے نشر ہوا تھا اور اس کی وڈیو یوٹیوب پر دستیاب ہے، جس سے یہ ظاہر ہو گیا کہ اس خاتون کو دیا گیا ’ہیومن کمپیوٹر‘ کا خطاب غلط نہیں

یہ ذکر ہے شکنتلا دیوی کا، جو پیدائشی طور پر میتھ جینئس تھیں اور دنیا بھر کے لاکھوں طلباء نے اسکولوں اور کالجوں میں ان کی ورکشاپس کے ذریعے ان سے سیکھا۔ انہیں ان کی مضبوط حسابی مہارت کی وجہ سے ’ہیومن کمپیوٹر‘ کا تاج پہنایا گیا

شکُنتلا دیوی سے ایک انٹرویو کے دوران میزبان نے جب پوچھا کہ ’کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں کہ آپ یہ کیسے کر لیتی ہیں؟‘ تو انہوں نے بے ساختہ جواب دیا ”یہ خُدا کا دیا گیا تحفہ ہے اور یہ تو میں بچپن سے ہی کر رہی ہوں“

شکُنتلا دیوی متحدہ ہندوستان کے شہر بنگلور میں 1929ع میں پیدا ہوئیں اور صرف تین سال کی عمر میں ہی ان کے والد کو اندازہ ہو گیا کہ ان کی صاحبزادی کوئی عام بچی نہیں، بلکہ غیرمعمولی صلاحیتوں کی حامل ہیں

ان کے والد سُندر راجا راؤ کو اپنی تین سالہ بیٹی کے ساتھ تاش کھیلتے ہوئے اندازہ ہوا کہ ان کی بیٹی ہر گیم تُکے سے نہیں جیت رہیں۔ تب انہوں نے یہی سوچا کہ یقیناً وہ بے ایمانی کر رہی ہیں اور اپنے والد کے کارڈز کو کسی طرح دیکھ لیتی ہیں، لیکن وہ غلط تھے

شکُنتلا وہاں بیٹھی تاش کے پتوں پر گہری نظر رکھے ہوئے تھیں اور اپنے دماغ میں مسلسل یہ حساب کتاب لگا رہی تھیں کہ ان کے والد کے ہاتھ کون سے پتے لگے ہیں اور یہی ان کی جیت کا راز تھا

ان کے والد ایک سرکس میں کام کرتے تھے، جہاں انہیں ایک پتلی سی رسی پر چل کر کرتب دکھانے ہوتے تھے اور وہ بپھرے ہوئے شیروں کو پُرسکون رکھنے کی ذمہ داری بھی ادا کرتے تھے

ان کے والد نے اپنی بیٹی کی صلاحیتوں کو پہچانا اور انہیں مزید نکھارنے میں اپنا کردار ادا کیا

انہوں نے کم عمری میں ہی ریاضی کی غیر معمولی مہارتیں دریافت کر لی تھیں۔ پھر والد نے ان سے روڈ شوز بھی کروائے اور انہیں ریاضی کے ٹیلنٹ شوز میں بھی لے گئے

شکنتلا دیوی کو اسکول چھوڑنا پڑا کیونکہ ان کا خاندان ان کی فیس برداشت کرنے کے قابل نہیں تھا۔ لیکن وہ پیدائشی طور پر باصلاحیت تھیں اور اسکول میں رسمی تعلیم کی ضرورت کے بغیر بھی ریاضی کے مشکل حسابات کو حل کرنے کے قابل تھیں۔ یہاں تک کہ چھ سال کی عمر میں، وہ عوامی پرفارمنس دینے کے لیے یونیورسٹیوں کا دورہ کرتی تھیں جیسے کہ یونیورسٹی آف میسور، انامالائی یونیورسٹی، عثمانیہ یونیورسٹی، اور وہ شاندار طریقے سے تمام سوالوں کے جواب دیتی تھیں۔ وہ وقت کے ساتھ ساتھ مشہور ہوتی جا رہی تھی اور بچپن میں بھی زیادہ پیسے کمانے لگی تھیں

بیرون ملک ایک بڑا موقع دیکھ کر انہوں نے 1950 کی دہائی میں لندن سے شروع ہونے والے دنیا بھر کے دورے شروع کیے جہاں وہ میڈیا میں مقبول ہوئیں اور بی بی سی نے انہیں ہیومن کمپیوٹر کا خطاب دیا۔ رفتار اور درستگی کی اپنی ریاضی کی مہارت میں، وہ کمپیوٹر کو مات دے سکتی تھیں

ذاتی طور پر انہیں اپنے لیے ’انسانی کمپیوٹر‘ کا خطاب کبھی بھی پسند نہیں آیا،
یہ خطاب انہیں اس وقت دیا گیا جب وہ بی بی سی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے نظر آئیں۔ اس شو کی میزبانی لیزلی مچل نے 5 اکتوبر 1950 کو کی تھی

تب شکنتلا دیوی کی عمر اکیس سال تھی، یورپ کے دورے کے دوران دیے گئے اس انٹرویو میں میزبان کے ریاضی اور اعداد سے متعلق ایک پیچیدہ سوال کا جواب چند ہی سیکنڈز میں دے دیا

میزبان نے ان کے دیے گئے جواب کو غلط قرار دیا لیکن انہیں جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ شکُنتلا دیوی کا جواب ہی درست تھا اور ان کے کیلکولیٹر پر آ رہا جواب غلط تھا

امریکی اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ نے 1976 میں ایک مضمون میں شکُنتلا دیوی کے بارے میں لکھا کہ ’وہ ریاضی کے مشکل سے مشکل سوال کا صحیح جواب دینے میں اُتنا ہی وقت لگاتی ہیں، جتنا سوال پوچھنے میں لگتا ہے۔ آپ انہیں پچھلی صدی کی کوئی بھی تاریخ بتا دیں، وہ آپ کو حساب لگا کر یہ بتا دیں گی کہ اس تاریخ کو کون سا دن اور ہفتہ تھا۔‘

سنہ 1980 میں لندن کے امپیریل کالج میں شکُنتلا دیوی نے صرف 28 سیکنڈز میں 13 ہندسوں پر مشتمل دو نمبرز کو ضرب دے کر صحیح جواب دے دیا، جس کے باعث انہیں 1982 کی ’گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈز‘ میں جگہ دی گئی اور اسی وجہ سے انہیں ’ہیومن کمپیوٹر‘ کا لقب بھی ملا

ایشین ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا ”جب میں پیدا ہوئی تو میرے خاندان کے ایک بزرگ نے کہا کہ یہ بچی بڑی ہو کر ایک قد آور شخصیت بنے گی اور سب نے یہی سوچا کہ شاید میں کوئی بڑی موسیقار یا رقاصہ بنوں گی“

ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ وہ کمپیوٹر کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں تو انہوں نے کہا ”میرا دیکھنے کا نظریہ یہ ہے کہ آدمی اب بھی کمپیوٹر پر فوقیت رکھتا ہے کیوں کہ کمپیوٹر آدمی نے ہی بنایا تھا، کمپیوٹر نے آدمی دریافت نہیں کیا تھا“

ریاضی کی محبت نے شکُنتلا دیوی کو علوم فلکیات کی طرف بھی راغب کیا اور اس شوق کی وجہ سے وہ اتنی مشہور ہوئیں کہ دن میں ساٹھ ساٹھ لوگ ان سے قسمت کا حال جاننے آتے تھے۔
انہوں نے علم فلکیات پر ایک کتاب ’آسٹرولوجی فور یو‘ بھی لکھی

بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ شکُنتلا دیوی نے سیاست میں بھی طبع آزمائی کی، لیکن یہاں ان کی ریاضی کی مہارت ان کے کسی کام نہ آئی۔ سنہ 1980 میں ہونے والے انتخابات میں وہ لوک سبھا کی دو نشستوں پر آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑی ہوئیں اور دونوں ہی نشتیں ہار گئیں

ضلع میدک سے انہیں اندرا گاندھی کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انتخابی مہم کے دوران شکُنتلا دیوی نے اندرا گاندھی پر کڑی تنقید کی لیکن وہ اپنی مقبولیت کو ووٹوں میں تبدیل نہ کر سکیں اور اندرا گاندھی انہیں شکست دے کر بھارت کی وزیراعظم بن گئیں

سنہ 2020 میں ’ہیومن کمپیوٹر‘ کہلانے والی اس ذہین خاتون پر بھارت میں ایک فلم بھی بنائی گئی، جس میں مرکزی کردار بالی وُڈ اداکارہ ودیا بالن نے ادا کیا۔ یہ فلم ان کی وفات کے سات سال بعد ریلیز کی گئی تھی۔ ان کی وفات 21 اپریل 2013 میں بنگلور کے ایک ہسپتال میں ہوئی تھی

شکُنتلا دیوی اپنی زندگی میں ہی لوگوں کے لیے حیرت کا باعث نہیں بنتی رہیں بلکہ اب بھی جب لوگ ان کے بارے میں کوئی وڈیو دیکھتے یا پڑھتے ہیں تو ان کا حیران ہونا فطری ہے کیوں کہ ان سے پہلے اور بعد میں کسی انسان نے ’ہیومن کمپیوٹر‘ کا لقب حاصل نہیں کیا، جس سے ان کی ذہانت کی درست طور پر عکاسی ہوتی ہے۔

ان کی بہترین مہارت نے انہیں ’ہیومن کمپیوٹر‘ کے نام سے مشہور کیا۔ شکنتلا دیوی ایک مصنفہ بھی تھیں، انہوں نے نے ریاضی کے حساب، یادداشت کی طاقت، سماجی مسائل، پہیلیاں اور اسرار پر کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی سماجی مسائل سے متعلق کتابیں متاثر کن اور تعلیمی ہیں۔ شکنتلا دیوی نے ریاضی میں تفریح ​​کا اضافہ کیا ہے اور اسے سیکھنے کے لیے آسان ترین تصورات کے طور پر بیان کیا ہے۔ انہوں نے بہت سے طلباء کو اپنی ریاضی کی صلاحیتوں کو آگے بڑھانے کی ترغیب دی ہے۔

شکنتلا دیوی مختلف اسکولوں اور کالجوں میں جایا کرتی تھیں۔ وہ مختلف اسکولوں اور کالجوں میں ورکشاپس اور سیمینارز کرواتی تھیں۔ ایک بار وہ نیو جرسی کے ایک ہائی اسکول میں ایک سیمینار کر رہی تھیں جہاں تقریباً دو ہزار سے زائد طلباء اور اساتذہ نے اس سیمینار میں شرکت کی، جہاں انہوں نے ان تمام طلباء اور اساتذہ سے پوچھا کہ کیا انہیں ریاضی پسند ہے؟ تب ایک ہاتھ اوپر گیا، اور وہ ہاتھ تھا ریاضی کے ایک استاد کا

یہ دیکھ کر انہوں نے کہا، ”بچے ریاضی سے کیوں ڈرتے ہیں؟ غلط نقطہ نظر کی وجہ سے۔۔ کیونکہ اسے محض ایک مضمون کے طور پر دیکھا جاتا ہے“

طلباء کو ریاضی سیکھنے کی ترغیب دینے کے لیے انہوں نے کہا، ”ریاضی کے بغیر، آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ آپ کے آس پاس کی ہر چیز ریاضی ہے۔ آپ کے آس پاس کی ہر چیز نمبر ہے۔ نمبروں کی زندگی ہوتی ہے؛ یہ صرف کاغذ پر علامتیں نہیں ہیں۔ طلبہ ریاضی سے کتراتے ہیں، لیکن حقیقت میں ریاضی انسان کی بہترین دوست ہے۔“

اپنی زندگی اور اس نے ریاضی کیسے سیکھی اس کے بارے میں مزید بتاتے ہوئے، انہوں نے کہا، ”میں نے کوئی رسمی تعلیم نہیں لی ہے۔ تعلیم صرف اسکول جانے اور ڈگری حاصل کرنے کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ آپ کے علم کو وسیع کرنے اور زندگی کی سچائی کو جذب کرنے کے بارے میں ہے۔“

انہوں نے کہا، ”شاید کوئی بھی ایسا کر سکتا ہے اگر وہ بچپن سے ہی روزانہ گھنٹوں نمبروں کے ساتھ کھیلتا“

1960 میں، شکنتلا دیوی نے پریتوش بنرجی سے شادی کی اور انہیں ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ ریاضی دان شکنتلا دیوی حقیقی طور پر زمین پر ایک ایسا عجوبہ ہیں جن کی زندگی کے سفر کو طلباء اور والدین کو جاننے کی ضرورت ہے

شکنتلا دیوی کا انتقال 83 سال کی عمر میں 21 اپریل 2013 کو بنگلور میں ہوا۔ انہیں سانس کی تکلیف تھی۔ اپنی غیر معمولی مہارت اور ذہانت سے انہوں نے دنیا بھر میں ریاضی سیکھنے والوں کو متاثر کیا۔ بہت زیادہ رفتار کے ساتھ درست حساب کرنے کی ان کی صلاحیت پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ وہ حساب میں کمپیوٹر کی رفتار کو مات دیتی تھیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close