یہ کوئی کہانی نہیں، بلکہ ایسے ہے جیسے آج کے زمانے کی کوئی بولی وڈ یا ہولی وڈ کی سسپنس فلم دیکھ رہے ہوں۔ پھر اچانگ قصّہ گو کہہ اُٹھتا ہے، باقی انشااللہ شب فردہ یعنی کل۔ اور عین اسی وقت کہانی ایک نیا موڑ اختیار کرے گی کہ کس طرح ظالم جادوگر نے اپنی موت کو طوطے کی شکل میں پنجرے میں بند کیا تھا اور کس طرح وہ چرواہا کوہِ قاف کی چوٹی پر پہنچ کر اس خوبصورت شہزادی کے لیے گلاب کا پھول توڑ کر، اور طوطے کو پنجرے سے نکال کر اس کی گردن مروڑ کر اس کو موت کی نیند سلا دے گا۔
لیکن ہوٹل میں چائے، کافی، ملائی، دودھ پینا نہ بھولیں، ہوٹل والے کا بھی کچھ حق بنتا ہے۔ جس نے پہلے کچھ نہیں پیا، وہ اب اسی وقت ضرور ہوٹل والے سے کسی چیز کی فرمائش ضرور کرنے پر مجبور ہوگا۔ کچھ پی کر اس کا معاوضہ ادا کر کے چلیں گے۔ ”اللہ ئے میارے“ ….اور مجھے اپنی دعاؤں میں یاد کریں۔
یوں ہی شب و روز گزرتے رہے گوادر کے شاہی بازار کے۔ آپ گوادر بازار کو اس کی ابتدا کہہ لیں یا آخر، جہاں مُرک کا ہوٹل ہے، جو کسی زمانے میں بہترین ذائقہ دار چائے کا مرکز ہوا کرتاتھا، جو گوادر کے بزرگ ماہی گیروں کی بیٹھک کا پہلا مرکز تھا۔ لیکن ان کے بیٹے علی بھی دنیا سے چلے گئے
مراد بخش اپنے زمانے کا ایک مایہ ناز فٹ بال کھلاڑی تھا۔ پھر اس کے بیٹے مجید اور غلام محمد اور خلیل اور شکیل بھی بہترین فٹ بالر بنے۔ مسقط عمان کی قومی فٹ بال ٹیم میں بابو غلام محمد اور گوادر کے کئی دوسرے کھلاڑیوں میں کریم بخش مرزوک و دیگر بلوچ کھلاڑیوں پر عمانی جان نچھاور کرتے تھے۔
مرک ہوٹل کے سامنے ابراہیم کا پان کا کبین شکستہ حالت میں اب بھی سلامت ہے۔ لیکن ابراہیم اب جوان نہیں رہا۔ کوئی اور کام کر نہیں سکتا، اور گوادر کے اس آخری کونے میں اب اور پان کی کوئی دکان نہیں بچا ہے۔ ہوٹل کو ان دنوں تالا لگا دیا گیا جب وہ بیمار ہوا۔ اور ایک دن ماہی گیروں کی بیھٹک اور چائے خانہ زمین بوس ہوگیا
اب آجو باجو میں روچو مل کا دیہانت ہونے کے بعد ان کا بیٹا لال چند کب کا انڈیا سدھار گیا۔ مڑ کے گوادر یاترا کرنے ایک بار آیا اور دوبارہ بمبی چلا گیا۔ کسی کو پتہ نہیں کہ اب زندہ ہے کہ نہیں۔ قریب صرف ایک استری والا ہے بچا تاجو رہ گیا جو 1958سے پہلے والی کوئلہ سے استری کو گرم کر کے اپنی روزی روٹی کما رہا ہے
اب آغا خانی سیٹھ قمرالدین کے آفس کے سامنے وہ کالی عربی عورت جو مال پوری بناتی تھی، اس کی واحد سہیلی عربی عورت کنان بھی کب کی اس دنیا سے گزر گئیں۔ واحد عرب کال جانے کیسے گوادر میں رہ گیا، سنا ہے مسقط میں کوئی جرم کرکے گوادر کی پاکستان میی شمولیت کے آخری دنوں میں بھیک مانگتا تھا، کوئی مستقل گھر نہیں تھا ایک بوری میں اپناکل اثاثہ لیکر تمام دن بازار اور گھروں میں بھیک مانگتا یا کسی کے آگ جلانے والی لکڑیاں توڑتا تو کھانے پینےکا بندبست ہوتا وہ بھی اب اس دنیا سے گزر گیا۔ مامی کوفتہ والی بھی گزر گئی
اس کے بعد نئے مسلک، نئے لوگ آتے رہے۔ بہت کچھ بدل گیا ہے۔ لیکن پرانے لوگ نئی انتظامیہ، نئے احکامات، نئی افسر شاہی۔ عمانی دور کا گوادر صوبہ سے تحصیل کا درجہ پر پہنچا۔ والی (گورنر) سے انتظامی سربراہ ایک تحصیلدار بنا۔
استادامام بخش کہتے ہیں کہ سلطان کے دور سے لے کر پاکستان تک مقامی ماہی گیروں کے لیے سمندر کی کوئی حدود مقرر نہیں تھی، گوادر کے ماہی گیر پسنی، پشکان، جیوانی تک ماہی گیری کرتے تھے۔ جب آڈینگو ہوتا تو کئی ماہی گیر کشتیاں گہرے سمندر میں مچھلیوں کو گھیر لیتی تھیں۔ وہ لاکھوں کی مچھلیاں پکڑتے ہیں۔
سلطنت کے دور میں ماہی گیروں کے پاس ریشم اور پلاسٹک کے جال نہیں ہوتے تھے۔ صرف مضبوط دھاگے کے جالوں سے یا کانٹوں سے شکار کیا کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اب ماہی گیری کے جدید آلات آ جانے سے ماہی گیری میں بھی جدت آ گئی ہے۔ مچھلیاں سمندر میں ایک جگہ نہیں ٹھہرتی ہیں، کہیں سے کہیں چلی جاتی ہیں، انھیں کسی سرحد اور ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسی طرح اُس زمانے میں ماہی گیروں کے لیے سمندر میں کسی سرحد کی ضروت نہیں تھی۔ اب وقت بدل گیا ہے۔
گوادر میں ایک بڑی مچھلی مارکیٹ تھی جہاں شیر مچھلی، سارم، ہاہور، گلبت، سولیگ، کّیر، پاگاس اور کئی اقسام کی مچھلیاں بیچی جاتی تھیں۔ باقاعدہ نیلامی ہوتی تھی۔ سلطان کے کارندے ہر دس مچھلی پر ایک مچھلی ٹیکس کی صورت میں لے جاتے تھے اور اس کو بیچ کر اس کے پیسے سرکاری خزانے میں جمع کراتے تھے
چھوٹی مچھلیوں کے لیے دو مچھلی مارکیٹیں تھیں۔ ان میں ایک پاسار اور دوسری کولگری مارکیٹ تھی۔ جہاں لیجر اور کولگر مچھلیاں لائی جاتی تھیں۔ ان کے خریدار زیادہ تر مکران کے ساربان تھے، جو ان کو کیچ لے جا کر ان کے بدلے کھجور لاتے تھے
اُس زمانے میں اعلیٰ کوائلٹی کے جھینگا کا نشد نما کا علاقہ موجودہ گوادرپورٹ کا علاقہ تھا، جہاں وہ سمندری گھاس اور چکنی مٹی میں افزائش کرتے تھے۔ اس علاقے میں اتنی تعداد میں جھینگے ہوتے تھے کہ ساحل کے کنارے چھوٹے بچے ان کو بڑی آسانی سے کسی بڑے کپڑے کے کونے میں پکڑ کر ان کا شکار کیا کرتے تھے۔ اب یہ بہت کم تعداد میں ملتے ہیں
تین قیمتی مچھلیاں ناپید ہوتی جا رہی ہیں؛ ان میں جھینگے، پاپلیٹ اور سورو مچھلی جو انتہائی لذیذ اور ٹیسٹی ہیں۔ خصوصاً گوادر کے جھینگے کو ابال کر نمک لگا کر دھوپ میں خشک کر کے بیچا جاتا۔ دوبئی اور عراق میں اس کی بڑی مانگ تھی
گوادر میں نمک بنانے کے دو علاقے مشہور تھے؛ ایک وادی ڈھور جہاں کا پانی انتہائی نمکین اور کھارا ہے اور دوسرا ڈھوریہ کانجلی اب تو ختم ہو چکا ہے، وہ گوادر پورٹ کا یہ علاقہ جس کو کانجلی کہتے تھے۔ یہاں ایک بڑا گڑھا تھا جہاں سمندر کا پانی اور پہاڑیوں سے بارش کا پانی جمع ہو جاتا تھا۔
شاید میں گوادر کے کچھ ایسےعلاقوں کا نام لے رہا ہوں، جس سے یہاں کی نئی پود ناواقف ہے۔ مثلاً ہیمو، اور کالا ٹیمبوک سے بھی پانی آ جاتا تھا۔ جہاں نمک سازی کا وسیع کاروبار چلتا تھا۔ کئی لوگ برسرِ روزگار تھے۔ یہ لوگ کئی دہائیوں تک اس نمکین پانی کو مٹی کے تالابوں میں جمع کرتے تھے۔ ان میں کچھ زمین چوس لیتی تھی اور کچھ سورج کی تپش اور گرمی سے بھاپ بن کر اڑ جاتا تھا۔ کچھ دنوں میں سفید نمک تیار ہوتا تو اس کے کارندے ان کو ٹوکریوں میں ڈال کر جمع کر لیتے تھے
گوادر کی مچھلیوں کے بیوپاری ان کانجلیوں سے سفید صاف ستھرا نمک خرید کر اپنی مچھلیوں کو خراب ہونے سے محفوظ کر لیتے تھے۔ جب گوادر میں ایک آغا خانی سیٹھ عیسیٰ جعفر نے ایک Fish Processing factory بنائی تو سب کانجلیوں کی زمینیں مٹی کے بھاؤ خرید کر ان کو بے روزگار کر دیا۔ وہ تو خود فوت ہو گئے، ان کے ورثا اس کو پھر فش ہاربر بنانے والی B6 کمپنی کو یا شاید حکومتِ بلوچستان کو فروخت کر چکے ہیں
پھر وادی ڈھور کے علاقے میں لوگوں کی بڑی تعداد نمک سازی کا کام کرتے تھے لیکن وقت ایک جیسا نہیں رہتا سی پیک کے تحت ایکسپریس وے کی تعمیر سے وہ بھی وقت کے تپیڑوں کے نزر ہوگئے۔ کیوں کہ پورا وادی ڈھور کا علاقہ چائنا پاک اکنامک کوری ڈور کے لیے خرید لیا گیا ہے۔ اس علاقے میں اب ایکسپریس وے اور روڈ بن رہا ہے
پرانے ماسٹر پلان کے تحت گوادر کی پرانی ابادی کا کوئی مستقبل نہیں۔
حوالہ : ہم سب