بَیٹ بھی چھین لیا، بیٹسمین بھی۔۔۔ پی ٹی آئی الیکشن کے پِچ پر کیا کرے گی؟

ویب ڈیسک

الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے ’بَلّے‘ کا انتخابی نشان واپس لے لیا ہے۔ فیصلے کے نتیجے میں بیرسٹر گوہر خان پارٹی کے چیئرمین بھی نہیں رہے

اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جمعہ کو سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے ”پی ٹی آئی نے اپنے انتخابات پارٹی آئین کے مطابق نہیں کروائے۔ مقررہ مدت کے اندر الیکشن نہ کروانے کی وجہ سے پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن ختم ہوگئی ہے اس لیے پارٹی سے بلے کا نشان واپس لیا جاتا ہے“

دوسری جانب پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے انہیں دھمکائے جانے کی شکایات سامنے آ رہی ہیں کہ اگر کاغذات نامزدگی جمع کروائے تو انہیں ’وہاں لے جایا جائے گا، جہاں جانے والے نامعلوم کہلاتے ہیں‘

پی ٹی آئی کے کراچی سے سابق رکن صوبائی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر نگراں وزیر اعلیٰ سندھ مقبول باقر کے لیے چھوڑے گئے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے ”آج میرے گھر اور دفتر میں تین گاڑیوں پر کچھ لوگ آئے۔ مجھے پیغام دیا گیا کہ مجھے اپنے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروانے چاہیں اور اگر میں نے ایسا نہیں کیا تو وہ مجھے کہیں اٹھا کر لے جائیں گے۔ میں پہلے ہی گھر میں نظر بند ہوں۔ جن لوگوں نے مجھے پیغام رسانوں کے ذریعے پیغام پہنچایا ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ مجھے صرف جیل میں نہیں ڈالیں گے، بلکہ وہاں لے جائیں گے جہاں جانے والے نامعلوم کہلاتے ہیں“

سندھ اسمبلی میں سابق قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی نے سوال کیا ”کیا یہ آزاد الیکشن ہے، کیا یہ آزاد پاکستان ہے؟“

گذشتہ چند دنوں کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے جانے کے سلسلے میں مشکلات اور رکاوٹوں سے متعلق بیانات سامنے آ رہے ہیں

پنجاب کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 77 سے تحریک انصاف کے امیدوار اور سابق رکن قومی اسمبلی میاں طارق محمود کا کہنا ہے ”میرے وکلا کاغذات نامزدگی لے کر ریٹرننگ آفیسر کے دفتر گئے، تو وہاں موجود پولیس نے انہیں اندر ہی نہیں جانے دیا۔ ہمارے وکلا، تجویز کنندگان و تائید کنندگان کو عمارت تک میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔۔ ہمیں کاغذات نامزدگی تو داخل کروانے دیے جائیں، یہ ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے۔ میری عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے اپیل ہے کہ ہمیں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا حق دیا جائے“

پنجاب کے بہت سے حلقوں میں تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہیں کاغذات نامزدگی کے حصول میں مشکلات درپیش آئیں اور اگر وہ انھیں حاصل کرنے میں کامیاب بھی رہے ہیں تو ان سے کاغذات چھین لیے گئے

گذشتہ دنوں سیال کوٹ سے تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار کی والدہ نے بھی سوشل میڈیا پر بتایا کہ اُن کی جانب سے کاغذات نامزدگی کے حصول کے فوراً بعد ان کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا، جس کے دوران انھیں ہراساں اور زدوکوب کیا گیا

دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنماؤں کے مطابق پورے ملک بالخصوص پنجاب کے مختلف شہروں میں پی ٹی آئی کے جن رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف نو مئی کے واقعات کے تناظر میں مقدمات درج کیے گئے تھے، ان مقدمات میں نامزد ملزمان کی گرفتاریوں کےلیے پولیس ایک بار پھر متحرک ہے اور ان کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارنے جانے کے عمل میں تیزی آئی ہے۔

صرف ضلع گوجرانوالہ کی بات کی جائے تو پولیس نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے گوجرانوالہ کینٹ پر حملے اور جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے میں تحریک انصاف کے 51 رہنماؤں کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری حاصل کیے ہیں۔ گوجرانوالہ پولیس نے عدالت میں رواں ہفتے ہی ناقابل ضمانت وارنٹ کے حصول کی درخواست دی تھی۔ عدالت نے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے مزید کارروائی کے لیے 23 دسمبر کو رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔ یاد رہے کہ کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی آخری تاریخ 24 دسمبر ہے

دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بلے کا نشان واپس لیے کے فیصلے کے بعد جو سوال سب سے زیادہ پوچھا جا رہا ہے وہ یہی ہے کہ اب پاکستان تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہوگا اور آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پارٹی کے پاس کون کون سے آپشنز موجود ہیں؟

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے فوری بعد پاکستان تحریک انصاف نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اسے لندن پلان کا حصہ قرار دیا ہے۔

ترجمان پی ٹی آئی نے کہا ”لاڈلا سمجھتا ہے کہ تحریک انصاف اور بلے کی موجودگی میں وہ انتخاب نہیں جیت سکتا۔ بیٹ ابھی مرا نہیں بلکہ بیٹ زندہ ہے اور ہم آٹھ فروری کا الیکشن جیتیں گے“

اپنے ردعمل میں بیرسٹر گوہر نے کہا ”ہمیں اس سازش کا علم تھا۔ ہم ہائی کورٹ سے رجوع تو کریں گے اور ٹکٹ جمع کروانے کی تاریخ سے پہلے اپنا نشان واپس لے لیں گے لیکن ہائی کورٹ کو خود بھی اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے“

سیاسی اور آئینی ماہرین نے اس فیصلے کو پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک بڑا سیٹ بیک قرار دیا ہے

ماہر قانون حافظ احسان کھوکھر ایڈووکیٹ کا کہنا ہے ”یقیناً یہ تحریک انصاف کے لیے یہ ایک بڑا دھچکہ ہے اور وہ اس فیصلے کی توقع نہیں کر رہے تھے“

انہوں نے کہا ”تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیے جانے کے بعد اس وقت پارٹی کا کوئی سربراہ بھی موجود نہیں۔ تحریک انصاف چاہے تو وہ اس فیصلے کو آئین کے تحت ہائی کورٹ میں چیلنج کر سکتی ہے۔ اگر مقررہ وقت میں تحریک انصاف کو ریلیف نہیں ملتا تو ایسی صورت میں اُنہیں آزاد امیدوار کھڑے کرنا پڑیں گے اور ضروری نہیں ہے کہ ہر حلقے میں انہیں ایک جیسا انتخابی نشان ملے، لہٰذا تحریک انصاف کا ووٹر تذبذب کا شکار ہو سکتا ہے“

پارلیمانی امور کے ماہر احمد بلال محبوب نے اس فیصلے کو تحریک انصاف کے لیے بڑا دھچکہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”ان کے پاس اعلٰی عدلیہ سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔۔ اگر اعلٰی عدلیہ سے بھی انہیں ریلیف نہیں ملتا تب بھی تحریک انصاف کے پاس ایک اور آپشن موجود ہے کہ وہ بلے کے علاوہ کسی اور انتخابی نشان پر الیکشن لڑے“

انہوں نے مزید کہا ”اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ تحریک انصاف کسی غیر معروف سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کرے اور ان کا انتخابی نشان اپناتے ہوئے انتخابی میدان میں اترے۔ اس سے اگرچہ ان کے پاس بلے کا انتخابی نشان نہیں ہوگا، تاہم پورے ملک میں وہ اپنے ووٹرز کو ایک ہی انتخابی نشان پر مہر لگانے کا کہہ سکتے ہیں“

ایک سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب کا کہنا تھا ”تحریک انصاف کا ڈھانچہ ابھی موجود ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ان کی صرف الیکشن کمیشن سے ان لسٹ ختم ہوئی ہے، جس وجہ سے انہیں انتخابی نشان نہیں ملے گا۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close