شکایات کے باوجود فیس بک اور گوگل پر دھوکے بازوں کے اشتہارات جاری

ویب ڈیسک

فیس بک اور گوگل دھوکہ دہی کے واقعات سامنے آنے کے بعد بھی اپنے پلیٹ فارمز سے آن لائن اسکیم (مالیاتی دھوکہ دہی پر مبنی جعلی اسکیموں) کے اشتہارات ہٹانے میں ناکام رہے ہیں

اس بات کا انکشاف صارفین کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے برطانوی کنزیومر واچ ڈاگ ’’وچ؟‘‘ (?Which) نے ایک حالیہ سروے کے بعد کیا ہے، جس کے مطابق فراڈ سے متاثرہ افراد کی شکایات  کے بعد بھی گوگل اور فیس بک پر یہ اشتہارات جوں کے توں دکھائی دے رہے ہیں

سروے کے مطابق، رپورٹ کیے گئے ’’دو نمبر‘‘ اشتہارات میں گوگل 34 فیصد، جبکہ فیس بک 26 فیصد کو ہٹانے میں ناکام رہا

اس کے برعکس ان دونوں کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے پلیٹ فارمز سے دھوکہ دہی پر مبنی اشتہارات کو ہٹا دیا ہے، جو اب ان کے پلیٹ فارمز پر ممنوع ہیں

سروے میں شامل 15 فیصد افراد آن لائن دھوکہ دہی کے اشتہارات کا شکار ہوئے اور انہیں رپورٹ بھی کیا۔ ان میں سے 27 فیصد فیس بک اور 19 فیصد گوگل پر تھے۔ جبکہ 43 فیصد نے اپنے ساتھ ہونے والے فراڈ کو ٹیکنالوجی کمپنیوں کو رپورٹ نہیں کیا

فیس بُک پر آن لائن فراڈ کی شکایت نہ کرنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے خیال میں سب کچھ ٹھیک تھا۔ جبکہ گوگل پر دھوکہ دہی کا شکار ہونے والے افراد کو پتا ہی نہیں تھا کہ اس دھوکہ دہی scam کی شکایت کیسے کی جائے، کیوں کہ گوگل کا رپورٹنگ کا طریقہ کار بہت پیچیدہ اور غیر واضح ہے

اس حوالے سے ?Which کے لیے کام کرنے والے صارفین کے حقوق کے ماہر ایڈم فرنچ کا کہنا ہے کہ یہ آن لائن پلیٹ فارمز کی بے عملی ہے کہ جعلی اشتہارات کی رپورٹ کیے جانے کے بعد بھی مشتہرین دھوکہ دہی پر مبنی نئے اشتہارات لگا دیتے ہیں۔ آن لائن پلیٹ فارمز کو چاہیے کہ وہ دھوکہ دہی پر مبنی مواد کو ممکنہ شکار کے پاس پہنچنے سے قبل ہی تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائیں

انہوں نے کہا کہ آن لائن پلیٹ فارمز کی قانونی ذمے داری ہے کہ وہ جھوٹ اور دھوکہ دہی کے مواد کو شناخت کرکے اپنی ویب سائٹس سے ہٹائیں اور حکومت کو بھی ایکشن لینے کی ضرورت ہے

دوسری جانب  فیس بک کے نمائندے کا کہنا ہے کہ فیس بک پر جعل سازی اور دھوکہ دہی پر مبنی سرگرمیوں کی قطعی اجازت نہیں ہے اور انہوں نےWhich کی جانب سے رپورٹ کیے گئے بہت سارے پیجز کے خلاف ایکشن لیا ہے

جب کہ گوگل نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ پالیسیوں کی خلاف ورزی پر تین ارب دس کروڑ اشتہارات پر پابندی لگا کر انہیں اپنے پلیٹ فارمز سے ہٹا چکا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close