کراچی – ادرک کا استعمال صرف کھانے کا سواد بڑھانے کے لئے ہی نہیں کیا جاتا بلکہ مشروبات، دوائیوں اور دیگر اشیا میں بھی اس کا استعمال عام ہے
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی سبزیوں میں شامل ادرک کی کمرشل کاشت پاکستان میں ہوتی ہے یا نہیں؟
دو جنوری کو وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی سینیٹر ثانیہ نشتر نے ایک تصویر ٹویٹ کی، جس کے ساتھ لکھا کہ ’آج میں نے چکوال کے علاقہ بلکسر میں پاکستان میں ادرک کی پہلی کامیاب کاشت کا افتتاح کیا۔‘
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ادرک ایک اہم فصل کے طور پر سامنے آئے گی اور کاشتکار برادری کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگی
ملک میں ادرک کی پہلی فصل گیارہ ماہ کے دوران کاشت ہوئی
ایونٹ کے شرکا کو ادرک کی مستحکم پروڈکشن کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ کس طرح اس کی فصل کو کاشت کیا جاسکتا ہے۔
ماہرین نے اس موقع پر ملک مین ادرک کی کاشت سے کاشت کاری فوائد کے حوالے سے تحقیق پر مبنی تفصیلات پیش کیں
پاکستان ایگری کلچرل ریسرچ کونسل (پی اے آر سی) کے چیئرمین ڈاکٹر غلام محمد علی نے ڈاکٹر ثانیہ نشتر کہ ادرک کی کاشت کے پراجیکٹ میں کامیابی اور پاکستان کے کاشت کاری شعبے کی ترقی کے مواقع پر بریفننگ دیتے ہوئے بتایا کہ ادرک کی اقسام کو کامیابی سے اگایا گیا اور فی ایکڑ 8 سے 10 ٹن ادرک کی کاشت حاصل کی جاسکتی ہے
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی ادرک کی پاکستان میں پہلی ’کمرشل‘ کاشت تھی؟ اس حوالے سے ’ایوب ایگریکلچرل ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘ کے سائنٹیفک افسر عامر لطیف کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے پاکستان میں کبھی ادرک کی کمرشل کاشت نہیں کی گئی، کیونکہ اس کی کاشت ایک مشکل عمل ہے
’ہم پچھلے کئی سالوں سے مختلف مقامات پر ادرک کی کاشت کے تجربات کررہے تھے اور اس سال ایک تجربہ کامیاب ہوا۔‘
عامر لطیف کے مطابق پچھلے سال چکوال کے اسی کسان نے ایک کنال پر ادرک کی کامیاب کاشت کی تھی، جس کی کامیابی کے بعد اس بار ایک ایکڑ زمین پر ادرک کو کاشت کیا گیا ہے
دو سال قبل ’ایوب ایگریکلچرل ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘ نے ایک تحقیق کے بعد حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ پنجاب کے دیگر علاقوں گوجرانوالہ، سیالکوٹ، نارووال اور فیصل آباد میں بھی ایسی زمینیں موجود ہیں، جہاں ادرک کی کاشت ہو سکتی ہے
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے عامر لطیف کا کہنا تھا کہ نارووال اور سیالکوٹ کا جو حصہ کشمیر سے ملتا ہے، وہ قابل کاشت علاقہ ہے، لیکن وہاں ورکنگ باؤنڈری کی وجہ سے کچھ فوجی پابندیاں ہیں، جن کے باعث وہاں تجربات نہیں کیے جا سکے
واضح رہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں استعمال کے لیے سالانہ ایک لاکھ ٹن ادرک دیگر ممالک سے درآمد کی جاتی ہے
اس ضمن میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں واقع سبزی منڈی میں نگرانی پر مامور مارکیٹ کمیٹی کے عہدیدار آصف احمد کے مطابق پاکستان میں استعمال ہونے والی ادارک کا شاید دس فیصد سے بھی کم حصہ پاکستان میں پیدا ہوتا ہوگا
انہوں نے بتایا ’پاکستان میں سب سے زیادہ ادرک پہلے نمبر پر چین سے درآمد کی جاتی ہے، دوسرے نمبر پر تھائی لینڈ سے اور اگر مزید ضرورت پڑجائے تو ملیشیا سے بھی منگوائی جاتی ہے۔‘
اگر ادرک کی کاشت اور اس میں حائل مشکلات پر بات کی جائے تو ادرک کی کاشت فروری یا مارچ کے مہینوں میں کی جاتی ہے اور کٹائی دسمبر میں ہوتی ہے۔ اس سبزی کی کاشت کے لیے سب سے پہلے علاقے کے موسمی حالات کا علم ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کی کاشت کے لیے کم سے کم درجہ حرارت 15 ڈگری اور زیادہ سے زیادہ 31 ڈگری سینٹی گریڈ تک درکار ہوتا ہے
ادرک کی کاشت صرف انہی علاقوں میں ممکن ہوتی ہے جہاں سالانہ ڈھائی ہزار سے تین ہزار ملی میٹر سالانہ بارش ہوتی ہو
ادرک کی فصل کو پانی دینے کا طریقہ بھی دوسری فصلوں کے مقابلے میں تھوڑا مشکل ہوتا ہے۔ ادرک کی بوائی کے فوراً بعد اسے ’ڈرپ اریگیشن سسٹم‘ کے ذریعے پانی دیا جاتا ہے تاکہ کھاد میں نمی برقرار رکھی جا سکے
ادرک کی کاشت کے لیے ’گرین یا بلیک ٹنل‘ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ادرک کی کاشت زیادہ گرمی میں نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ پہاڑی علاقوں میں اس سبزی کی کاشت نہیں ہوتی، کیونکہ وہاں دھوپ اور گرمی پودوں پر دیگر علاقوں کے مقابلوں میں زیادہ اثرانداز ہوتی ہے
ماہرین کے مطابق جہاں ادرک کی کاشت کی جا رہی ہو اس کے قریب میں کسی بھی قسم کی کوئی جڑی بوٹی یا پودے نہیں ہونے چاہییں.