دل، NICVD اور میں

حفیظ بلوچ

کہتے ہیں دل بہت ناداں ہوتا ہے۔۔ اس میں کتنی سچائی ہے، یہ کوئی شاعر یا ادیب ہی بتا سکتا ہے یا کوئی طبیب۔ ادب میں دل کا بہت بڑا مقام ہے مگر کسی طبیب سے پوچھو تو دل انسانی جسم کا ایک عضو ہے، جو جسم کو خون کی ترسیل کرتا ہے، مگر لوگ دل کے حوالے سے بہت ساری باتیں کرتے ہیں۔۔ محاورے مشہور ہیں، کہتے ہیں کہ یہی دل ہے جسے اگر کوئی بھا گیا تو انسان عشق میں پاگل ہو جاتا ہے، اسی دل پہ چوٹ لگ جائے تو انسان ٹوٹ جاتا ہے، اسی دل پہ کبھی کچھ بجلی بن کر گرتا ہے تو کبھی کوئی دل لے جاتا ہے، کبھی دل نہیں مانتا، تو کبھی دل موم بن جاتا ہے، ہاں کسی کسی قصے میں دل سخت پتھر ہو جاتا ہے۔۔

خدا کی قدرت یہی دل کی بیماری ہمارے جینز میں شامل ہے، ہاں وہی پمپ کرنے والی مشین جو سچ میں ایک انسانی عضو، جسے دل کہتے ہیں ـ ہماری دوسری نسل ہے جو دل کی بیماریوں سے لڑ رہی ہے، اینجیوگرافی، اینجیوپلاسٹی، اوپن ھارٹ سرجری، پیس میکر ’دل کی بیٹری‘ یہ سب ہم دیکھتے اور سہتے آ رہے ہیں، بقول ڈاکٹر ہم سب لائن پہ لگے ہوئے ہیں کب کس کا نمبر آئے، کیا پتہ ـ

ہم بلوچوں میں ایک محاورہ مشہور ہے کہ ’برو ڑے ترا دل نیست‘ مطلب جاؤ، تمہارے پاس تو دل ہی نہیں ہے، یہ جملہ مجھ جیسے بزدلوں کے لیئے بولا جاتا ہے ـ ایک تو قدرت نے ہمیں یہ بیماری بخشی ہے تو کاہے کا دل کاہے کی بہادری، اس لیئے اگر مجھے کوئی بہادر سمجھتا ہے تو اپنی رائے پہ ذرا پھر سے غور کر لے ـ

میں پچھلے کئی دنوں سے این آئی سی وی ڈی جناح ہاسپٹل کے باہر بیٹھا ہوا ہوں، جہاں مریضوں کو ٹوکن دیئے جاتے ہیں۔۔ وہیں بیٹھا ’بازیچہِ اطفال ہے دنیا میرے آگے‘ سب کچھ دیکھ رہا ہوں، چہرے دیکھ رہا ہوں، پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں ـ پہلے میری بڑی بہن ہارٹ اٹیک کی وجہ سے یہاں تھی، پھر میرا کزن میرا بڑا بھائی اوپن ھارٹ سرجری کے لیئے یہاں ایڈمٹ ہوا، تب سے روز صبح جلدی آتا ہوں اور رات دیر سے واپس گھر جاتا ہوں ـ یہ تحریر بھی عام غریب لوگوں مرد خواتین کے درمیان بیٹھ کر لکھ رہا ہوں، یہاں ابھی سے لوگ کل کے ٹوکن کے حصول کے لیئے لائن میں بیٹھ رہے ہیں، کوئی دری بچھا کر، کوئی کاغذ کا گتا لیئے زمین پر لیٹا ہوا ہے، میرے قریب کچھ خواتین بیٹھی باتیں کر رہی ہیں اور دوسری طرف بھی بہت سارے لوگ ایسے ہی بیٹھے باتوں میں مشغول ہیں، ایک الگ دنیا ہے ـ

ابھی ایک بوڑھی خاتون آئی۔ کل کے ٹوکن کے لیئے لائن میں بیٹھ گئی۔ اس کا تیسرا نمبر ہے ـ لوگ سچ کہتے ہیں اس ملک میں غریب کو خدا انصاف اور بیماری میں علاج لائن میں لگ کے مل سکتا ہے، اور امیر کو سب کچھ پلیٹ میں رکھ کر دیا جاتا ہے ـ
این آئی سی وی ڈی جس کے بارے میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ این آئی سی وی ڈی ہسپتال مخالفین کے لئے منہ توڑ جواب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ این آئی سی وی ڈی امراضِ قلب کے مریضوں کے لیے دنیا کا سب سے بڑا ہیلتھ نیٹ ورک بن گیا ہے، کیونکہ یہ صوبے بھر میں 10 ہسپتالوں اور 22 چیسٹ پین یونٹس پر مشتمل ہے۔ دل کے مریض جدید سہولیات سے آراستہ ایس آئی سی وی ڈی میں مفت طبی سہولیات حاصل کر سکتے ہیں۔

اندازے کے مطابق تقریباً 1.9 ملین مریضوں کو ایس آئی سی وی ڈی میں مفت طبی علاج دیا گیا جس میں 3227 کارڈیک سرجری اور 17000 پی سی آئی شامل ہیں۔ پچھلے سال نومبر میں پہلی بار، ایس آئی سی وی ڈی سابق (این آئی سی وی ڈی) کے ڈاکٹروں نے فالج کے دورے کے مریض کے دماغ سے خون کا جمنا نکال دیا تھا۔ یہ اعداد شمار 2021 اور 2022 کے ہیں ـ

سب سچ۔۔ اس سے انکار نہیں مگر ایک خبر جو 2023 کی ہے، وہ بھی پڑھ لیجئے۔
این آئی سی وی ڈی کراچی کی انتظامیہ غریب ملازمین کے لے منظور کیے گئے ہیلتھ رسک الانس کے 93 کروڑ روپے ہڑپ کر گئی۔ ہیلتھ رسک الانس کے لیے مختص رقم کسی اور مد میں خرچ کر کے بھاری کمیشن وصول کر لیا گیا۔ روزنامہ جرأت کی رپورٹ کے مطابق محکمہ صحت سندھ نے ادارہ امراض قلب یا این آئی سی وی ڈی کراچی کے ملازمین کے لیے ہیلتھ رسک الانس کی مد میں 93 کروڑ روپے منظور کیے تھے، جو ادارہ امراض قلب کے ملازمین کو ان کے گریڈ کے مطابق دیے جانے تھے ـ

این آئی سی وی ڈی کے اہمیت سے کوئی انکار نہیں، اس سے بھی انکار نہیں کہ یہاں غریبوں کا مفت علاج ہوتا ہے، اینجیوگرافی، اینجیوپلاسٹی، اوپن ہارٹ سرجری سمیت تمام ٹیسٹ دوائیاں مفت میں ملتی ہیں، اس سے بھی انکار نہیں کہ پاکستان میں ایسے بہت سارے ہاسپٹلز کی ضرورت ہے، مگر قصہ اتنا آسان نہیں ـ

میں نے این آئی سی وی ڈی، جو پہلے جناح کارڈیو ہوا کرتا تھا، پہلی بار نوے کی دہائی میں دیکھا، جب میرے والد صاحب کو ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ایڈمٹ کیا گیا تھا۔ دوسری مرتبہ 2001 میں جب میرے کزن کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی تھی اور تیسری بار ابھی جو میں یہاں موجود ہوں ـ ویسے میرے نانا 1976 میں فوت ہوئے، اسے بھی ہارٹ اٹیک ہوا، اسے یہیں لایا گیا مگر اس کی سانسیں رستے میں ہی رک چکی تھیں۔

پہلے میں آیا تو اتنا رش نہیں ہوتا تھا، یا شاید اس وقت اس ہاسپٹل پہ اتنا بوجھ نہیں تھا یا مینجیمنٹ بہتر تھی، اس لیئے کچھ زیادہ احساس نہیں ہوا ـ اب کی بار شاید میں زیادہ حساس ہو گیا ہوں، اس لیئے اس بار جو دیکھا، اس سے دماغی اور جسمانی اعتبار سے تھک گیا ہوں۔ میرے کزن کی اوپن ہارٹ سرجری پرائیورٹ وارڈ میں پیسہ دے کر ہوئی۔۔ اس لیئے یہاں کی بہت ساری مصیبتوں سے دور رہا، جیسے لائن۔۔ ایک ٹوکن والی لائن، دوسری بلڈ پریشر چیک کرنے کی لائن، تیسری رجسٹریشن کی لائن، چوتھی ای سی جی کی لائن اور پانچویں ڈاکٹر چیک اپ لائن ـ ان سب لائینوں سے دور رہا، مگر دو یا تین دن ایمرجنسی سے لے کر عام جنرل وارڈ کے چکر لگا کر عام غریب لوگوں کی حالت زار دیکھ کر یار لوگوں کی یہ دعا سمجھ میں آئی کہ خدا پاکستان کے تھانوں عدالتوں اور ہسپتالوں سے بچائے ـ لائن در لائن۔۔ قطار در قطار۔۔ اور جنرل وارڈ کی حالتِ زار ایسی ہے کہ ایک انسان کی عزتِ نفس اور انا اپنی موت آپ مر جاتے ہیں ـ شروع میں ہم نے یہ فیصلہ بھی کیا تھا کہ جنرل وارڈ میں بھائی کو ایڈمٹ کرا کر آپریشن کرا دیتے ہیں، جب ہم جنرل وارڈ میں گئے، تو جو بیڈ نمبر ہمیں دیا گیا، وہاں گئے تو اس کمرے میں دس کے لگ بھگ بیڈ تھے، اس کمرے کا باتھ روم توڑ کے بنایا جا رہا تھا، ملبہ وہیں ایک بیڈ کے پاس پڑا ہوا تھا، جس پہ ایک مریض بیٹھا کام ہوتا دیکھ رہا تھا، کھڑکیاں کھلی ہوئی، جو بیڈ بھائی کو الاٹ ہوا وہ اندر دھنسا ہوا تھا۔۔ میں نے بیڈ تبدیل کرایا، وہ کچھ بہتر حالت میں تھا، مگر جنرل وارڈ کا ماحول آئیسولیشن وارڈ کی خستہ حالی دیکھ کر بھائی نے کہا کہ مجھے خدا نے اتنا تو دیا ہے کہ میں یہاں کے پرائیورٹ وارڈ میں آپریشن کرا سکوں، یہاں مجھ سے نہیں ہوگا ـ تو ہم نے بھائی کو پرائیوٹ وارڈ میں ایڈمٹ کروا دیا۔ پرائیوٹ وارڈ کا روم بڑا تھا اچھی حالت میں تھا مگر مچھر ہم سے پہلے وہاں موجود تھے تو کاؤنٹر میں کسی سے کہہ پر مچھر مارنے والا اسپرے کرا دیا ـ

صرف تھوڑی سی توجہ اور بہتر مینجمنٹ سے یہ سب ٹھیک ہو سکتا ہے، مفت میں غریبوں کو علاج کی سھولت مل رہی ہے یہ بہت بڑا کام ہے مگر طریقہِ کار کو آسان بنایا جا سکتا ہے، مشکلیں کم ہو سکتی ہیں۔ یہ جدید دنیا ہے سب ممکن ہے، یہ صرف میرا ذاتی خیال نہیں بلکہ یہاں کام کرنے والے ایک اسٹاف ممبر نے بھی مجھے کہا ـ سچ بھی یہی ہے ـ مگر یہ بھی سچ ہے کہ پورے سندھ اور سرائیکی وسیب اور بلوچستان سے دل کے مریض یہاں آتے ہیں، مریضوں کا بہت بڑا پریشر ہے جسے ایک صورت میں کم کیا جا سکتا ہے کہ پورے ملک کے بڑے شہروں میں اس طرح کے ہاسپٹل بنائے جائیں مگر پاکستان کی موجودہ حالت میں یہ سراب ہی لگتا ہے ـ

آج میرا بھائی ڈسچارج ہو جائے گا اور میں اسے گھر لے کر چلا جاؤں گا ـ مگر جاتے جاتے بہت سارے چہرے بہت سارے کرب بہت ساری بےبسی کی تصویریں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا ـ پتہ نہیں کب خلقِ خدا کی حالت بدلے گی، جانے کب نظام بدلے گا اور غریب کو انصاف اور صحت کے ذرائع بنا لائن کے عزت اور احترام کے ساتھ ملیں گے ـ تب تک اس نظام کے خلاف لڑنا ہے اور مر جانا ہے، اب وہ مرنا دل کی بیماری سے ہو سکتا ہے یا کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے ـ

(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close