”اسٹیٹ بینک کا گورنر وزیراعظم سے بااختیار“ اسٹیٹ بینک کے قانون میں ترمیم کی حقیقت کیا ہے؟

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ آج تک جمہوریت کے ٹھیکے داروں میں سے کبھی کسی نے پاکستان کو ترقی یافتہ صف میں لانے کی کوشش نہیں کی بلکہ وہ تو بس ایک دوسرے کی خامیاں نکالنے میں ہی وقت پورا کر دیتے ہیں۔ اسمبلی ہو یا ٹی وی ٹاک شو، ہر جگہ ایک دوسرے کو صرف چور چور کہنے کی ہی آوازیں سنائی دے رہی ہوتی ہیں

کسی بھی ملک میں اسٹیٹ بینک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ایک انسان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے تو وہ اپاہج ہوجاتا ہے، اسی طرح اسٹیٹ بینک کو گروی رکھ دیا جائے تو ملک اپاہج ہوجائے گا

جب قائداعظم نے اسٹیٹ بینک کی بنیاد رکھی تو اُس وقت انہوں نے کہا تھا اسٹیٹ بینک ہماری قومی خودمختاری کی علامت ہے اور ہم اس پر کبھی کمپرومائز نہیں کریں گے

آئی ایم ایف کی سخت شرائط میں سے ایک سنگین شرط جو پوری کی جارہی ہے وہ اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021 ہے، ناقدین کا موقف ہے کہ حکومت اس ترمیمی ایکٹ کے ذریعے پاکستان کی خودمختاری کو گروی رکھ رہی ہے

اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ دو ہزار اکیس کے اس مسودے میں کیا کیا ہے؟ اگر ایسا ہوا تو اُس کے حکومت پاکستان پر اور عوام پر کیا اثرات ہوں گے؟ کیونکہ اگر حکومت آئی ایم ایف کی شرط مان لے گی تو پھر اسٹیٹ بینک حکومت پاکستان کے تحت کام نہیں کرے گا بلکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان آئی ایم ایف کے انڈر کام کرے گا

اسٹیٹ بینک کا تعارف

اسٹیٹ بینک پاکستان (بینک دولت پاکستان) ایکٹ 1956ء کے تحت تشکیل دیا گیا، جو اسے بطور مرکزی بینک کام کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ ایس بی پی ایکٹ کے مطابق بینک کا کام مالی استحکام اور ملک کے پیداواری وسائل سے پوری طرح استفادہ کرنے کے لیے پاکستان میں مالی اور قرضہ جاتی نظام کو منضبط کرنا اور بہترین ملکی مفاد میں اس کی نمو کو تقویت بہم پہنچانا ہے

رواں ہفتے ملک کے مرکزی بینک اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ منی بجٹ 2021ع کے ہمراہ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا، جس پر اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا

ترمیمی بل کے مندرجات

1۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان بل 2021 کے تحت حکومت کے اسٹیٹ بینک سے قرضہ لینے پر پابندی ہوگی

2۔ اسٹیٹ بینک کا مجاز خزانہ 500 ارب روپے ہو گااورادا شدہ سرمایہ 100 ارب روپے ہو گا، ادا شدہ سرمائے میں کمی نہیں کی جا سکے گی

3۔ اسٹیٹ بینک کے جنرل ذخائر صفر سے کم ہونے پر وفاقی حکومت 30 روز کے اندرضروری کیش دے گی

4۔ اسٹیٹ بینک کا مرکزی مقصد مقامی قیمتوں میں استحکام ،مانیٹری پالیسی کا تعین اور عمل درآمد ہوگا

5۔ مرکزی بینک ایکسچینج ریٹ پالیسی تشکیل دے گا، پاکستان کے تمام بین الاقوامی ذخائر رکھے گا اور کرنسی جاری کرے گا

6۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ایک گورنر اور 8 نان ایگزیکٹو ڈائریکٹرز ہونگے، نان ایگزیکٹو ڈائریکٹرز میں ہر صوبے سے کم از کم ایک رکن ہوگا

7۔ وفاقی سیکریٹری خزانہ بورڈ کے رکن ہوں گے لیکن ووٹ کا اختیار نہیں ہو گا، ڈپٹی گورنر بورڈ اجلاسوں میں شرکت کریں گے لیکن ووٹ کا حق نہیں ہوگا

8۔ گورنر کی عدم موجودگی میں ڈپٹی گورنر اجلاس کی صدارت اور ووٹ کا حق استعمال کرے گا،گورنر، اسٹیٹ بینک کے بورڈ کا چیئرپرسن ہو گا

9۔ اسٹیٹ بینک حکومت، حکومتی محکمے یا عوامی ادارے کو براہ راست قرضہ یا گارنٹی نہیں دے گا۔ اسٹیٹ بینک حکومت کی جاری کردہ کوئی سیکورٹی نہیں خریدے گا، اسٹیٹ بینک حکومت کے داخل کردہ کسی قرض، سرمایہ کاری کی ضمانت نہیں دے گا

10۔ گورنر اور نان ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کا تقرر وفاقی حکومت کی تجویز پر صدرکریں گے، اسٹیٹ بینک کے تین ڈپٹی گورنرز ہوں گے، ڈپٹی گورنرز کا تقرر وفاقی حکومت، وزیر خزانہ اور گورنر سے مشاورت کے بعد کرے گی، گورنر، ڈپٹی گورنرز اور نان ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کی مدت پانچ سال ہوگی

بظاہر اس ایکٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کا بنیادی مقصد مقامی قیمتوں میں استحکام لانا، ایکسچینج ریٹ پالیسی تشکیل دینا، ملک کے تمام بین الاقوامی ذخائر رکھنا، کرنسی جاری کرنا، مانیٹری پالیسی کا تعین کرنا اور اس پر عمل درآمد کرنا جیسے نکات شامل ہیں

تاہم ترمیمی ایکٹ کے مطابق حکومت پاکستان کے اسٹیٹ بینک سے قرضہ لینے پر پابندی ہوگی۔ اسٹیٹ بینک کسی حکومتی محکمے یا عوامی ادارے کو براہ راست قرضہ نہیں دے گا، نہ ہی حکومت کی جانب سے داخل کیے گئے کسی سرمایہ کاری یا قرضے کی ضمانت لے گا اور حکومت کی جانب سے کوئی سکیورٹی نہیں خریدے گا۔ البتہ جنرل ذخائر کم ہونے کی صورت میں وفاقی حکومت اسٹیٹ بینک کو تیس روز کے اندر ضروری کیش ادا کرے گی

واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک کے 24 دسمبر 2021 تک جمع کردہ مالیاتی اعداد و شمار کے مطابق حکومت پاکستان اب تک اسٹیٹ بینک سے 5.3 کھرب روپے کا قرض لے چکی ہے۔ تاہم ترجمان وزرت خزانہ کے مطابق حکومت نے پچھلے دو سالوں میں اسٹیٹ بینک سے کوئی قرض نہیں لیا، بلکہ مالی سال 21-2020 میں اس نے اسٹیٹ بینک 1.5 کھرب روپے واپس کیے ہیں

آخر اسٹیٹ بینک کے قانون میں ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

اس حوالے سے وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پروگرام کے پانچ اہداف میں سے نہایت اہم نکتہ ہے

مزمل اسلم کہتے ہیں ’ہم اب تک مالیاتی نظم و ضبط، ٹیکس کے نظام میں بہتری، توانائی کے نرخوں میں اضافہ اور اخراجات میں احتیاط کے حوالے سے کافی کام کرچکے ہیں۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان چھٹے جائزے سے قبل ان پالیسیوں اور اصلاحات پر عمل درآمد لازم ہے۔‘

انہوں نے کہا ’ملک کی 74 سالہ تاریخ میں آج تک اسٹیٹ بینک کی تعریف ہی نہیں لکھی گئی کہ اسٹیٹ بینک کیا ہے اور اس کا کیا کام ہے؟ اس ترمیم کے ذریعے تاریخ میں پہلی بار یہ طے کیا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کا کام مقامی قیمتوں میں استحکام لانا ہے۔ یہ بھی لکھا گیا کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر کی تعلیم و تجربہ کتنا ہونا چاہیے اور انہیں ملازمت پر رکھنے کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ نہ صرف گورنر بلکہ ڈپٹی گورنر اور ایگزیکیٹو ڈائریکٹرز کے لیے بھی یہ قواعد واضح کیے گئے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ حکومت اب اسٹیٹ بینک کو حقیقی طور پر خودمختار کرنے جا رہی ہے۔ ’ہم نے اس پر پہلے ہی عمل درآمد شروع کردیا تھا۔ ابھی تک ہمیں کسی بھی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں ہوا ہے۔ مثال کے طور پر اسٹیٹ بینک کی مانیٹری اور ایکسچینج ریٹ پالیسی آج بھی پوری طرح سے خود مختار ہے۔ پچھلے دو سالوں میں دو بار ایکسچینج ریٹ کم ہوا ہے۔ حکومت پاکستان نے یہ خود مختاری جون 2019 میں اسٹیٹ بینک کو دے دی تھی اور آج بھی یہی صورت حال ہے۔ ایکسچینج ریٹ اب کسی کی فرمائش یا خواہش کے بجائے طلب اور رسد پر چلتا ہے۔‘

کیا اسٹیٹ بینک مکمل طور پر خود مختار ہوگا؟

اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی ایکٹ 2021 کے سیکشن 46 بی کے مطابق حکومت پاکستان یا اس کے ماتحت کوئی بھی ادارہ اسٹیٹ بینک کے ادارتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکے گا

ترجمان وزارت خزانہ مزمل اسلم کے مطابق یہ تاثر غلط ہے کہ نیب، ایف آئی اے یا کوئی صوبائی تحقیقاتی ایجنسی، اتھارٹی یا بیورو اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری کے بغیر بینک کے کسی فرد کے خلاف تحقیقات کا آغاز نہیں کر سکیں گے۔ بدیانتی ثابت ہونے کی صورت میں اس کی تحقیقات کی جاسکتی ہیں

مجوزہ قانون کے مطابق پارلیمنٹ کو گورنر اسٹیٹ بینک کی جانب سے سالانہ رپورٹ پیش کی جائے گی، جس میں بینک کے مقاصد کے حصول، مانٹری پالیسی پر عمل درآمد ، معیشت کی حالت اور مالیاتی نظام کے حوالے سے بریفنگ دی جائے گی۔ اس کے علاوہ مجلس شوریٰ اسٹیٹ بینک کے کسی بھی اعلیٰ عہدیدار کو اس میں شرکت کے لیے طلب کر سکتی ہے

ایکٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک سال میں کم از کم دو بار پارلیمنٹ اور وزارت خزانہ کو قیمتوں کی قدر میں اضافہ، رقم کی فراہمی، کریڈٹ، ادائیگیوں کا توازن اور اقتصادی ترقی پر رپورٹ پیش کرے گا

اسٹیٹ بینک کے گورنر، تین ڈپٹی گورنرز اور آٹھ غیر ایگزیکیٹو ڈائریکٹرز کو تین نہیں، بلکہ پانچ سال کی مدت کے لیے تعینات کیا جائے گا

گورنر اور غیر ایگزیکیٹو ڈائریکٹرز کا انتخاب صدر پاکستان کی جانب سے وفاقی حکومت کی تجویز پر کیا جائے گا

ترمیمی ایکٹ کے مطابق وفاقی سیکرٹری خزانہ بورڈ ممبران میں شامل ہوں گے، لیکن انہیں ووٹ کا اختیار نہیں ہوگا۔ عام طور پر ڈپٹی گورنر کے پاس بورڈ اجلاسوں میں ووٹ کا اختیار نہیں ہوگا لیکن گورنر کی عدم موجودگی میں ڈپٹی گورنر اجلاس کی صدارت کریں گے اور اپنا ووٹ کا حق استعمال کریں گے

مرکزی بینک کی خود مختاری کے بل پر سابق گورنر اسٹیٹ بینک اور وزیراعظم عمران خان کے سابق مشیر ڈاکٹر عشرت حسین تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں

اس بارے میں تحفظات کیا ہیں؟

ڈاکٹر عشرت حسین کے مطابق مانیٹری اور فسکل کوآرڈینیشن بورڈ کو ختم نہیں کرنا چاہیے تھا، اشد ضرورت ہے کہ ملک کی دونوں پالیسیاں کوآرڈینیشن سے ایک ہی سمت میں چلیں، پالیسیاں الگ الگ سمت میں نہیں چلنی چاہئیں. حکومت کو کمرشل بینکوں سے مسلسل اتنا قرضہ نہیں لینا چاہیے اور آئی ایم ایف کو سمجھانا چاہیے تھا کہ قیمتوں میں استحکام کو معاشی ترقی پر اتنی زیادہ ترجیح دینا زیادتی ہوگی

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما احسن اقبال کاکہنا ہے کہ متحدہ اپوزیشن کی تین رکنی کمیٹی بنائی گئی ہے جو تمام حکومتی اتحادیوں سے مل کر منی بجٹ کے مضمرات سے آگاہ کرے گی۔احسن اقبال کا کہنا ہے کہ اس وقت سب سے اہم مسئلہ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اسٹیٹ بینک کو وہ تمام آزادی اور خود مختاری حاصل ہے جو کسی بھی ملک میں درکار ہوتی ہے۔حکومت اسٹیٹ بینک کی خودمختاری ختم کررہی ہے

پاکستان مسلم لیگ ن کے سینئیر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری سے پاکستان کی معاشی صورت حال میں بہتری ممکن نہیں

وہ کہتے ہیں ’اسٹیٹ بینک کی مانٹری پالیسی اور وزارت خزانہ کی فسکل پالیسی ترتیب دینے کے لیے دونوں اداروں کا آپس میں قریبی رابطہ بہت ضروری ہے کیوں کہ دونوں کا ہدف پاکستان کی معاشی صورت حال میں استحکام لانا اور مہنگائی کو کم کرنا ہے۔ اس قانون کی وجہ سے سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کے درمیان کا باہمی تعلق ختم ہوجائے گا اور کوئی کوورڈینیشن نہیں ہوگی۔‘

البتہ ایکٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر اور وزیر خزانہ کے درمیان قریبی رابطہ قائم ہو تاکہ اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ سے جڑے اہم معاملات پر فوری تبادلہ خیال کیا جاسکے

سابق گورنر محمد زبیر نے سوال اٹھایا کہ اسٹیٹ بینک خود مختار ہونے کے بعد پاکستان کی اقتصادی ترقی اور معاشی اہداف سے پوری طرح لاتعلق ہوجائے گا۔ اس صورت میں بننے والی مانٹری پالیسی پاکستان کے حق میں کیسے ہوگی؟

محمد زبیر کا کہنا تھا ہم پہلے بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اسٹیٹ بینک پوری طرح حکومت کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ اسٹیٹ بینک ایک بار خو مختار ہوگیا تو کاغذ پر لکھے ہونے کے باوجود بھی حکومت پاکستان اور پارلیمنٹ کو جواب دہ نہیں ہوگا۔ اسٹیٹ بینک اپنی منطق کے مطابق مانٹری پالیسی بنائے گا جو کہ آئی ایم ایف کی خواہشات کے مطابق ہوگی۔ اسٹیٹ بینک کے تمام معاملات میں آئی ایم ایف مائیکرو مینج کرے گا، جس میں کرنسی نوٹوں کی چھپائی، کمرشل بین کو مسائل بھی ہو سکتے ہیں گے.

حکومت کا موقف

حکومت کا کہنا ہے کہ اپوزیشن مایوسی کا شکار ہے انہیں ہر جگہ ناکامی ہورہی ہے، پوری دنیا میں ہر ملک کے سینٹرل بینک خودمختار ہوتے ہیں

وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ اچھے ملکوں کے مرکزی بینک دیکھیں تو وہاں خود مختاری ہے، ہم کوئی انوکھا کام نہیں کرنے جارہے۔ اسٹیٹ بینک کو انتظامی طور پر مزید با اختیار بنائیں گے اوراگر اسٹیٹ بینک ہاتھ سے نکلنے کی کوشش کرے گا تو خودمختاری ختم کردیں گے

اسٹیٹ بینک کی ترمیم کے حوالے سے وزیر خزانہ شوکت ترین کا مزید کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اداروں کو خودمختاری دینا چاہتی ہے تاکہ وہ مضبوط ہوں اور جب تک ہم اداروں کو اختیارات نہیں دیں گے اور مداخلت کرتے رہیں گے تو وہ کبھی مضبوط نہیں ہوں گے

انہوں نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری پر سمجھوتہ کیا جا رہا ہے کیونکہ اسٹیٹ بینک کی اصل تھارٹی بورڈ کے پاس ہو گی اور اگر اسٹیٹ بینک ہاتھ سے نکلنے کی کوشش کرے گا تو اس کی خودمختاری ختم کردیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close