کیا سندھ میں بلدیاتی انتخابات جولائی سے قبل ہو سکیں گے؟

نیوز ڈیسک

کراچی – سندھ میں بلدیاتی حکومتوں کی مدت ختم ہوئے سولہ ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن ہنوز دوبارہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں کیا جا سکا

سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے حلقوں کا خیال ہے کہ اگر صوبائی حکومت سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرانا بھی چاہے، تو ایسا رواں سال جولائی تک ممکن نہیں ہو سکے گا

یاد رہے کہ سندھ میں بلدیاتی حکومتوں کی معیاد 30 اگست 2020 کو ختم ہو گئی تھی۔ آئین پاکستان کے مطابق بلدیاتی حکومت کی معیاد پوری ہونے کے 120 دن کے اندر دوبارہ بلدیاتی انتخابات کرانا لازمی ہیں

اس کا مطلب ہے کہ 20 اگست 2020 کو اپنے معیاد پوری ہونے کے بعد سندھ میں بلدیاتی الیکشن 30 دسمبر سے پہلے کرانا لازمی تھا، مگر سندھ میں سولہ مہینے کے گزرنے کے باجود بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکا

اس تاخیر کے حوالے سے سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے ”بلدیاتی الیکشن منعقد کرانے میں تاخیر کی بڑی وجہ 2017ع کی مردم شماری تھی، جس کے اعداد و شمار گذشتہ سال جاری کیے گئے، لیکن سندھ حکومت نے مردم شماری پر اعتراضات اٹھائے تھے۔ ایسی صورت میں جب مردم شماری پر اعتراض ہو، تو پھر نئی حلقہ بندیاں کیسے ہوں، اس لیے بلدیاتی الیکشن میں تاخیر ہوئی۔“

واضح رہے کہ سال 2017ع کی مردم شماری کے اعداد و شمار مئی 2021ع میں جاری کیےگئے تھے، جس پر سندھ حکومت نے اعتراض کیا تھا اور وزیراعلیٰ سندھ نے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) میں اپنے اعتراضات جمع کراتے ہوئے کہا تھا کہ 2017ع کی مردم شماری میں سندھ اور بلوچستان کی آبادی کو کم دکھایا گیا ہے۔ بعد میں ترجمان سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو واضح طور پر کہا کہ سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے لیے تیار ہے، مگر بلدیاتی الیکشن کو نئی مردم شماری سے مشروط کر دیا

2017ع کی مردم شماری کو نہ صرف سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے مسترد کیا تھا، بلکہ وفاق کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی ایم کیو ایم پاکستان نے بھی مسترد کیا تھا

ادھر وفاقی کابینہ بھی دسمبر 2021 میں سال 2017 کی مردم شماری کی منظوری دے چکی ہے

مرتضیٰ وہاب کے مطابق: ”ہمارے اعتراضات کے باوجود جب وفاقی حکومت نے مردم شماری کو منطور کر لیا، تو پھر ہم بھی بلدیاتی الیکشن کرانے کے لیے راضی ہو گئے۔ الیکشن کمیشن نے مارچ تک حلقہ بندیاں مکمل کرنے کا کہا ہے۔ تو مارچ میں جب ڈی لیمٹیشن ہوجائیں گے تو جلد ہی بلدیاتی الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔“

تجزیہ نگار اور کراچی کے صحافی عبدالجبار ناصر کے مطابق سندھ میں بلدیاتی الیکشن اس سال جولائی سے پہلے منعقد کرانا ممکن نہیں ہے

عبدالجبار ناصر کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے حال ہی میں سندھ حکومت کو صوبے میں ڈی لیمٹیشن یا حد بندی کو مارچ تک مکمل کرنے کا کہا ہے۔ اگر حد بندی پر کوئی اعتراض نہ ہوا تو یہ 24 مارچ تک یہ مکمل ہوجائیں گی

عبدالجبار ناصر کہتے ہیں کہ حد بندی کے بعد اگلے مرحلے میں ووٹر لسٹ بنے گی جو مئی تک بنے گی۔ مگر وہ لسٹ عمومی ہوگی۔ اس کے بعد حلقہ بندی کا مرحلہ آتا ہے

عبدالجبار ناصر کے مطابق حلقہ بندیاں مکمل ہونے کے بعد نئی حلقہ بندیوں کے حساب سے ووٹر لسٹ بنانے میں پینتالیس دن تک کا وقت لگے گا۔ یہ مراحل جون تک ہی مکمل ہو سکتے ہیں۔ جس کے بعد الیکشن شیڈول جاری ہوگا۔ جس کا مطلب ہے کہ صوبے میں بلدیاتی الیکشن جولائی میں ہی ممکن ہو سکتے ہیں

دوسری جانب سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کے علاوہ بلدیاتی نظام کے قانون میں ترمیم کے بعد صوبے کی حزب اختلاف کی جماعتیں احتجاج کر رہی ہیں۔ حال ہی میں سندھ حکومت نے صوبے کے بلدیاتی نظام کے 2013ع کے قانون میں ترامیم کرکے انہیں اسمبلی سے پاس بھی کرا لیا ہے

ان ترامیم کے تحت اب صوبے کے بلدیاتی نظام میں یونین کمیٹیز کے وائس چیئرمینز ٹاؤن میونسپل کونسل کے رکن ہوں گے، جبکہ ٹاؤن میونسپل کونسل کے ارکان میں سے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب ہوگا

ٹاؤن میونسپل کونسل کے ارکان کی مدت چار سال ہوگی اور میئر کا انتخاب اوپن بیلٹ کے بجائے خفیہ ووٹنگ سے ہوگا

ترمیمی بل کے مطابق میٹروپولیٹن کارپوریشن پچاس لاکھ آبادی والے شہروں میں قائم کی جائیں گی

بلدیاتی حکومت ترمیمی بل 2021 کے مطابق صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت صوبے کے بڑے شہروں حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میرپور خاص، بے نظیر آباد (نوابشاه) میں کارپوریشنز لائی جا رہی ہیں اور ان شہروں میں تحصیل کے بجائے ٹاؤن سسٹم اور یونین کونسل کی جگہ یونین کمیٹیاں ہونگی

اس کے علاوہ ان ترامیم کے بعد سندھ کے نئے بلدیاتی نظام کے تحت کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن یا بلدیہ عظمیٰ کراچی سے شہر کے بڑے ہسپتالوں بشمول سوبھراج ہسپتال، عباسی شہید ہسپتال، سرفراز رفیقی ہسپتال، لیپروسی سینٹر اور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کا انتظام واپس لے کر صوبائی حکومت کے زیر انتظام دینے کے ساتھ پیدائش اور اموات کے سرٹیفیکیٹس جاری کرنے اور انفیکشیز ڈیزیز سمیت تعلیم اور صحت کے شعبوں پر لوکل گورنمنٹ کا اختیار ختم کر کے صوبائی حکومت کے زیر انتظام کر دیا گیا ہے

ان ترامیم کے بعد سندھ کی حزب مخالف جماعتوں کی جانب سے ان کی مخالفت کی جا رہی ہے

پاک سر زمین پارٹی نے ان ترامیم کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کر دیا ہے، جبکہ ایم کیو ایم نے بل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے 11 دسمبر کو آل پارٹیز کانفرنس بھی بلالی ہے

قبل ازیں جماعت اسلامی بھی بلدیاتی ترمیمی بل کے خلاف 12 دسمبر کو ’کراچی بچاؤ‘ مارچ کر چکی ہے

جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے بھی بل کی مخالف کی جا رہی ہے، جس کے بعد سندھ حکومت نے اعلان کیا کہ اپوزیشن کے مطالبے پر بل کی کچھ ترامیم کو واپس لیا جائے گا۔ مگر اس کے باوجود جماعت اسلامی کا بل کے خلاف گذشتہ آٹھ دن سے صوبائی اسمبلی کے سامنے دھرنا جاری ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close