ذکری برادری: بلوچستان میں کوہ مراد کی ننگے پاؤں زیارت کرنے والے ذکری کون ہیں اور کہاں سے آئے؟

ریاض سہیل

حسینہ بلوچ تین روز پیدل چل کر تربت پہنچی تھیں۔ اُن کے ساتھ دو درجن کے قریب دیگر مرد و خواتین بھی شامل سفر تھے، جن میں سے کئی نے ہاتھوں میں لکڑیاں اٹھا رکھی تھیں

یہ افراد بلوچی زبان میں ’مہدی‘ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی منزل کی جانب گامزن تھے

رمضان کے دوسرے عشرے کے آغاز کے ساتھ مکران میں ایسے کئی لوگ سڑک پر نظر آتے ہیں، جو پیدل یا اونٹوں پر تربت کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں اور اُن کی منزل کوہ مراد ہوتی ہے جو ذکری فرقے کا مقدس مقام اور مرکز ہے

کوسٹل ہائی وے اور تربت کی سڑک پر کئی ایسے جتھے نظر آئیں گے جو ماہِ رمضان کے دوسرے عشرے میں کوہ مراد کی زیارت کے لیے روانہ ہوتے ہیں

ان زائرین کا ماننا ہے کہ اگر کوئی مصیبت زدہ ہے اور پیدل چل کر جائے گا تو کوہ مراد تک کا سفر اُن کی مشکلات دور کرے گا

حسینہ بلوچ نے بتایا کہ وہ ثواب کی خاطر پیدل نکلی ہیں۔ عبدالحمید بلوچ کپ کپار سے ایک جتھے کو لے کر آئے تھے، وہ بتاتے ہیں کہ رمضان کے پہلے عشرے میں بڑے بوڑھے اور نوجوان ساتھ بیٹھتے ہیں, جس میں فیصلہ ہوتا ہے کہ کون کون پیدل سفر میں شرکت کرے گا، اس میں دس سال سے بڑے بچے اور اسی سال تک کے بزرگ بھی شامل ہوتے ہیں

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان لے کر چلتے ہیں، راستے میں کھانا بنا لیتے ہیں یا آس پاس کے گاؤں کے لوگ میزبانی کرتے ہیں‘

’ناشتے کے بعد نکلتے ہیں اور دوپہر کا کھانا بنانے کے لیے رُکتے ہیں اور پھر شام کو سفر شروع کرتے ہیں، ہم اپنے عقیدے اور ثواب کی خاطر یہ سفر کرتے ہیں۔‘

ذکری کون ہیں؟

ذکری ’مہدویت سلسلے‘ کو مانتے ہیں جس کی بنیاد پندرہویں صدی عیسوی میں سید محمد جونپوری نے رکھی تھی، جن کا تعلق ہندوستان سے تھا اور ان کی وفات موجودہ افغانستان میں ہوئی

بلوچستان میں مکران ریجن، خضدار، لسبیلہ اور سندھ میں کراچی، حیدرآباد، سانگھڑ اور ایران میں بندر عباس و دیگر علاقوں میں ذکری کمیونٹی کے لوگ موجود ہیں

سید عیسیٰ نوری جو سابق رکنِ قومی اسمبلی ہیں اور ذکری کمیونٹی کے روحانی پیشوا بھی ہیں، بتاتے ہیں کہ ’سید محمد مہدی جونپوری جنہیں وہ مہدی مانتے ہیں، انہوں نے مہدویہ تحریک کا آغاز کیا تھا جو ایرانی بلوچستان سے لے کر یہاں تک پھیل گئی۔‘

’ان کے بعد ان کے نشاط ثانیہ سید محمد جعفر نے یہاں آ کر اس کی احیا کی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’سید شہاب اول نے اس کا سیاسی طور پر بھی استعمال کیا اور بلیدی حکومت کی بنیاد ڈالی۔ اس دوران ایک ایسا وقت بھی آیا جب خصدار سے بندر عباس تک اُن کی حکمرانی تھی۔‘

بلوچستان کے بعض تاریخی حوالوں کے مطابق قلات کے حاکم نوری نصیر خان سے ان کی جھڑپیں بھی ہوئی، تاہم مصنف ڈاکٹر نعمت گچکی کا کہنا ہے کہ خان آف قلات اور کیچ کے سرداروں میں مفادات کا ٹکراؤ تھا

کوہِ مراد کی اہمیت

ایران کے محقق عباس سرفرازی ذکریوں کے بارے میں اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں کہ ذکری پاکستانی بلوچستان میں کھلے عام اور ایرانی بلوچستان میں خفیہ طور پر رہتے ہیں

ان کے عقائد کو شیعہ مذہب کے صوفی، اسماعیلی اور مہدوی عقائد اور مقامی ثقافت اور رسم و رواج کا مرکب سمجھا جا سکتا ہے

عیسیٰ نوری بتاتے ہیں کہ سید محمد جعفر کی وفات یہاں ہوئی، اُن کی قبر کی وجہ سے اس علاقے کا نام تربت پڑ گیا ورنہ اس سے قبل یہ علاقہ کیچ کہلاتا تھا

’سید جعفر نے یہاں آ کر اپنا مرکز بنایا تھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جناب مہدی (محمد جونپوری) بھی یہاں آئے تھے اور یہاں انہوں نے دعا مانگی تھی جو قبول ہوئی اس حوالے سے اس کا نام کوہ مراد پڑ گیا یعنی جہاں مراد پوری ہوئی۔‘

بڑی راتیں اور خیمہ بستی

کوہِ مراد ایک طویل پہاڑی سلسلے کی پہاڑی ہے۔ یہاں چار اطراف میں دیوار کھڑی کی گئی ہے۔ ہر سال اسلامی تاریخوں شب معراج، شب برات، شب قدر اور نو ذوالحج کو یہاں زائرین آتے ہیں

ملا برکت بلوچ یہاں کی انتظامی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماہِ رمضان کے دوسرے عشرے میں بیس رمضان سے زائرین یہاں آنا شروع کرتے ہیں، جو کیمپوں اور شیڈز میں رہتے ہیں اور ہر علاقے کے لیے ایک جگہ مختص ہے، جہاں وہ اپنا کیمپ لگاتے ہیں

وہ بتاتے ہیں کہ ’پہاڑی کے اوپر میدان اور آس پاس یہ شیڈز بنے ہوئے ہیں جبکہ کچھ نے پکے مکانات بھی بنوا لیے ہیں اور بعض خیمے ساتھ لاتے ہیں جن میں وہ سات روز گزارتے ہیں، کھانا بھی یہاں ہی بنایا جاتا ہے، یہاں ایک بازار بھی لگتا ہے جہاں ضرورت استعمال کی اشیا، سبزی وغیرہ بھی دستیاب ہوتی ہے۔‘

ذکری کمیونٹی کے اپنے روحانی سربراہ ہیں۔ ان روحانی سربراہوں کے بھی پہاڑوں پر حجرے موجود ہیں، یہاں پہاڑوں سے ایک ندی بھی گزرتی ہے، جس کے پانی کو مقدس تصور کیا جاتا ہے اور بعض لوگ اپنا کفن اس پانی سے ڈبو کر ساتھ لے جاتے ہیں

ذکر خانے اور زیارت

ذکری خواتین سر پر بڑی چادر لیتی ہیں تاہم پردہ نہیں کرتیں۔ یہاں کوہِ مراد میں دو ذکر خانے ہیں جن میں ایک مردوں اور دوسرا خواتین کا ہے، ان ذکر خانوں میں تین پہر ذکر ہوتا ہے

دوپہر کو ذکر کے دوران ہم مردانہ ذکر خانے میں پہنچے، جس کے باہر مینار بنے ہوئے تھے۔ اندر دیواروں پر قرآنی آیات تحریر ہیں، جہاں لوگ قطار میں بیٹھ کر ذکر کر رہے تھے اور زیادہ تر کے سروں پر کپڑا تھا جس سے آس پاس نظر نہیں جاتی اور نظریں نیچے رہتی ہیں

کچھ کے پاس تسبیح بھی موجود تھی۔ اس ذکر کے دوران خدا، رسول اور امام مہدی کی ثنا کی جاتی ہے

جہاں جہاں ذکری آبادی ہے، وہاں وہاں ذکر خانے بھی موجود ہیں اور مقامی آبادی باقاعدگی سے اس میں شریک ہوتی ہے یہ ان کا سماجی مرکز بھی ہے

ایک پہاڑی راستہ کوہِ مراد جاتا ہے جہاں اب سیڑھیاں بنائی گئی ہیں مگر پہلے وہاں کچے راستے سے جانا پڑتا تھا، زیادہ تر لوگ ننگے پیروں کوہ مراد کی زیارت کو جاتے ہیں اور سر ڈھانپنے کے لیے سفید کپڑا استعمال کرتے ہیں

آگے جا کر ایک شاہی گیٹ آتا ہے۔ زائرین داخل ہوتے ہیں زمین کو چومتے ہیں، یہاں سے غیر ذکری افراد کو آگے جانے کی اجازت نہیں

اس کے اندر ننگے پاؤں ہی جانا ہوتا ہے کیونکہ آگے کا راستہ پتھریلی گرم زمین ہے جو نصف میل تک جاتا ہے جہاں ذکری اپنے عقیدے کے مطابق رسومات ادا کرتے ہیں

ملا برکت بلوچ نے بتایا کہ ’دوپہر 12 بجے سے لے کر رات 12 بجے تک مرد زیارت کے لیے جاتے ہیں جبکہ اس کے بعد کے 12 گھنٹے خواتین جاتی ہیں، دونوں ساتھ نہیں جا سکتے۔‘

27 رمضان کی شب یہاں بڑا اجتماع ہوتا ہے، صبح کو دعا کے بعد ہر کوئی واپسی کا راستہ اختیار کرتا ہے

چوگان اور ذکر

لوگوں کے ایک دائرے کے اندر موجود شخص یا عورت ورد کرتی ہے جس میں آیات اور شعر دونوں شامل ہیں جس کے بعد دائرے میں موجود افراد جھوم کر اس کا ترنم کے ساتھ جواب دیتے ہیں۔ ذکر کے اس انداز کو ’چوگان‘ کہتے ہیں

چوگان گنج میں شئے بلوچ نعیم اختر سندھو کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’جس طرح درویش اور صوفی وجد کی حالت میں مزاروں پر قوالی یا سماع کرتے ہیں، اسی طرح چوگان بھی سماع کی ایک قسم ہے جس میں نہ کوئی ساز بجایا جاتا ہے اور نہ کوئی ساز بجانے والا اوزار استعمال ہوتا ہے۔‘

عبدالغنی بلوچ اپنی کتاب ’ذکری فرقے کی تاریخ‘ میں کونیہ میں مولانا رومی کے مزار کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’جن لوگوں نے کبھی ترکی میں مولانا رومی کے مزار کی زیارت کی ہو تو انہوں نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ سماع میں درویش و صوفی وجد کی حالت میں ہو بہو ذکریوں کے چوگان کی طرح کرتے ہیں۔‘

سید عیسیٰ نوری کہتے ہیں کہ ’جب یہاں دائروں کا نظام ہوتا تھا ظاہر ہے باہر سے حملے کا خدشہ رہتا تھا اس تحفظ کے لیے لوگوں کو ٹولیوں میں تقسیم کیا گیا تھا جس کو نوبت کہتے تھے چونکہ وہ رات کو جاگتے تھے اور باری باری پہرہ دیتے تھے۔ یہ خدا پرست اور صوفیانہ مزاج کے لوگ تھے جو حمد و ثنا اور نعت پڑھتے تھے۔‘

’بلوچستان میں ایک ثقافتی رقص کا بھی سلسلہ ہے اس میں ورد کو بھی شامل کر لیا گیا اور ایک ردھم بن گیا ہے۔ چوگان بلوچی میں میدان کو کہتے ہیں اور یہ چوگان میدان میں ہوتا تھا تو اس کا نام چوگان پڑ گیا۔ یہ شب بیداری کا سلسلہ ہے، کوئی فرض یا باقاعدگی سے نہیں کیا جاتا بلکہ کبھی بھی کر سکتے ہیں خاص طور پر جو بڑی راتیں ہیں، اُن میں۔‘

دائرے اور دیئک

ذکری اپنے مرشد یا سید کو اپنی آمدنی کا دس فیصد حصہ دیتے ہیں، جس کو دیئک یعنی دسواں حصہ کہتے ہیں

ان ذکریوں کی اکثریت غریب ہے جو ماہی گیری اور مزدوری جیسے پیشوں سے وابستہ ہے۔ ذکری تعلیمات کے ذکر، عشر اور ہجرت سمیت نو بنیادی اصول ہیں

سید عیسٰ نوری کے مطابق ذکری تعلیمات کے اصول معاشی اور روحانی دونوں پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں

ابتدائی دنوں میں جہاں ذکری آبادی ہوتی تھی وہاں دائروں کا نظام ہوتا تھا۔ وہاں ایک صاحب دائرہ ہوتا تھا، ان کے زیرِ انتظام حلقے میں جو بھی افراد ہوتے وہ اپنی آمدن کا کچھ حصہ ضرورت کے مطابق رکھ لیتے تھے

اس سے زیادہ جو ہوتا تھا اس کو وہ اجتماعی بیت المال میں جمع کرتے تھے جس کا نگران صاحب دائرہ ہوتا تھا اور اب یہ اس کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ برابری کی بنیاد پر تقسیم کرے

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان دائروں میں کوئی بھی بیروزگار نہیں رہا، ان میں کوئی بھوکا نہیں رہا اور کوئی امیر نہیں تھا اس کی وجہ سے ہی لوگ ذکری عقیدے کی طرف متوجہ ہوئے

عسکریت پسندی، شدت پسندی اور ذکری

ذکری عقیدے کے لوگوں پر حملوں کے کئی تاریخی حوالے موجود ہیں، نور تجلی میں جی ایس بجارانی لکھتے ہیں کہ کیچ کے ذکری حاکم ملک دینار گچکی کی ہلاکت کے بعد ذکریوں کا گروہ پہاڑوں، بیابانوں، جنگلوں اور ویرانوں میں گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گیا تھا

یہ لوگ مال مویشی پال کر اپنا گزر بسر کرنے لگے۔ ذکریوں کے کتب خانے جلا دیے گئے، تمام سرداروں نے ذکریت ترک کر دی اور بدلے میں خان سے مراعات حاصل کیں

داعش کا جب زور ہوا تو بلوچستان کے بعض علاقوں میں ذکریوں کے خلاف وال چاکنگ کی گئی اور سنہ 2014ع میں آواران میں ذکر خانے پر حملہ کر کے ذکری کمیونٹی کے چھ افراد کو ہلاک کیا گیا۔ سنہ 2017ع میں خصدار میں ایک بس پر حملہ ہوا، جس میں ذکری کمیونٹی کے سات افراد زخمی ہوئے

سید عیسیٰ نوری کہتے ہیں کہ ’پہلے ایک بہن ایک ذکری کے گھر میں تھی تو دوسری دوسرے عقیدے والے کے گھر میں، لیکن اب نفرت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔‘

ان کے بقول ’جس میں بعض علما کرام کا پراپیگنڈہ شامل ہے۔ اگر کوئی ذکری کسی ایسی جگہ کام کر رہا ہے جہاں نو دوسرے عقیدے کے لوگ ہیں تو وہ اس پر اتنا دباؤ ڈالتے ہیں کہ بالآخر وہ اپنا عقیدہ چھوڑ دیتا ہے۔‘

چین، پاکستان اقتصادی راہدری بعض ایسے علاقوں سے بھی گزر رہی ہے، جہاں کی آبادی ذکری ہے اور مسلح جدوجہد کرنے والی بلوچ تنظیموں میں بھی ذکری نوجوان موجود ہیں۔ عیسیٰ نوری کہتے ہیں کہ ’بلاشبہ عسکریت پسندی میں ذکری لوگ شامل ہیں لیکن وہ بحیثیت بلوچ شامل ہیں نا کہ بطور ممبر ذکری کمیونٹی۔‘

پاکستان میں موجود دیگر روحانی سلسلوں کی طرح ذکری منظم اور متحرک نہیں ہیں اور نہ ان کی مرکزی تنظیم ہے۔ عیسیٰ نوری کے مطابق ’بالکل ایسا کوئی مرکز نہیں جہاں سے مرکزی ہدایات جاری ہوتی ہوں اور نظم و ضبط ہو۔‘

بشکریہ: بی بی سی اردو.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close