ریاض – سعودی عرب میں سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ ایک شہزادی اور ان کی بیٹی کو بغیر کسی الزام قریب تین سال تک انتہائی سکیورٹی والی جیل میں رکھنے کے بعد اب رہا کر دیا گیا ہے
شہزادی بسمہ بنت سعود کو مارچ 2019ع میں حراست میں لیا گیا جب وہ طبی معائنے کے لیے سوئٹزر لینڈ جانے کی تیاری کر رہی تھیں
یہ معلوم نہیں کہ انہیں کیوں حراست میں رکھا گیا تھا۔ اس دوران بسمہ بنت سعود یا ان کی بیٹی سہود پر کوئی جُرم عائد نہیں کیا گیا
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ ان کی جانب سے انسانی حقوق کے تحفظ اور آئین میں اصلاحات کے مطالبات ہیں
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان کے خاندان نے 2020ع میں ایک بیان کے ذریعے اقوام متحدہ کو بتایا تھا کہ ممکنہ طور پر اس کی وجہ ان کی جانب سے تشدد کے خلاف بولنا ہے
تاہم بعض حلقوں کا خیال ہے کہ ان کی گرفتاری کی وجہ ان کے سابق ولی عہد محمد بن نایف کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ اطلاعات کے مطابق نایف کو گھر میں نظر بند رکھا گیا ہے
ستاون سالہ شہزادی بسمہ نے گذشتہ اپریل سعودی بادشاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا اور اب ان کی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے
یہ معلوم نہیں ہے کہ 2019ع میں حراست میں لیے جانے کے وقت وہ بیرون ملک کس طبی معائنے کے لیے جا رہی تھیں
ٹوئٹر پر انسانی حقوق کی تنظیم اے ایل کیو ایس ٹی نے کہا ہے کہ انھیں طبی امداد نہیں دی گئی، جبکہ ممکنہ طور پر وہ ایک جان لیوا عارضے میں مبتلا تھیں۔ انھیں دارالحکومت ریاض کے مضافات میں الحاير جیل میں رکھا گیا تھا
سعودی تنظیم نے مزید کہا کہ ’انھیں حراست میں رکھے جانے کے دوران کسی بھی وقت ان کے خلاف کوئی جُرم عائد نہیں کیا گیا۔‘
واضح رہے کہ شہزادی بسمہ سعودی عرب پر سنہ 1953 سے 1964 تک حکومت کرنے والے شاہ سعود کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں
انھوں نے سعودی شاہی خاندان میں انسانی ہمدردی کے امور اور آئینی اصلاحات کی ایک نمایاں وکیل کی حیثیت سے اپنی پہچان بنائی ہے
اپریل 2020 کے دوران انھوں نے اپنے تصدیق شدہ ٹوئٹر اکاؤنٹ سے سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان سے اپیل کی تھی کہ انھیں قید سے آزاد کیا جائے.