ایرانی پلاؤ (افسانہ)

کرشن چندر

‫آج رات اپنی تھی، کیونکہ جیب میں پیسے نہیں تھے! جب جیب میں تھوڑے سے پیسے ہوں، رات مجھے اپنی نہیں معلوم ہوتی.. اس وقت رات میرین ڈرائیو پر تھرکنے والی گاڑیوں کی معلوم ہوتی ہے، جگمگاتے ہوئے فلیٹوں کی معلوم ہوتی ہے، ایمبسڈر کی چھت پر ناچنے والوں کی معلوم ہوتی ہے، لیکن آج رات بالکل اپنی تھی، آج رات آسمان کے سارے ستارے اپنی تھے اور بمبئی کی ساری سڑکیں اپنی تھیں.. جب جیب میں تھوڑے سے پیسے ہوں تو سارا شہر اپنے اوپر مسلط ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے، ہر شے گھورتی ہے ڈانٹتی ہے، اپنے آپ سے دور بیٹھنے پر مجبور کرتی ہے، اونی پتلون سے لے کر خوش نما ریڈیو پروگرام تک ہر چیز کہتی ہے، مجھ سے دور ہو، لیکن جب جیب میں ایک پائی نہ ہو تو سارا شہر اپنا بنا ہوا معلوم ہو تا ہے، اس کے ہر کھمبے پر گویا لکھا ہوتا تھا ”تعمیر کیا گیا برائے بشن، ایک فاقہ مست مصنف“… اس دن نہ حوالات کا ڈر ہوتا ہے، نہ گاڑی کی لپیٹ میں آ جانے کا.. نہ ہی ہوٹل میں کھانے کا… ایک ایسی وسیع بے فکری اور بے کنار فاقہ مستی کا نشہ آور موڈ ہوتا ہے، جو میلوں تک پھیلتا چلا جا رہا ہے.. اس رات میں خود نہیں چلتا ہوں، اس رات بمبئی کی سڑکیں مجھے اٹھائے اٹھائے چلتی ہیں اور گلیوں کے موڑ پر اور بازاروں کے ٹکڑ اور بڑی بڑی عمارتوں کے تاریک کونے مجھے خود دعوت دیتے ہیں ”ادھر آؤ ہمیں بھی دیکھو ہم سے ملو، دوست! تم آٹھ سال سے اس شہر میں رہتے ہو، لیکن پھر بھی اجنبیوں کی طرح کیوں چل رہے ہو؟ ادھر آؤ.. ہم سے ہاتھ ملاؤ..“

یہاں بھی ایک امتحانی لمحے کی جھجک کے بعد وہ لوگ میری طرف دیکھ کر مسکرائے، ایک لڑکے نے مجھ سے کہا،
”آؤ بھائی، تم بھی یہاں بیٹھ جاؤ اور اگر گانا چاہتے ہو تو گاؤ۔“
اتنا کہہ کر اس دبلے پتلے لڑکے نے اپنے سر کے بال جھٹک کے پیچھے کر لئیے اور اپنا لکڑی کے بکس کا طبلہ بجانے لگا، ہم سب لوگ مل کر پھر گانے لگے۔
”تیرا میرا، میرا تیرا پیار ہو گیا…“
یکایک اس دبلے پتلے لڑکے نے طبلہ بجانا بند کر دیا اور اپنے ایک ساتھی کو جو اپنی گردن دونوں ٹانگوں میں دبائے اکڑوں بیٹھا تھا، ٹہوکا دے کے کہا،
”ابے مدہو بالا! تو کیوں نہیں گاتے۔“
مدہو بالا نے اپنا چہرہ ٹانگوں میں سے بڑی دقت سے نکالا، اس کا چہرہ مدہو بالا ایکٹرس کی طرح حسین نہیں تھا، ٹھوڑی سے لے کر دائیں ہاتھ کی کہنی تک آگ سے جلنے کا ایک بہت بڑا نشان یہاں سے وہاں تک چلا گیا تھا، اس کے ‫چہرے پر کرب کے آثار نمایاں تھے، اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں جو اس کے گول چہرے پر دو کالی درزیں معلوم ہوتی تھیں، انتہائی پریشانی جھلک رہی تھی، اس نے اپنے ہونٹ سکیڑ کر طبلے والے سے کہا
”سالے مجھے رہنے دے.. میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔“
”کیوں درد ہوتا ہے، سالے! تو نے آج پھر ایرانی پلاؤ کھایا ہو گا؟“
مدھو بالا نے بڑے دکھ سے سر ہلایا، ”ہاں وہی کھایا تھا۔“
”کیوں کھایا تھا سالے“
”کیا کرتا…. آج صرف تین جوتے بنائے تھے..“
جو عمر میں ان سب سے بڑا معلوم ہوتا تھا، جس کی ٹھوڑی پر تھوڑی داڑھی اگی تھی اور کنپٹیوں کے بال رخساروں کی طرف بڑھ رہے تھے، اپنی ناک کھجاتے ہوئے بولا، ”اے مدہو بالا، اٹھ میدان میں دوڑ لگا، چل میں تیرے ساتھ دوڑتا ہوں، دو چکر لگانے سے پیٹ کا درد ٹھیک ہو جائے گا۔“
”نہیں بے رہنے دے…“
نہیں بے سالے اٹھ، نہیں تو ایک جھانپڑ دوں گا۔“
مدہو بالا نے ہاتھ جوڑ کر کہا، ”ککو رہنے دو، میں تیری منت کرتا ہوں، یہ پیٹ کا درد ٹھیک ہو جائے گا۔“
”اٹھ بے، کیوں ہماری سنگت خراب کرتا ہے۔“ ککو نے ہاتھ بڑھا کر مدہو بالا کو اٹھایا اور وہ دونوں یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں چکر لگانے لگے، پہلے تو تھوڑی دیر تک ان دوڑتے ہوئے لڑکوں کی طرف دیکھتا رہا، پھر جب میرے قریب بیٹھے ہوئے لڑکے نے سر کھجا کے کہا
”سالی کیا مصیبت ہے ایرانی پلاؤ، کھاؤ تو مصیبت اور نہ کھاؤ تو مصیبت.“
میں نے کہا ”بھائی پلاؤ تو بڑے مزے کی چیز ہے، اسے کھانے سے پیٹ درد کیسے ہو سکتا ہے؟“
میری بات سن کر وہ ہنسے، ایک لڑکے نے، جس کا نام بعد میں مجھے کلدیپ کور معلوم ہوا اور جو اس وقت ایک پھٹی ہوئی بنڈی اور ایک پھٹی نیکر پہنے ہوئے ہے، مجھ سے ہنس کر کہا، ”معلوم ہوتا ہے تم نے ایرانی پلاؤ کبھی نہیں کھایا۔“
کلدیپ کور نے اپنی بنڈی کے بٹن کھولتے ہوئے مجھے بتایا کہ ایرانی پلاؤ ان لوگوں کی خاص اصطلاح ہے، اسے ایسے لوگ روز روز نہیں کھا سکتے لیکن جس دن لڑکے نے جوتے بہت کم پالش کئے ہوتے ہیں یا جس دن اس کے پاس بہت کم پیسے ہوتے ہیں اس دن اسے ایرانی پلاؤ ہی کھانا پڑتا ہے اور یہ پلاؤ سامنے کے ایرانی ریستوران سے رات کے بارہ بجے کے بعد ملتا ہے، جب سب گاہک کھانا کھا کر چلے جاتے ہیں ، دن بھر میں لوگ ڈبل روٹی کے ٹکڑے اپنی پلیٹوں میں چھوڑ جاتے ہیں ، ڈبل روٹی کے ٹکڑے گوشت اور ہڈیاں چچوڑی ہوئی، چاول کے دانے،آملیٹ کے ریزے، آلوؤں کے قتلے، یہ سارا جھوٹا کھانا ایک جگہ جمع کر کے ایک ملغوبہ تیار کر لیا جاتا ہے اور ملغوبہ دو آنے پلیٹ کے حساب سے بکتا ہے، پیچھے کچن کے دروازے پر اسے ایرانی پلاؤ کہا جاتا ہے، اسے عام طور پر اس علاقے کے غریب لوگ بھی نہیں کھاتے، پھر بھی ہر روز دو تین سو پلیٹیں بک جاتی ہیں، خریداروں میں زیادہ تر جوتے پالش کرنے والے، فرنیچر ڈھونے والے، گاہکوں کے لئے ٹیکسی لانے والے ہوتے ہیں یا آس پاس کی بلڈنگوں میں کام کرنے والے مزدور بھی ہوتے ہیں ۔
میں نے کلدیپ کور سے پوچھا ”تمہارا نام کلدیپ کور کیوں ہے؟
کلدیپ کور نے اپنی بنڈی بالکل اتار دی اور اب وہ بڑے مزے سے لیٹا ہوا ہے اپنا سیاہ پیٹ سہلا رہا تھا، وہ میرا سوال سن کر وہیں گھاس پر لوٹ پوٹ ہو گیا، پھر ہنس چکنے کے بعد اپنے ایک ساتھی سے کہنے لگا
”ذرا میرا بکسا لانا۔“
ساتھی نے کلدیپ کور کو بکسا دیا، کلدیپ کور نے بکسا کھولا، اس میں پالش کا سامان تھا، پالش کی ڈبیوں پر کلدیپ کور کی تصویر بنی ہوئی تھی، پھر اس نے اپنے ایک ساتھی سے کہا، تو بھی اپنا بکسا کھول اس نے بھی اپنا بکسا کھولا، اس بکس میں پالش کی جتنی چھوٹی بڑی ڈبیاں تھیں ان پر نرگس کی تصویریں تھیں ، جو رسالوں اور اخباروں کے صفحوں سے کاٹ کر لگائی گئی تھیں..
کلدیپ کور نے کہا ”یہ سالا نرگس کا پالش مارتا ہے، وہ نمی کا، وہ ثریا کا، ہم میں جتنا پالش والا ہے، کسی نہ کسی فلم ایکٹریس کی تصویریں کاٹ کر اپنے ڈبوں پر لگاتا ہے اس کا پالش مارتا ہے۔ سالا گاہک ان باتوں سے بہت خوش ہوتا ہے، ام اس سے بولتا ہے، صاحب کون سا پالش لگاؤں، نرگس کہ ثریا کہ مدہو بالا؟ پھر جب گاہک جس فلم کی ایکٹریس کو پسند کرتا ہے، اس کا پالش مانگتا ہے، ہم اس کو اس لڑکے کے حوالے کر دیتا ہے جو نرگس کا پالش یا نمی کا یا کسی دوسری فلم ایکٹرس کا پالش مارتا ہے، ہم آٹھ لڑکے ہیں، ادھر سامنے چرچ گیٹ پر سے بس اسٹینڈ کے پیچھے بیٹھتے ہیں ، جس کے پاس جس ایکٹرس کا پالش ہے وہ ہی اس کا نام لے گا، اسی سے ہمارا دھندا بہت اچھا چلتا ہے اور کام میں مجا آتا ہے۔“
میں نے کہا ”تم لوگ بس اسٹینڈ کے نیچے فٹ پاتھ پر ایرانی ریستوران کے سامنے بیٹھتے ہو، تو پولیس والا کچھ نہیں کہتا؟“
کلدیپ کور اوندھے منہ لیٹا ہوا تھا، اب سیدھا ہو گیا، اس نے اپنے ہاتھ کے انگوٹھے کو ایک انگلی سے دبا کر اسے یکایک ایک جھٹکے سے یوں نچایا جیسے وہ فضا میں اکنی اچھال رہا ہوں ، بولا ”وہ سالا کیا کہے گا؟ اسے پیسہ دیتا ہے اور یہاں اس میدان میں جو سوتا ہے اس کا بھی پیسہ دیتا ہے، پیسہ؟ اتنا کہہ کر کلدیپ کور نے پھر انگوٹھے سے ایک خیالی اکنی ہوا میں اچھالی اور فضا میں دیکھنے لگا، اور پھر دونوں ہاتھ کھول کر دیکھا، مگر دونوں خالی تھے کلدیپ کور بڑی مزے دار اور تلخی سے مسکرا دیا، اس نے کچھ نہیں کیا چپ چاپ اوندھا لیٹ گیا۔ نرگس نے مجھ سے پوچھا
”تم ادھر داور میں پالش مارتے ہو؟ میں نے تم کو ‫ویزاں ہوٹل کے سامنے دیکھا ہے۔“
میں نے کہا، ”ہاں.. مجھ کو بھی ایک پالش والا ہی سمجھو۔“
”ایک طرح سے کیا؟“ کلدیپ کور اٹھ کر بیٹھ گیا، اس نے میری طرف گھور کر دیکھا، سالا سیدھے بات کرو نا، تم کیا کام کرتا ہے؟“
اس نے کہا میں بہت خوش ہوا، کوئی اور کہتا تو میں اسے ایک جڑ دیتا، مگر جب اس لڑکے نے مجھے سالا کہا تو میں بہت خوش ہوا، کیونکہ سالا گالی کا لفظ نہیں تھا، برادری کا لفظ تھا، ان لوگوں نے مجھے اپنی برادری میں شامل کر لیا تھا، اس لئے میں نے کہا، ”بھائی ایک طرح سے میں بھی پالش والا ہوں ، مگر میں لفظ پالش کرتا ہوں اور کبھی کبھی پرانے میلے چمڑوں کو کھرچ کے دیکھتا ہوں کہ ان کی بوسیدہ تہوں میں کیا ہے..“
نرگس اور نمی ایک دم بول اٹھے، ”تو سالا پھر گڑ بڑ گھوٹالا کرتا ہے، صاف صاف کیوں نہیں بولتا کیا کام کرتا ہے۔“
میں نے کہا۔ ”میرا نام بشن ہے، میں کہانیاں لکھتا ہوں۔“
”اوہ تو بابو ہے“ نمی بولا، نمی ایک چھوٹا سا لڑکا تھا، یہاں دائرے میں جتنے لڑکے تھے، ان سب میں سب سے چھوٹا، مگر اس کی آنکھوں میں ذہانت تیز چمک تھی اور چونکہ وہ اخبار بھی بیچتا تھا، اس لئیے اسے مجھ سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی، اس نے میرے قریب آکر کہا، ”کون سے اخباروں میں لکھتے ہو؟ پھری ریس، سنٹل ٹایم، بمبئے کرانیکل، میں اب اخباروں کو جانتا ہوں…“ وہ بڑھ کر میرے قریب آگیا۔
میں نے کہا ”میں شاہراہ میں لکھتا ہوں۔“
”ساہرہ؟ کون… نوز پیپر ہے؟”
” دہلی سے نکلتا ہے۔“
”دلی کے چھاپے خانے سے وہ؟“ نمی کی آنکھیں میرے چہرے پر پھیل گئیں ۔
”اور اب ‘ادبِ لطیف’ میں لکھتا ہوں“ میں نے رعب ڈالنے کےلئے کہا۔
کلدیپ کور ہنسنے لگا۔ کیا کہا ”بدبے خلطیف میں لکھتا ہے… سالے یہ تو کسی انگلش فلم ایکٹریس کا نام معلوم ہوتا ہے، بدبے خلطیف آہا آہا آہا، ابے نمی تو اپنا نام بدل کر خلطیف رکھ لے، بڑا اچھا نام مالوم ہو گا، ہاہاہاہا“
جب سب لڑکے ہنس چکے تو میں نے بڑی سنجیدگی سے کہا، ”بدبے خلطیف نہیں ، ادب، ادب، لطیف، لاہور سے نکلتا ہے، بہت اچھا پیپر ہے۔“
نرگس نے بے پرواہی سر ہلا کے کہا، ”ہاں سالے ہوگا ادب لطیف ہی ہوگا… ہم کو کیا… ہم اس کو بیچ کے ایدھر پیسہ تھوڑی کماتے ہیں…“
تقریباً اتنا ہی جتنا تمہیں ملتا ہے، اکثر کچھ بھی نہیں ملتا جب میں لفظوں پر پالش کر چکتا ہوں تو اخبار والے شکریہ کہہ کر مفت لے جاتے ہیں اور اپنے رسالے یا اخبار کو چمکا لیتے ہیں“
تو خالی مغز ماری کیوں کرتا ہے۔ ہماری طرح پالش کیوں نہیں کرتا، سچ کہتا ‫‫ہوں تو بھی آ جا ہماری برادری میں ، بس تیری ہی کسر تھی، اور تیرا نام ہم بدبے خلطیف ہی رکھ دیں گے، لا ہاتھ… “میں نے کلدیپ کور سے ہاتھ ملایا.
کلدیپ کور کہنے لگا، ”مگر چار آنے روز پولیس والے کو دینے پڑیں گے۔“
”اور اگر کسی روز چار آنے نہ ہوئے تو؟“
”تو ہم کو مالوم نہیں ، کسی سے مانگ، چوری کر ڈاکہ ڈال، مگر سنتری کو چار آنے دینے پڑیں گے اور مہینے میں دو دن حوالات میں رہنا پڑے گا۔“
”ارے وہ کیوں؟“
”یہ ہم نہیں جانتے، سنتری کو ہم ہر روز چار آنے دیتے ہیں.. ہر ایک پالش والا دیتا ہے، پھر بھی سنتری ہر مہینے میں دو دفعہ ہم کو پکڑ کے لے جاتا ہے، ایسا اس کا قاعدہ ہے، وہ بولتا ہے، ام کیا کریں…“
میں نے کہا، ”اچھا دو دن حوالات میں بھی گزار لیں گے۔“
اور کلدیپ کور نے کہا، ”تم کو مہینے میں ایک بار کورٹ بھی جانا پڑے گا، تمہارا چالان ہوگا، کمیٹی کے آدمی کی طرف سے، تم کو کورٹ میں بھی جانا پڑے گا… دو روپے یا تین روپے وہ بھی تم کو دینا پڑے گا۔“
”وہ کیوں؟جب میں چار آنے سنتری کو دیتا ہوں، پھر ایسا کیوں ہوگا؟“
”ارے یار سنتری کو بھی تو اپنی کار گزاری دکھانی ہے کہ نہیں، تو سمجھتا نہیں ہے سالے بدبے خلطیف؟“
میں نے آنکھ مار کر کلدیپ کور سے کہا، ”سالے سمجھتا ہوں“
ہم دونوں ہنسنے لگے، اتنے میں مدہو بالا اور ککو دونوں میدان کے چکر لگا کر پسینے میں ڈوبے ہوئے واپس آئے۔ مین نے مدہو بالا سے پوچھا، تمہارا پیٹ کا درد غائب ہو گیا…

مدھو بالا نے کہا ”درد تو غائب ہو گیا، مگر اب بھوک بڑے زور سے لگی ہے“

نرگس نے کہا اور مجھے بھی..

”…تو کیا پھر ایرانی پلاؤ آئے گا؟ پھر پیٹ میں درد ہو گا، پھر میدان کے چکر اور پھر بھوک؟“ کلدیپ کور نے بڑی تلخی سے کہا۔

نمی نے کہا میں دو پیسے دے سکتا ہوں

میں نے کہا ایک آنہ میری طرف سے

سب سے مل کر چار آنے ہوئے ، نمی کو ایرانی پلاؤ لانے بھیجا گیا کہ سب سے چھوٹا وہی تھا، پھر ایرانی ریستوران کا باورچی اسے پسند بھی کرتا تھا، ممکن ہے نمی کو دیکھ کر چار آنے میں دو پلیٹوں کے بجائے تین پلیٹں یا کم از کم تین پلیٹوں کا مال مل جائے

جب نمی چلا گیا تو میں نے پوچھا کیا تم لوگ روز یہیں سوتے ہو؟

مدھو بالا کے سوا سب یہیں سوتے ہیں ، ککو نے کہا، مدھو بالا اپنے گھر میں جاتا ہے ، مگر آج نہیں گیا

میں نے مدھو بالا سے پوچھا تمہارا گھر ہے؟

ہاں ، سائیں میں ایک جھونپڑا ہے ، ماں وہاں رہتی ہے۔

اور باپ؟

مدھو بالا نے کہا باپ؟ کا مجھے کیا پتہ؟ ہو گا سالا سامنے والی بلڈنگ کا سیٹھ

یکایک وہ سب چپ ہو گئے ، جیسے کسی نے ان کے چہرے پر چپت مار دی ہو، لڑکے جو بے آسرا تھے ، بے گھر تھے ، بے نام تھے ، جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی نہ آنے والی محبت کو فلمی گانوں سے بھرنے کی کوشش کی تھی…

تیرا میرا پیار ہو گیا، کدھر ہے تیرا پیار؟ اے میرے باپ! اے میری ماں! اے میرے بھائی! تو کون ہے؟ تو کون تھا؟ کس لئے تو مجھے اس دینا میں لے آیا اور ان سخت بے رحم عمارتوں کے ٹایلس زدہ فٹ پاتھوں پر دھکے کھانے کے لئے چھوڑ دیا گیا، ایک لمحے کے لئے ان لڑکوں کے فق فریادی چہرے کسی نا معلوم ڈر سے خوفزدہ ہو گئے اور بڑی سختی سے انہوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لئیے ، جیسے کہیں سے انہیں آسرا نہ ملا، جیسے اس شہر کی ہر بڑی عمارت ہر فٹ پاتھ اور ہر چلنے والے قدم نے انہیں ٹھکرا دیا، اور انہیں مجبور کر دیا کہ وہ رات کی تاریکی میں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیں.. مجھے وہ ایسے ہی خوفزدہ اور معصوم معلوم ہو رہے تھے ، جیسے بھولے بھالے بچے کسی نا معلوم بے کنار جنگل میں کھو جائیں ، اسی لئے کبھی کبھی مجھے یہ ایک شہر نہیں معلوم ہوتا ہے ، جس میں معاشرے کے بے نام اولاد سڑکوں کی بھول بھلیوں میں اپنا راستہ ٹٹولتی ہے اور جب راستہ نہیں ملتا تو آنکھیں بند کر کے ایک درخت کے نیچے بیٹھ جاتی ہے ، پھر میں سوچتا ہوں ایسا نہیں ہے۔

بمبئ ایک جنگل نہیں ہے ، شہر ہے ، لوگ کہتے ہیں ، اس کی ایک میونسپل کارپوریشن ہے ، اس کی ایک حکومت ہے ، ایک نظام ہے ، اس کی گلیاں ہیں ، بازار ہیں ، دکانیں ہیں ، راستے ہیں اور گھر ہیں اور یہ سب ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہوئے ہیں جیسے ایک مذہب اور متمدن شہر میں چیزیں ایک دوسرے سے منسلک ہوتی ہیں ، یہ سب میں جانتا ہوں ، اس کے راستے اور گھروں کو پہچانتا ہوں ، ان کی عزت و احترام کرتا ہوں ، لیکن اس عزت اور احترام ، اس محبت کے باوجود میں کیوں دیکھتا ہوں کہ اس بمبئی شہر میں کتنی ہی گلیاں ایسی ہیں، جن سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ، کتنے ہی راستے ایسے ہیں جو کسی منزل کو نہیں جاتے ، کتنے ہی بچے ایسے جن کے لئے کوئی گھر نہیں ہے.. یکایک اس خاموشی کو نمی نے توڑ دیا، وہ بھاگتا ہوا ہمارے پاس آیا، اس کے ہاتھ میں ایرانی پلاؤ کی تین پلیٹیں تھیں ، ان سے گرم گرم سوندھا سوندھا دھواں اٹھ رہا تھا، جیسے ہی اس نے پلیٹیں لا کر گھاس پر رکھ دیں ، تو ہم نے دیکھا کہ نمی کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔

کیا ہوا؟ کلدیپ کور نے پوچھا

نمی نے غضب ناک لہجے میں کہا۔ ”باورچی نے بڑے زور سے یہاں کاٹ کھایا۔“ نمی نے اپنا بایاں رخسار ہماری طرف کر دیا… ہم نے دیکھا بائیں رخسار پر بہت بڑا نشان تھا

کلدیپ کور نے باورچی کو گالی دیتے ہوئے کہا
”حرام زادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“

مگر اس کے بعد وہ سب لوگ ایرانی پلاؤ پر ٹوٹ پڑے..

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close