تہران – ایران حکومت اور افغان طالبان نے ایران اور افغانستان سمیت خطے سے متعلق امریکی سیاست پر کڑی تنقید کی ہے۔ دونوں ہمسایہ ممالک نے کہا ہے کہ امریکا کی ایک اہم سیاسی حکمت عملی تہران اور کابل کے مابین اختلافات کو ہوا دینا ہے
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے افغانستان کے اعلیٰ ترین سفارت کار امیر خان متقی کے ساتھ تہران میں ہونے والی ایک ملاقات میں کہا کہ واشنگٹن حکومت کی اس خطے سے متعلق سیاسی اسٹریٹیجی کا ایک اہم حصہ افغانستان اور ایران کے مابین محاذ آرائی کا ماحول پیدا کرنا ہے
ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم کا حوالہ دیتے ہوئے نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے پیر دس جنوری کے روز تہران سے اپنے مراسلے میں لکھا ہے کہ عبداللہیان نے اس ملاقات میں زور دے کر کہا کہ امریکا اس خطے سے متعلق اپنے سیاسی ارادوں میں کامیاب نہیں ہوگا
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے امریکا کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ اپنی ان غلطیوں سے سبق سیکھے جن کا ارتکاب اس نے گزشتہ بیس برسوں کے دوران اپنی افغانستان سے متعلق پالیسی میں کیا
اس موقع پر افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ امریکا نے گزشتہ برس موسم گرما میں ہندوکش کی اس ریاست سے اپنے آخری فوجی دستے بھی نکال تو لیے تھے، تاہم واشنگٹن اب تک افغانستان پر سیاسی اور اقتصادی حوالوں سے اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے
امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ آج افغانستان کی آبادی کے 80 فیصد حصے کو غربت کا سامنا ہے، جس کے لیے امریکا ہی قصور وار ہے
تہران میں اتوار کی شام جب ایرانی اور افغان وزرائے خارجہ کی ملاقات ہو رہی تھی، تقریباً اسی وقت ایرانی نیوز ویب سائٹ عصر ایران پر ایک خبر شائع ہوئی
اس نیوز ویب سائٹ نے لکھا تھا کہ ایرانی حکومت تہران میں افغان سفارت خانے کی عمارت طالبان کے حوالے کرنے پر تیار ہے۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے صدر اشرف غنی کے دور میں تہران میں تعینات کیے گئے افغان سفیر مبینہ طور پر ایران سے فرار ہو کر بیرون ملک جا چکے ہیں
ایرانی وزیر خارجہ عبداللہیان اور ان کے پہلی مرتبہ تہران کے دورے پر آئے ہوئے افغان ہم منصب امیر خان متقی نے عصر ایران کی اس خبر کی فوری طور پر تردید کر دی۔ تاہم کئی مبصرین کا خیال ہے کہ تہران میں افغان سفارت خانے کا طالبان کے حوالے کیا جانا کوئی بہت غیر معمولی بات اس لیے نہیں ہوگی کہ دیگر ہمسایہ ممالک میں بھی افغان سفارت خانے اب کابل میں طالبان کی حکومت کے حوالے کیے جا چکے ہیں
کئی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ایرانی حکومت کی اس بارے میں سوچ ابھی تک منقسم ہے کہ اسے کابل میں برسر اقتدار طالبان کے ساتھ آئندہ کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ چند ایرانی سیاست دانوں کے مطابق افغان طالبان اب پہلے والے طالبان نہیں رہے
اس کے برعکس کچھ ایرانی سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ کئی حالیہ واقعات اس تاثر کی نفی کرتے ہیں کہ افغان طالبان اب بدل چکے ہیں
دوسری جانب افغانستان تک گندم کی فراہمی کے لیے بھارت پاکستان سے بھی رابطے میں تھا، تاہم اب ایران نے بھی مدد کی پیشکش کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ کی اپنے بھارتی ہم منصب سے افغانستان سمیت کئی امور پر بات چیت ہوئی ہے
بھارتی وزیر خارجہ نے ایک ٹویٹ میں اپنے ایرانی ہم منصب سے فون پر ہونے والی بات چيت کی تصدیق کی ہے۔ بھارتی خبر رساں اداروں کے مطابق فون پر یہ گفتگو ہفتے کے روز ہوئی تھی، تاہم ایران نے اس کی تصدیق اتوار کو اس دوران کی جب وہ تہران میں طالبان کے ایک وفد کی بھی میزبانی کر رہا تھا
بھارت نے بطور امداد افغانستان کو غذائی اجناس مہیا کرنے کے لیے پاکستان سے بھی رابطہ کیا تھا اور اپنے ٹرک اس کی سرزمین سے گزرنے کی درخواست کی تھی۔ پاکستانی کابینہ نے اس کی اجازت تو دی تھی تاہم بعض مسائل کی وجہ سے اس پر ابھی تک عمل نہیں ہو پایا۔ اس تناظر میں ایران کا اعلان اہمیت کا حامل ہے
ایرانی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وزیر خارجہ عامر عبداللہیان نے اپنے بھارتی ہم منصب سے فون پر گفت و شنید کے دوران کئی اہم، علاقائی و عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ بیان کے مطابق دونوں ملکوں نے اپنی روایتی شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا
اس بیان میں کہا گیا کہ افغانستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے عامر عبداللہیان نے ایک کثیر الجہتی حکومت کی تشکیل پر زور دیا۔ انہوں نے افغانستان کے لیے بھارت کی انسانی امداد کا بھی حوالہ دیتے ہوئے، اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے گندم کی شکل میں امداد اور ادویات افغانستان تک منتقل کرنے کے لیے اقدامات اور تعاون کا بھی اعلان کیا
بھارت کا کہنا ہے کہ اس نے گزشتہ ہفتے جمعے کے روز دو ٹن ضروری ادویات کی ایک کھیپ افغانستان کو ایران کے ذریعے فراہم کی تھی
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں فون پر ہونے والی بات چیت کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ایرانی وزیر خارجہ عامر عبد اللہیان کے ساتھ کئی اہم امور پر بات چیت ہوئی۔ ان سے کووڈ 19 کی مشکلات، افغانستان میں چیلنجز، چابہار بندر گاہ سے متعلق امکانات اور ایرانی جوہری مسئلے کی پیچیدگیوں پر تبادلہ خیال ہوا
افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سے بھارت کابل میں اپنا کھویا ہوا مقام تلاش کرنے کی کوشش میں ہے اور وہ اس سلسلے میں کئی ممالک سے رابطے میں ہے۔ خاص طور پر ایران سے اس کا مسلسل رابطہ رہا ہے اور اسی کے ذریعے اس نے ادویات بھیجوائی ہیں
یاد رہے کہ بھارت نے پہلی بار اکتوبر میں غذائی اجناس سمیت دیگر امدادی ساز و سامان أفغانستان بھیجنے کے لیے پاکستان سے رجوع کیا تھا۔ اسلام آباد نے بھی اس پر رضامندی ظاہر کی تھی اور پاکستانی کابینہ نے روایتی حریف ملک بھارت کو پاکستان کی سر زمین استعمال کرتے ہوئے افغانستان تک گندم پہنچانے کی اجازت دینے کا بھی اعلان کیا تھا
تاہم ابھی تک اس پر عمل نہیں ہو پایا ہے اور اطلاعات کے مطابق اس حوالے سے بعض عملی دشواریوں کا سامنا ہے
افغانستان تک گندم کی فراہمی کے لیے بھارت پاکستان سے بھی رابطے میں تھا، تاہم اب ایران نے بھی مدد کی پیشکش کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ کی اپنے بھارتی ہم منصب سے افغانستان سمیت کئی امور پر بات چیت ہوئی ہے.