کراچی – سندھ میں اپنے طرز کے ماضی کے مقبول ترین گلوکار جلال چانڈیو کو جہانِ فانی سے کوچ کیے اکیس برس گزر چکے ہیں ، وہ 10 جنوری 2001 کو سول ہسپتال کراچی میں گردوں کے علاج کے دوران انتقال کرگئے تھے
یکتارو اور چَپڑی کے بادشاہ کہلانے والے جلال چانڈیو کے مداح ان کی برسی کے موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ٹوئٹر پر آن لائن ’جلال میلو‘ کا انعقاد کر رہے ہیں، جس کے تحت گذشتہ دو ہفتوں سے جلال میلو کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ان کی تصاویر اور گانے شیئر کیے جا رہے ہیں
اس کے ساتھ ساتھ مرد اور خواتین مداح جلال چانڈیو کی تصاویر اور ان کے نام سے مشہور ٹرک آرٹ میں ان کی تصویر کی جگہ اپنی تصویر لگا کر پروفائل فوٹو کے طور پر لگا رہے ہیں۔ یہ نوجوان ’جلال میلو‘ کے نام سے ٹوئٹر اسپیسز چلا کر بھی گلوگار کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں
اس ٹرینڈ کا آغاز کرنے والے چند نوجوانوں میں سے ایک خلیق جمالی عرف چارن کا کہنا ہے کہ چند روز قبل میں اپنے دوستوں کے ایک ٹوئٹر اسپیس میں تھا، تو وہاں جلال چانڈیو کا ذکر نکلا۔ میرے کچھ دوستوں بشمول فدا جتوئی، ندیم اور دیگر دوستوں نے کہا کہ جلال اتنے بڑے گلوکار ہیں۔ دیگر شخصیات کی برسی پر مختلف تقریبات ہوتی ہیں، ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلتے ہیں، تو جلال چانڈیو کی برسی پر ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ تو ہم نے سوچا کہ ان کی برسی پر جلال میلو کے نام سے انہیں خراج عقیدت پیش کریں
انہوں نے مزید بتایا کہ اب شخصیات کے نام سے میلے لگتے ہیں، جیسے سندھی شاعر شیخ ایاز کے نام سے ایاز میلو، فیض احمد فیض کے نام سے فیض میلہ ہو رہا ہے، تو اس لیے ہم یہ میلہ منا رہے ہیں
خلیق جمالی کا کہنا تھا کہ اس میلے کا مقصد ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے دور کو یاد کرنا ہے اور چونکہ جلال کے عروج کا دور دو دہائی پہلے تھا، تو جن نوجوانوں کی عمر بیس سے پچیس سے ہے، انہیں جلال سے روشناس کروانا ہے تاکہ ان کو علم ہو کہ جلال سندھی زبان کے کتنے بڑے گائک تھے
سندھی زبان میں وسطی سندھ کو ’ساہتی پرگنو‘ (ادبی خطہ) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جلال چانڈیو اسی ساہتی پرگنے کے ضلع نوشہروفیروز کے شہر پھُل کے نزدیک واقع تاریخی گاؤں ’ہرپا جو ہٹ‘، جس کا اب نام تبدیل ہوکر جلال چانڈیو گوٹھ ہوگیا ہے، میں 1944 میں پیدا ہوئے
جلال چانڈیو کے خاندان کا آبائی کام کپڑے سینا تھا۔ انہوں نے بچپن میں بکریاں بھی چرائیں مگر بعد میں ان کے والد حاجی فیض محمد نے ان سے سلائی کا کام سیکھنے کو کہا
جلال چانڈیو نے اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی، مگر ان کا حافظہ کمال کا تھا۔ وہ کوئی بھی شعر یا کلام ایک بار سن لیتے تھے، تو وہ انہیں ازبر ہوجاتا تھا۔ دیگر فن کاروں کی طرح انہوں نے کبھی بھی لکھا ہوا کلام نہیں پڑھا
جلال چانڈیو کے بیٹے معشوق کہتے ہیں ’میرے دادا چاہتے تھے کہ وہ ایک اچھے درزی بنیں، مگر والد کو راگ کا شوق تھا، انہوں نے ضلع گھوٹکی میں میرپور ماتھیلو کے راگی اور فنکار استاد علی گل مہر سے راگ کی تربیت لے کر گانا شروع کیا۔ ہمارے مُرشد نور محمد شاہ بودلو وارو نے انہیں دعا دی کہ ان کا نام ہوگا اور ایسا ہی ہوا۔‘
جلال چانڈیو کا منفرد انداز عوام میں خاصا مقبول تھا۔ ان کی مونچھیں بڑی تھیں اور وہ سر پر سندھی ٹوپی پہننے کے ساتھ گلے کے بٹن کھول کر ایک ہاتھ میں چَپڑی ساز اور دوسرے میں ہاتھ کے کام سے سجا ہوا یکتارا اٹھا کر گاتے تھے
بعد میں عوام میں ان کا یہ انداز ’جلال کَٹ‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ جن میں ’جلال کٹ ٹوپی‘، ’جلال کٹ شہپر‘ (مونچھیں) اور ’جلال کٹ یکتارو‘ خاصے مقبول ہوئے
جلال چانڈیو کی شخصیت سے متاثر ہوکر ان کے بعد کئی فنکاروں نے ان کے انداز کی کاپی کرتے ہوئے ان ہی کی طرح گانے گائے اور مقبول بھی ہوئے۔ کچھ فنکار اپنے نام کے ساتھ جلال کا نام لگانا فخر سمجھتے تھے
ویسے تو جلال شادیوں، تقریبات اور سندھ میں درگاہوں پر لگنے والے میلوں میں اپنے منفرد فنِ گائیکی کا مظاہرہ کرتے تھے، لیکن 1970ع کی دہائی میں جب ٹیپ ریکارڈر آیا تو لوگ ان کے گانوں کو ریکارڈ کرنے لگے، تاکہ وہ بعد میں ان کا کلام سن سکیں۔ اسی دور میں سندھ میں کیسٹ کمپنیاں کھل گئیں اور بعد میں ان کمپنیوں نے جلال کے کلام کی کیسٹس بھی ریلیز کیں
ایک اندازے کے مطابق جلال چانڈیو کی پانچ سو سے زائد کیسٹیں ریلیز ہوئیں۔ ان کے انداز سے متاثر ہوکر معروف فلمساز شاہ اسد نے ان کی زندگی پر 1985ع میں ’جلال چانڈیو‘ نام سے فلم بھی بنائی، جس میں جلال نے خود بھی حصہ لیا۔ 1980 اور 1990 کی دہائی جلال کے عروج کا دور تھا
سندھی میں کہاوت ہے کہ ان کے گانوں نے سندھ میں پہلے سے مقبول اردو اور پنجابی گلوکاروں کو ’بستر بندھوا کر چلتا کردیا۔‘
جلال چانڈیو نے تین شادیاں کیں اور ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے
ان کے بیٹے معشوق جلال نے بتایا: ’میرے والد جلال چانڈیو سندھی ٹوپی، اعلیٰ نسل کے گھوڑے اور اچھی نسل کی بھینس رکھنے کے شوقین تھے۔ ان کی ٹوپیاں ضلع دادو کے علاقے جوہی سے آتی تھیں اور وہ ہر جوڑے کے ساتھ الگ سندھی ٹوپی پہنتے تھے۔ بھینس ایسی لیتے تھے، جس پر کوئی داغ نہ ہو۔ ایک آپریشن کے بعد ڈاکٹروں نے انہیں گھڑسواری کرنے سے منع کردیا تھا، مگر پھر بھی وہ گھوڑے رکھتے تھے۔‘
جلال چانڈیو کی وفات کے بعد انہیں ان کے آبائی گاؤں سے چار کلومیٹر دور گاؤں بودلو میں دفنایا گیا، جہاں ان کی برسی پر سندھ بھر کے فنکار گانا گا کر محفل سجاتے ہیں
معشوق جلال کے مطابق: ’سندھ میں چپڑی اور یکتارے پر گانے والے تمام فنکار برسی والے دن یہاں آتے ہیں اور یکتارا اور چپڑی پر گانا گاکر انہیں یاد کرتے ہیں، مگر اس سال موسم کی خرابی کے باعث ان کی برسی کی تقریب نہیں کر رہے۔‘
جلال چانڈیو کے عروج کے دور میں سندھ کے پڑھے لکھے لوگ جلال کو ’دیہاتوں کا فنکار‘ کہہ کر نہیں سنتے تھے۔ جب جلال نے ریڈیو پاکستان حیدرآباد پر گانا شروع کیا تو کئی لوگوں نے خط لکھ کر ان کے گانے نہ چلانے کا کہا۔ جلال کے عروج کے دور میں سندھ میں کھیتوں میں چلنے والے ٹریکٹر، پبلک بسیں، چائے ڈھابے اور شادی کی تقریبات جلال کے کلام کے بغیر ادھورے سمجھے جاتے تھے
جلال چانڈیو کی سخاوت بھی مشہور ہے، کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی سائل آتا تھا تو خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا۔ وہ سندھی کُشتی کھیلنے والے ملھ پہلوانوں کی سرپرستی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مالی معاونت کرتے تھے
پاکستان میں مال بردار ٹرکوں کے پیچھے ٹرک آرٹ کے ساتھ مختلف شخصیات کی تصاویر لگانے کا رجحان ہے۔ گلوکاروں میں خصوصاً سرائیکی، پنجابی اور دیگر زبانوں میں گانے والے عطااللہ عیسیٰ خیلوی اور سندھی زبان کے گلوگار جلال چانڈیو کی تصاویر لگائی جاتی ہیں
شمالی سندھ کے تاریخی شہر جیکب آباد کے ٹرک اڈے پر گڈز ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرنے والے علی بروہی کے مطابق پاکستان میں ٹرکوں پر لگی تصاویر میں سے زیادہ تر جلال چانڈیو کی تصاویر ہیں
علی بروہی کے والد غلام محی الدین شاہ جلال چانڈیو کے بہت بڑے مداح تھے، ان کے والد کی جلال سے عقیدت کے بعد نہ صرف ان کے خاندان والے بلکہ ان کا پورا گاؤں ہی جلال کا مداح بن گیا
علی بروہی کا کہنا ہے کہ میرے والد بھی گڈز ٹرانسپورٹ کا کام کرتے تھے۔ انہوں نے جب جلال کو سنا تو ان کے مداح اور بعد میں پکے دوست بن گئے۔ والد سے ملنے جلال اکثر آیا کرتے تھے، جنہیں دیکھنے بڑے تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے تھے
علی بروہی نے مزید بتایا کہ میرے والد گڈز ٹرانسپورٹ کے ساتھ ٹرک بیچنے کا کام بھی کرتے تھے، تو انہوں نے اپنے من پسند فنکار اور دوست کو خراج تحسین پیش کرنے کا سوچا۔ اس کے لیے وہ جو بھی ٹرک بیچتے تھے ان سے تحریری طور پر معاہدہ کرتے تھے کہ وہ ہر صورت میں ٹرک کے پیچھے جلال چانڈیو کی تصویر لگائیں گے۔ اگر انہوں نے تصویر ہٹائی تو ٹرک واپس کرنا پڑے گا
علی بروہی کے مطابق ’میرے والد کے دور میں دو سو سے ڈھائی سو ٹرکوں پر جلال چانڈیو کی تصاویر لگیں، مگر ان کے بعد جب ہم نے کاروبار سنبھالا تو ہم نے بھی ٹرک پر جلال کی تصویر لگانے والا کام جاری رکھا اور اب تک ہم ایک ہزار سے زائد ٹرکوں پر جلال چانڈیو کی تصاویر لگا چکے ہیں، جن کے مالکان معاہدے کے تحت جلال کی تصویر ٹرک سے ہٹا نہیں سکتے۔‘
ان کا دعویٰ ہے کہ ’پاکستان میں جتنے بھی ٹرک ہیں، ان پر ٹرک آرٹ کے ساتھ جتنی بھی شخصیات کی تصاویر ہیں، ان میں سب سے زیادہ تصویریں جلال چانڈیو کی ہیں۔‘