سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط 18)

شہزاد احمد حمید

”مرول ٹاپ سے وہ دور پہاڑ کی چوٹی پر جو سفید پتھروں کی لکیر دکھائی دے رہی ہے، دراصل ’لائن آف کنٹرول‘ ہے۔ اسی لائن آف کنٹرول کے دامن سے بہتا میں پاکستان میں داخل ہوا ہوں۔ دونوں سرحدوں پر مجھے کوئی فوجی نظر نہیں آیا البتہ ان اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں پر دونوں دشمن افواج کے بنکرز ان کی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ یہ آپس میں کم اور موسم اور پہاڑوں کی سختیوں سے زیادہ نبر آزما رہتے ہیں۔ دورِ جدید میں توپوں اور اسلحہ سے دُور تک دشمن کے علاقے کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ایسا ہی اسلحہ ان بنکروں میں بھی ہے۔ یہاں موجود جوان اپنی گنوں کا منہ ایک دوسرے کی طرف کئے مرنے مر جانے کو تیار ہیں۔۔“

قریب ہی مجھے ایک بنکر دکھائی دیا، جس کے سوراخ سے پاکستانی مشین گن کا منہ بھارتی چوکی کی جانب ہے۔ باس، مشتاق اور لاہور سے میرا سرکاری ڈرائیور اشرف جیپ سمیت پہنچے ہوئے ہیں۔ میرے پھوپھی زاد بھائی قیس مظہر حسین بھی ساتھ ہیں کہ انہیں میرے ساتھ ان علاقوں میں گھومنے کا بہت اشتیاق ہے۔ اکیاسی (81) سالہ بھائی جان پاکستان ایئر فورس کے ریٹائرڈ فائٹر ہوا باز ہیں۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں حصہ لیا۔ 2 بھارتی جہاز گرائے۔ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے 65ء کی جنگ کے پہلے اور آخری مشن میں حصہ لیا۔ پہلے مشن میں وہ اپنے اسکوارڈن کمانڈر ”اسکورڈن لیڈر علاؤالدین احمد المعروف بچ شہید“ کے نمبر دو تھے جبکہ آخری مشن میں وہ سولو پرواز پر تھے۔ پاکستان کو ملنے والے چینی ساخت کا ایف 6 جہاز چین سے لانے والے پائیلٹس میں بھی وہ شامل تھے۔ انہوں نے امریکہ سے اعزاز کے ساتھ فائیٹر پائیلٹ کی ٹریننگ مکمل کی اور تمام گروپ میں اؤل نمبر پر رہے۔ جنگ کے بعد ایک کار حادثے میں انہیں ایئر فورس چھوڑنی پڑی تھی۔ ہنس مکھ، زندہ دل، اعلیٰ پائے کے شیف، بہادر، نیک دل اور کمال یار دوست انسان ہیں۔ باتوں کے فلسفی، عمدہ لکھاری، ٹینس اور اسکوائش کے اعلیٰ درجے کے کھلاڑی رہے اور کبھی سلطان ایف حسین مرحوم کی ایڈیٹر شپ میں شائع ہونے والے کھیلوں کے معروف میگزین ’اسپورٹس ٹائم‘ کے لئے بھی لکھتے رہے ہیں۔ سلطان ایف حسین کرکٹ کھیلنے کے زمانے میں میرے کوچ بھی رہے۔ ان جیسا کمال انسان میں نے زندگی میں کم ہی دیکھا ہے

ایک اور دوست اور ہمارے میزبان محکمہ بلدیات بلتستان میں بطور سیکرٹری یونین کونسل فرائض انجام دینے والے 45 سالہ قاچو غلام محمد بھی موجود ہیں۔ سادہ، دھیما مزاج، ہنس مکھ، مہمان نواز۔ اپنے علاقے کے رسم و رواج اور معلومات سے اُسے اچھی واقفیت ہے۔ اس کا تعلق کھرمنگ کے شاہی خاندان سے ہے، اسی لئے نام کے ساتھ ’قاچو‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے، جو یہاں صرف شاہی خاندان کے افراد کے لئے ہی مخصوص ہے۔ اس کا برادر نسبتی محمد علی بھی محکمہ بلدیات بلتستان کا ملازم اور آج کل اُس کی تعیناتی بطور اسٹنٹ اسکردو میں ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ محمد علی سے ملاقات اسکردو میں ہوگی۔ نین بھی اسکردو میں ملے گی۔ ہم سب (غلام محمد اور محمد علی کے علاوہ) سندھو کے ڈیلٹا تک جائیں گے، مختلف مراحل میں۔ میں سندھو کا جنم اور چڑھتی جوانی اور اٹھتا جوش یہاں تک دیکھ آیا ہوں۔یہاں تک کے سفر میں یہ خوب شور مچاتا، اپنا سر چٹانوں سے پٹختا، پہاڑوں کی خاموشی کو توڑتا زندگی کی نوید دیتا ہے۔

اولڈنگ سے تقریباً 4 کلو میٹر ڈاؤن اسٹریم میں پہاڑ کی ایک اونچی چٹان پر کھڑا ’مرول ٹاپ‘ کے اس درے پر نظر لگائے ہوں، جہاں میرے سامنے 18 ہزار فٹ بلند پہاڑوں کے درمیان سے سندھو پاکستان میں داخل ہوا ہے۔ یہ شاندار نظارہ ہے۔ ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑ سنہری دھوپ میں چمک رہے ہیں۔ سندھو کا آدھا پانی سنہرا اور آدھا پہاڑوں کے سائے کی وجہ سے کالا دکھا ئی دے رہا ہے۔ یہ کالا نظر آنے والا پانی دراصل دریائے شنگو کا ہے، جو کھرمنگ سے سڑک کے ساتھ ساتھ بہتا اس مقام پر سندھو میں ملتا ہے۔ میرے پاس کھڑے قاچو غلام محمد نے بتایا؛ ”سر! مرول ٹاپ سے ذرا اوپر ’وانکو‘ (ژثیرے تھنگ بلتی نام) نامی گاؤں ہے اور گاؤں سے کچھ نیچے ’وانکو برج‘ ہے، جس کے نیچے سے گزر کر سندھو مرول ٹاپ کی طرف بہتا ہے۔ دراصل وانکو گاؤں ہی سندھو کے پاکستان میں داخل ہونے کا اصل مقام ہے۔ وہ سامنے نظر آتی سفید پتھروں کی دیوار ’لائن آف کنٹرول‘ ہے۔ اس کے قریب ہی آپ کو بھارتی گن پوزیشن بھی نظر آ رہی ہوگی۔ ہم بھی اس گن کے نشانے پر ہیں۔“

مجھے تو دکھائی نہ دی البتہ مشتاق کی عقابی نگاہوں نے نہ صرف بھارتی گن پوزیشن ڈھونڈ لی بلکہ پاکستانی سرحد پر پہاڑ کی چوٹی پر لگی پاکستانی گن پوزیشن بھی دیکھ لی ہے۔ مجھے سندھو کی سرگوشی سنائی دی؛ ”دوست! دیکھو میں پاکستان میں داخل ہوا ہوں، کوئی بارڈر، کوئی باڑ مجھے روک نہیں سکی ہے۔ تمہارے دائیں ہاتھ ’شنگو ریور‘ اور مرول ٹاپ ہمارا سنگم ہے۔ پاکستان میں میری پہلی ڈسٹری بیوٹری۔“

سنگم پر کھڑا غلام محمد ہمیں بتا رہا ہے؛ ”سر! آپ کے سامنے دریائے لداخ اولڈنگ کی جانب اور دریائے کارگل (مقامی لوگ شنگو کو ’کارگل ریور‘ بھی کہتے ہیں) سامنے کی جانب سے بہتے آ رہے ہیں۔ مرول ٹاپ جو ان دونوں دریاؤں کا سنگم ہے، وہیں سے دریائے سندھ جنم لیتا ہے۔“

اس کی بات میرے لئے حیران کن تھی۔ اس نے مزید بتایا؛ ”جناب! کھرمنگ کے رہنے والوں کی اکثریت ایسا ہی سمجھتی ہے کہ دریائے سندھ کی شروعات یہی سنگم ہے۔“

اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا، مجھے داستان گو کی سرگوشی سنائی دی؛ ”دوست! دیکھو لو۔۔ تمہارے کھرمنگ کے لوگ میرے بارے اور میری شروعات کے بارے کس غلط فہمی کا شکار ہیں۔ میرا شکوہ ریکارڈ کر لو۔“

میں نے غلام محمد کو بتایا؛ ”نہیں ایسا نہیں ہے۔ تم لوگوں کا خیال سندھو کی ابتداء کے حوالے سے بالکل غلط ہے۔ سندھو کا جنم تبت کے پہاڑوں میں ایک چشمے ’سنگھ کھاباب‘ سے ہوتا ہے اور جسے تم کارگل دریا سمجھتے ہو، دراصل یہ شنگو ریور ہے، جو پاکستان سے بہتا ہندوستان جاتا ہے اور کارگل کے قصبے سے چند کلو میٹر ڈاؤن اسٹریم سندھو میں مل جاتا ہے۔ یہ ہمارے سامنے سے بہہ کر آنے والا دریا کارگل نہیں بلکہ سندھو ہے۔“

اس کے لئے میری بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ اپنے بزرگوں اور علاقے کے لوگوں سے سن رکھی روایات کو اتنی آسانی اور جلدی بھول جانا قطعی ممکن نہیں اور اس پر یقین کرنا تو شاید آسان ہی نہیں ہے۔

میں 9 ہزار فٹ کی بلند ی پر کھڑا اپنے دوست سندھو کو اس سنگم سے بہتا دیکھ رہا ہوں۔ آسمان پر بادل چھانے لگے ہیں۔ سورج اور بادلوں کی آنکھ مچلولی نے پہاڑوں پر دھوپ چھاؤں کا حسین رنگ جما دیا ہے۔ خنک ہوا نے دن کے اس پہر موسم خوشگوار کر رکھا ہے۔ میرے سامنے آسمان میں کھبے (پیوست) ان پہاڑوں کے درمیان پرسکون بہتے ان دو دریاؤں کا سنگم شاندار نظارہ پیش کر رہا ہے۔ ان پہاڑوں کی شان دیکھ کر مجھے قرآن کریم کی آیت یاد آ گئی ہے، جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے: ”بے شک ہم نے پہاڑ زمین میں میخوں کی طرح گاڑ دئیے ہیں تاکہ زمین کا توازن برقرار رہے۔“

میں اس شاندار اور دلفریب نظارے میں اس قدر محو تھا کہ پہلا موقع ہے کہ مجھے اپنے دوست کی آواز سنائی نہیں دی۔ اسے ذرا زور سے دوسری بار مجھے آواز دے کر اپنی طرف متوجہ کرنا پڑا ہے۔ میں چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا ہوں، ”دوست!جس پہاڑ کے سائے میں تم کھڑے ہو یہ قراقرم کے پہاڑ ہیں، جبکہ تمہارے سامنے میرے دوسرے کنارے ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ سر اٹھائے ہے۔ میں ان دو عظیم پہاڑی سلسلوں کے درمیان سے بہتا کھرمنگ کی جانب رواں ہوں۔ یہ اللہ کی عنایت ہے کہ اس نے مجھے دنیا کے ان عظیم ترین پہاڑی سلسلوں کے درمیان بہنے کا موقع دیا ہے۔“

میں اس کی بات پر مسکرایا اور جواب دیا؛ ”شاید یہی وجہ ہے کہ بچپن سے ہی مجھے تم سے محبت ہے، تمہاری دوستی پر ناز ہے۔“

میں ہمالیہ کے پہاڑوں سے سندھو کی سطح کے متوازی بلندی کو جاتے راستے پر نگاہ اٹکائے ہوں۔ مجھے حیران دیکھ کر سندھو بھانپ گیا اور کہنے لگا؛ ”میری جان! اس مقام سے سات آٹھ کلو میٹر ڈاؤن اسٹریم ’ہمزی گونڈ‘ (قمر یگون) کی چھاؤنی اور بریگیڈ ہیڈ کوارٹرز ہے۔ یہ راستہ وہیں سے شروع ہو کر دور اوپر پہاڑوں میں کارگل اور بٹالک سیکٹرز میں قائم پاکستانی فوجی چوکیوں کو سامان رسد پہنچانے کے لئے ہے۔ قدیم کھر منگ۔۔۔ کارگل روٹ بھی یہی تھا۔ تمہیں یہ بھی بتا دوں زمانہ قدیم میں مجھ پر پل تعمیر کرنا آسان نہ تھا تو قراقرم کے پہاڑی سلسلے پر رہنے والے قراقرم پر بنے راستے سے لداخ جاتے تھے جبکہ ہمالیہ کے پہاڑوں پر بسنے والے ہمالیہ پر بنے راستے سے۔ یہ سفر انتہائی مشکل اور دشوار گزار تھا۔ یہ تو تم جانتے ہو لداخ اس دور کا اہم تجارتی مرکز تھا۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے ایک ڈائریکٹر جنرل بلدیات پنجاب کرنل (آر) محمد شہباز 1978ء میں 2 این ایل آئی کے بٹالین کمانڈر رہے اور ’شہباز پوسٹ‘ انہوں نے ہی قائم کی تھی؟“ میں نے جواب دیا؛ ”نہیں یہ میرے علم میں نہیں ہے لیکن میری ان سے اچھی نیاز مندی اور شناسائی تھی اور آج بھی ہے۔“ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے.


 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close