اتراکھنڈ – دسمبر کے تیسرے ہفتے میں بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے شہر ہری دوار میں ملک کی مسلم برادری کے خلاف مبینہ نفرت انگیز اور مسلمانوں کے قتل عام کی ہدایات پر مبنی تقاریر کی وائرل وڈیو لاکھوں لوگوں کی طرح گلبہار قریشی نے بھی دیکھی تھی۔ تاہم ان کا ردعمل دوسرے لوگوں سے مختلف تھا
گلبہار قریشی نے سوشل میڈیا پر تبصرہ یا بحث کرنے کے بجائے اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا فیصلہ کیا
پچیس سالہ قانون کے طالب علم گلبہار نے مسلمانوں کے خلاف مبینہ نفرت انگیز تقریر کے خلاف لڑائی کے لیے ’آئینی راستہ‘ اختیار کرتے ہوئے 23 دسمبر کو ہری دوار کوتوالی میں اس واقعے کے خلاف پولیس ایف آئی آر درج کروائی ہے
اس معاملے میں بھارت کے شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے، جن کا نیا نام جتیندر نارائن تیاگی ہے
اتراکھنڈ پولیس نے اس بارے میں 23 دسمبر کو ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر ایک مخصوص مذہب کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کر کے نفرت پھیلانے کی وائرل وڈیو کا نوٹس لیتے ہوئے، وسیم رضوی عرف جتیندر نارائن تیاگی اور دیگر کے خلاف کوتوالی ہریدوار میں آئی پی سی کی دفعہ 153 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے۔‘
گلبہار قریشی کا کہنا ہے کہ وڈیو میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے، وہ آئین کے خلاف ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے خیالات کی کوئی جگہ نہیں یہ سب باتیں آئین کے خلاف ہیں
انہوں نے کہا کہ ان کی لڑائی کسی ایک مذہب کے لیے نہیں بلکہ آئین اور ملکی سلامتی کی ہے
تاہم انھوں نے پولیس میں جو شکایت درج کروائی ہے، اس میں مبینہ طور پر پیغمبر اسلام پر کیے گئے تبصرے کو بنیاد بنایا گیا ہے
اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بھارتی آئین نے یہاں ہر کسی کو رہنے اور کھانے کا حق دیا ہے اور انہیں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی ہے، ایسے میں اس چیز کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں، کہ کسی خاص مذہب کی مقدس ہستیوں کے متعلق ناشائستہ زبان استعمال کی جائے؟ یہ براہ راست آئین کے خلاف ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہر اس شخص کے خلاف قانونی لڑائی لڑوں گا جو ملک میں نفرت پھیلانے کی کوشش کرے گا۔‘
گلبہار قریشی جوالاپور، ہری دوار کے رہنے والے ہیں اور بی اے، ایل ایل بی فائنل ایئر کے طالب علم ہیں۔ وہ فی الحال ایک سینیئر وکیل کی نگرانی میں وکالت کی تربیت لے رہے ہیں
دیوتاؤں کی سرزمین ہری دوار
اس پچیس سالہ نوجوان کے دوست جہاں ان کی حفاظت کے سلسلے میں پریشان ہیں، وہیں شہر میں نفرت انگیز تقاریر پر بہت سے لوگوں میں غصہ پایا جاتا ہے
لوگوں کا کہنا ہے کہ علاقے میں لوگ ہمیشہ امن اور بھائی چارے کے ساتھ رہے ہیں۔ آج تک یہاں کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا۔ یہ سب کچھ الیکشن کے پیشِ نظر ہو رہا ہے
ساٹھ سالہ پرمود چوہان، جو جوالاپور میں مٹھائی اور ٹافی کی دکانوں پر سیلزمین کے طور پر کام کرتے ہیں، ان کا بھی کچھ یہ ہی خیال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہمارا برسوں سے کاروباری تعلق ہے۔ ہم سب ہندو اور مسلمان یہاں بھائی بھائی کی طرح رہ رہے ہیں۔ باہر سے کچھ لوگ آ کر ماحول خراب کر رہے ہیں
ساٹھ سالہ پرمود چوہان کہنتھا کہ ہمارے ہری دوار کو بچائیں. جب یہ کہتے ہوئے ان کی تصویر لینے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے ہاتھ جوڑ کر کیمرا مین کو ایسا کرنے سے روک دیا
شہر میں پھیری لگانے والے کشن سنگھ کہتے ہیں کہ ’ہم یہاں کافی عرصے سے رہ رہے ہیں، لیکن کبھی ماحول خراب نہیں دیکھا۔ حالیہ دھرم سنسد میں جو کچھ ہوا، اس کے بعد بہت سی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جس نے بھی غلط کیا ہے اسے سزا ملنی چاہیے۔‘
خود کو شیو سینا کا رہنما بتانے والے عباد قریشی، جو گلبہار کے جاننے والے ہیں، کہتے ہیں کہ ’میں شیو سینا میں ضلع خزانچی کے عہدے پر ہوں۔ ملک کی سالمیت کے معاملے میں ہم ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ ملک کے لیے جان بھی حاضر ہے۔‘
تاہم گلبہار کے دوست محمد عظمت علوی ان کی حفاظت کے حوالے سے قدرے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ باڈی بلڈر عظمت کہتے ہیں کہ ’گلبہار ان لوگوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے جن سے اسے خطرہ ہو سکتا ہے۔ حالانکہ ہم انہیں پورے دن سکیورٹی دے رہے ہیں لیکن پھر بھی حکومت کو چاہیے کہ انھیں پولیس سکیورٹی فراہم کی جائے۔‘
جمیعت علما اترا کھنڈ کے صدر مولوی محمد عارف کا کہنا ہے کہ ‘کوئی مسلمان بھگوان رام کو کچھ نہیں کہتا اور نہ ہی سیتا کو، پھر لوگ اسلام کے بارے میں بری زبان کیوں استعمال کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک کی حکومت ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ ہم امن چاہتے ہیں۔‘
گلبہار کو بھی اپنی حفاظت کی فکر ہے، لیکن ان کا خیال ہے کہ یہ آئین کو بچانے کی لڑائی ہے، جسے لڑنا ہی پڑے گا۔ لیکن ساتھ ہی وہ ہری دوار کے بارے میں بھی پریشان ہیں۔