کراچی – ڈھلتی شام کا وقت ہے، سورج غروب ہونے کے قریب ہے، آسمان کے سرخ کناروں کی روشنی میں ایک خانہ بدوش شخص اپنے خیمے کے باہر چراگاہ سے آنے والے ریوڑ کا منتظر ہے
اس کی دائیں جانب چمکدار روایتی لباس زیب تن کیے ایک جوان کوچی خاتون جنگل سے چنی گئی لکڑیوں کی آگ پر کالی کیتلی میں چائے تیار کر رہی ہیں، جب کہ دوسری معمر خاتون آٹا گوندھنے میں مصروف ہیں، ان کے بچے خیمے کے گرد کھیل رہے ہیں
یہ منظر ہے ایک افغان خانہ بدوش خاندان کی روزمرہ زندگی کی ایک شام کا، جن کی سہولیات سے محروم سادہ زندگی کا دوسرا نام سفر در سفر ہے
ان کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں، جہاں پڑاؤ ڈالا اور خیمہ زن ہوئے، وہی ان کا گھر ہے۔ مویشی بانی ہی ان کی وسیع لیکن محدود دنیا کی معیشت ہے، جس کا دارومدار صرف صرف چراگاہوں اور پانی کی تلاش پر ہے۔ زندگی کے دکھ سکھ، غم خوشی، شادی بیاہ، فوتگی اور دیگر رسومات و تقریبات سفر ہی میں ادا کرنے پڑتے ہیں
اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق پچیس لاکھ افغان خانہ بدوشوں کو مقامی طور پر کوچی کے نام سے جانا جاتا ہے، جو صدیوں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان یا پھر اندرون افغانستان موسم کی تبدیلی کے ساتھ سال میں دو مرتبہ سفر کرتے رہتے ہیں
تاہم ان کی تعداد کا مصدقہ ڈیٹا کہیں کسی کے پاس موجود نہیں. پاک-افغان سرحد پر باڑ لگنے کے بعد ان کی تعداد میں بتدریج کمی آ رہی ہے، کیونکہ ان کے بقول، انہیں سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ نہ فروری-مارچ میں افغانستان میں داخل ہونے کی اور نہ ہی اگست-ستمبر میں واپس پاکستان جانے کی
کوچی پشتو یا دری زبان کے لفظ ’کوچ‘ سے اخذ کیا گیا ہے، جس کے معنی ہجرت کے ہیں۔ کوچی مقامی طور پر پاوندہ اور کڈوال کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ یہ کوئی ایک قبیلہ نہیں ہے، بلکہ مختلف پشتون قبائل کا مجموعہ ہے، جن میں دوتانی، ترکئی، صافی، سلیمان خیل، سلیمان زئی، احمدزئی اور دیگر شامل ہیں
اکیسویں صدی میں کوچی آج بھی اپنی روایتی طرز کی زندگی گزار رہے ہیں اور سال کا زیادہ تر وقت کارواں اور قافلوں کی شکل میں ہزاروں میل طویل راستوں پر سفر میں گزارتے ہیں۔ وہ دامان، پاکستان سے خراسان، افغانستان تک صدیوں پرانے روایتی روٹس پر پیدل سفر کر رہے ہیں اور اپنے مویشیوں، بھیڑ بکریوں، اونٹوں اور گدھوں کے ریوڑ کے ساتھ روزمرہ استعمال کی اشیا بھی ساتھ رکھتے ہیں۔ پشتو زبان بولنے والے یہ کوچی منفرد ثقافت اور روایات کے مالک ہیں
بہار کے موسم میں جب پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف پگھلنے لگتی ہے، تو ہوا کی تبدیلی کے ساتھ کوچی اپنے مویشیوں کو لے کر واپس آنا شروع ہوجاتے ہیں اور پہاڑوں کے دامن میں چراگاہوں پر خیمہ زن ہوجاتے ہیں
انہیں اپنے مویشیوں سے بے پناہ محبت ہے۔ وہ صبح سویرے اپنا سامان اونٹوں اور گدھوں پر باندھ کر اگلی منزل تک سفر کا آغاز کرتے ہیں، جہاں پانی اور گھاس سبزہ ملے، خیمے اتار کر پڑاؤ ڈالتے ہیں
خانہ بدوش پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس سفر کے دوران بلوچستان کی سرزمین سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔ وہ چمن، پشین، قلعہ سیف اللہ، ژوب اور شیرانی کے علاقوں سے ہوتے ہوئے اپنے اگلی منزل تک سفر کرتے ہیں
کوچی دریائے ژوب سمیت پانی کے ذخیروں کے نزدیک یا پھر میدانی علاقوں اور پہاڑی دروں میں قیام کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو بارش کے کھڑے پانی کو بھی غنیمت جان کر استفادہ کیا جاتا ہے
کوچی خواتین بکرے کے چمڑوں سے بنے مشکیزوں میں پانی لاتی ہیں۔ بیمار ہونے کی صورت میں گھریلو ٹوٹکوں اور جڑی بوٹیوں کا سہارا لیا جاتا ہے
کوچی خواتین سفر کے دوران اپنے چہرے کو چھپانے کے لیے نقاب کا استعمال نہیں کرتیں۔ حالانکہ پشتون معاشرے میں عموماً دیہی خواتین کو گھر سے باہر اور اجنبی لوگوں کے سامنے اپنا چہرہ ڈھانپنا پڑتا ہے۔ کوچی خواتین پیدل سفر کے ساتھ ساتھ پانی لانے، دہی پنیر اور لسی تیار کرنے اور چائے کھانا تیار کرنے میں اپنا وقت گزارتی ہیں۔ جب کہ فارغ وقت میں کپڑوں پر روایتی ڈیزائنوں سے مزین شیشے لگاتی اور اون کے دھاگے سے انتہائی نفاست سے کڑھائی کرتی ہیں۔ شادی شدہ دلہن اور نوجوان کوچی لڑکیاں چمکدار تیز رنگ کا لباس پہنتی ہیں، جو روایتی آئینوں سے سجا ہوتا ہے۔ جو نہ صرف دھوپ میں چمکتا ہے بلکہ راہ چلتے دھنکتا بھی ہے۔ خواتین سفر کے دوران کمر بند کا استعمال کرتی ہیں
کوچی رسومات کے بارے میں نیک محمد نے بتایا کہ شادی کے موقع پر مختلف علاقوں کے لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ شادی سے قبل تمام کوچی ایک ساتھ خیمہ زن ہوتے ہیں۔ اور شادی کے مراسم ادا کیے جاتے ہیں۔ فوتگی کے موقع پر بھی کوچی خاندان اکٹھے ہوتے ہیں انہیں کھانا کھلایا جاتا ہے
’شادی کے موقع پر مرد اور خواتین الگ الگ بٹھائے جاتے ہیں۔ دنبے ذبح کیے جاتے ہیں۔ گوشت کو روایتی طریقے سے پکا کر یخنی شوربا تیار کیا جاتا ہے۔ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکرے کر کے شوربے کے ساتھ مکس کیے جاتے ہیں۔ روٹی کھانے کے برتنوں (کاسوں) میں ڈال کر اور اوپر گوشت کے ٹکڑے رکھ کر مہمانوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ ہم سلیمان زئی قبیلہ کے لوگ ڈھول کی تھاپ پر روایتی رقص یا اتنڑ نہیں کرتے تاہم دیگر قبائل ڈھول کے ساتھ اتنڑ کرتے ہیں۔ دوتانی قبیلے میں ڈھول کا رواج عام ہے۔‘
کوچیوں کے سفر کا آغاز صبح سورج نکلنے سے قبل ہوتا ہے۔ خیمے کو فولڈ کرکے تمام اشیا کو رسیوں سے باندھ کر اونٹوں اور گدھوں پر رکھا جاتا ہے۔ بچوں، ضعیف العمر مرد اور خواتین کو بھی اونٹوں اور گدھوں کی سواری نصیب ہوتی ہے، بچوں کو اونٹوں اور گدھوں پر رسیوں سے باندھ دیا جاتا ہے تاکہ راستے میں گرنے کا خطرہ نہ ہو۔ کوچی کتا کاروان کے آگے آگے جاتا ہے، اور آنے والے ہر خطرے سے نمٹتا ہے
کوچی خواتین تیز چمکدار لباس پہنتی ہیں۔ ان کے کپڑوں پر انتہائی مہارت کے ساتھ کشیدہ کاری اورنقش و نگاری کی جاتی ہے۔ ان کی قمیصوں پر موتیوں اور ستاروں کا کام کیا جاتا ہے جو راہ چلتے جھنکار پیدا کرتی ہیں۔ جب کہ کوچی مرد سادہ لباس، پگڑی اور واسکٹ پہنتے ہیں اور طویل سفر میں پائیدار شکاری شوز کا استعمال کرتے ہیں
بلوچستان گزیٹیرز کے مترجم پروفیسر میرحسن خان اتل کوچیوں کی تاریخ کے بارے میں بتاتے ہیں ”افغان خانہ بدوش تقسیمِ ہند سے قبل بمبئی اور کلکتہ تک جاتے تھے، لیکن تقسیم ہند کے بعد یہ لوگ پاکستان اور افغانستان تک محدود ہو گئے اور 1980ع کے بعد یہ لوگ اور بھی محدود ہوگئے، کیونکہ افغانستان میں جنگ کی وجہ سے یہ آزادی اور آسانی کے ساتھ سفر نہیں کر سکتے تھے“
پروفیسر میر حسن کہتے ہیں ”خانہ بدوشوں کا ایک بڑا گروپ دریائے گومل کے راستے پہلے ڈیرہ اسماعیل خان آتا تھا۔ پھر کوچی یہاں سے وسطی اور جنوبی پنجاب میں پھیل جاتے تھے۔ ایک اور گروپ غزنی اور پکتیا سے براستہ قمردین کاریز، ژوب اور دہانہ سر کے راستے سے ڈیرہ اسماعیل خان جاتا تھا اور پھر جنوبی پنجاب میں پھیل جاتا تھا۔ وہ خانہ بدوش جو ہلمند، سیستان اور قندھار کی طرف سے آتے تھے، وہ زیادہ تر وادی پشین اور درہ بولان کے راستے اندرون سندھ، ڈیرہ بگٹی اور مشرقی بلوچستان کی طرف چلے جاتے تھے“
انہوں نے بتایا کہ میرے اندازے کے مطابق کوچیوں پر زیادہ موثر کام برٹش راج میں ہوا ہے۔ کیونکہ انگریز چاہتے تھے کہ ان لوگوں کو ٹیکس کے دائرے میں لائیں، لیکن اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مورخ اور لکھاری ہیں، جنہوں نے خانہ بدوشوں پر کام کیا ہے۔ جن میں مصنف جمیل احمد کی کتاب ’دا وانڈرنگ فالکنز‘ ہے، اس کتاب میں مصنف نے خانہ بدوشوں کے رہن سہن اور بودوباش کے بارے میں معلومات شائع کی ہیں۔
پروفیسر میرحسن کے مطابق خانہ بدوشوں، جنہیں پشتو میں کوچی یا پاوندہ بھی کہا جاتا ہے، کے ذریعہ معاش کا انحصار زیادہ ترمال مویشیوں پر ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ چھوٹا موٹا کاروبار بھی کرتے تھے۔ مثلاً یہ لوگ افغانستان سے خشک میوہ جات، کرت، دیسی گھی، جڑی بوٹیاں، ہنج وغیرہ لاکر پنجاب میں بیچ دیتے تھے، اور اس طرف سے یہ لوگ مختلف اوزار، گڑ، شکر، اجناس، مٹھائیاں، چپل یا کراکری سامان افغانستان کے مختلف علاقوں میں بیچتے تھے
بلوچستان کو جنوبی وزیرستان سے ملانے والی شاہراہ پر کلی دیرہ گئی کے ساتھ چراگاہ پر خیمہ زن پچپن سالہ کوچی نیک محمد کا تعلق سلیمان زئی قبیلے سے ہے، ان کے مطابق ان کا سارا سرمایہ اور جائیداد صرف ان کے مویشی ہیں۔ اسی لیے کوچی افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک مشکل، پُرخطر اور تھکا دینے والا سفر کرتے ہیں
وہ کہتے ہیں ”خدا جانے کب تک سفر کی زندگی ہمارا مقدر ہوگی“
نیک محمد نے بتایا ”افغانستان سے پاکستان واپس آتے ہوئے ہمیں بارڈر پر روکا گیا، لیکن ہم دوسرے راستے سے سرحد پار کرکے یہاں پہنچے۔ ہمیں انجان راستوں میں رات کو سفر کرتے ہوئے مشکلات پیش آئیں۔ تھکاوٹ، پیاس، بد خوابی تھی اور ہمارے بچے بھوک اور پیاس کی وجہ سے رو رہے تھے۔ اب ہمارا آگے جانے کا ارادہ ہے۔ موسیٰ خیل (بلوچستان) میں قیام کریں گے، اس کے بعد تونسہ شریف پنجاب جائیں گے۔ ہمارا واپس جانا ممکن نہیں تھا۔ کیونکہ ہمارے کمزور اور لاغر مویشی واپس جانے اور مزید سفر کرنے کے قابل نہ تھے۔“
اپنے طویل اور کٹھن پیدل سفر کے بارے میں نیک محمد نے بتایا کہ وہ افغانستان سے قمردین اور سروندئی کے راستے پاکستان آتے ہیں. ”سروندئی کا ایک راستہ ورسک آتا ہے۔ ایک راستہ منزراغہ کی طرف آتا ہے۔ خوست سے لوگ پشاور کی طرف سرحد پار کرتے ہیں۔ مقر اور ناوے کے علاقوں کے لوگ توبہ کاکڑی اور سورجنگل کے راستے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔“
انہی خانہ بدوشوں میں دوتانی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ساٹھ سالہ غلام خان بھی ہیں، جنہوں نے اپنا بچپن اور جوانی دو ہمسایہ ممالک کے درمیان سفر کرتے ہوئے گزاری اور اب اپنے خاندان اور دیگر کوچی رشتہ داروں کے ہمراہ افغانستان کے علاقے شرن سے وانا وزیرستان روڈ پر کلی حضرت صاحب کے قریب پہنچے ہیں۔ وہ آگے میانوالی جانے کے لیے پر تول رہے ہیں
انہوں نے بتایا کہ وہ افغانستان سے انگور اڈہ (وانا، جنوبی وزیرستان سے متصل سرحدی علاقہ) پہنچے، لیکن انہیں پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی
غلام خان نے مزید بتایا کہ ان کی پیدائش سفر میں ہوئی۔ ان کے مطابق پہلے بہت آزادی تھی، کوچی ورسک، انگور اڈہ یا انزرہ کے راستے پاکستان آتے تھے، لیکن اب انہیں سرحد پر روکا جاتا ہے۔ ’ہمارے آدھے مویشی راستے میں مر گئے، بعض مویشی تو چلنے کے قابل نہیں رہے۔‘
ایک کالے خیمے (کیژدئی) میں اپنی تھکان دور کرنے کے لیے سبز چائے سے لطف اندوز ہونے والے گلبت دوتانی نے بتایا کہ وہ گذشتہ بہار کے موسم میں افغانستان گئے، لیکن اب واپسی پر پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ ’ہمارے مرد خواتین دونوں کے پاس قومی شناختی کارڈز موجود ہیں۔ ہم نے اپنے شناختی کارڈ جمع کرکے ورسک میں ایف سی کے صوبیدار کو دکھائے، پھر ہمیں بتایا گیا کہ آپ کو سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں۔ ہمارے ٹریکٹر ٹرالیوں کو انگوراڈہ میں اجازت مل گئی، تاہم لوگوں اور مویشیوں کو سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اب ہم انجان راستوں سے یہاں پہنچے ہیں، ہمارے بیمار اور کمزور جانور پیچھے رہ گئے۔ ہمیں بہت زیادہ مشکلات درپیش ہیں، حکومت کیوں ہمیں سرحد پار کرنے اور پاکستان آنے کی اجازت نہیں دے رہی؟ ہم آخر کہاں جائیں اور کیا کریں؟‘
ان کا کہنا تھا: ’میرے پاس چھ سو مویشی ہیں، میں پاکستان میں انہیں کہاں چراؤں؟ میرے پاس یا تو اپنے مویشی کم قیمت پر بیچنے یا پھر افغانستان مستقل طور پر جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں۔ اپنے علاقے میں ایک ماہ سے زائد عرصہ گزارنے کی گنجائش موجود نہیں۔ ہم مجبور ہیں، اپنے مویشیوں کو افغانستان لے جائیں۔ دیار غیر میں لوگ ہمیں جگہ تو نہیں دیتے، سلیمان خیل، مندوخیل، دوتانی اور وزیر قبائل کے اپنے اپنے علاقے ہیں۔ دوسروں کو اپنی زمینوں پر رہنے نہیں دیتے۔‘
گلبت کے مطابق وہ خزان کے موسم میں پاکستان آتے ہیں، توئی، ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، کلاچی اور دیگر گرم علاقوں میں رہتے ہیں اور بہار میں واپس افغانستان جاتے ہیں۔ ’وہاں پہاڑوں میں رہتے ہیں، وہاں کوئی ظلم نہیں کرتا، ہماری زندگی سکون سے گزرتی ہے۔‘
افغانستان کے علاقے ارگن سے آنے والے کوچی حیات خان پوچھتے ہیں: ’ہمارے سامنے سرحد مکمل طور پر کیوں بند کردی گئی ہے؟ وجہ کیا ہے؟ ہم پاکستانی ہیں، ہمارے پاس شناختی کارڈز بھی پاکستان کا ہے، اور ہماری سرزمین بھی پاکستان کی ہے۔ ہمیں سرحد پار کرتے ہوئے مارا پیٹا گیا ہے، ہمارا پاکستان سے سخت شکوہ ہے۔ ضعیف العمر افراد کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ہماری زندگی برباد ہوگئی۔‘
’ساری زندگی سفر ہمارا مقدر ہے۔ ہمارا قدیمی اور اصلی راستہ ورسک کا ہے۔ لیکن ورسک پر مکمل طور پر ہمارا رستہ روکا گیا۔ پھر ہم ایک کٹھن راستے سے ہوتے ہوئے مندوخیل کے علاقے میں بلوچستان پہنچ گئے۔ اب ان پہاڑی دروں سے ہوتے ہوئے اپنے سفر کو جاری کیے ہوئے ہیں۔ ہم بھوکے پیاسے سفر کررہے ہیں، ہمارے پاس غلہ، چائے اور دیگر اشیائے خورونوش موجود نہیں، ہمارے مویشی راستے میں یا تو ہلاک ہوگئے یا پھر چلنے کے قابل نہیں رہے۔ سنسان پہاڑوں میں نہ تو پانی موجود تھا اور نہ ہی گھاس۔ انجان راستے میں ہم دائیں بائیں سفر کرتے رہے۔ اب آگے توئی خولہ، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان جائیں گے۔ حکومت کی طرف سے ہماری کوئی مدد نہیں کی گئی، بلکہ مشکلات پیدا کی گئیں۔‘
وانا، جنوبی وزیرستان سے متصل علاقے توئی خولہ سے تعلق رکھنے والا کوچی اکبر بھی نہ صرف حکومت بلکہ اپنے قبیلے کے سربراہ (ملک) سے شکوہ کناں ہیں۔ ان کے مطابق حکومت اور ملک دونوں کی جانب سے ان پر ظلم ہو رہا ہے۔ شناختی کارڈ ہونے کے باوجود بھی ان کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے اور راستے میں تنگ کیا جاتا ہے۔ ان کے پاس تو مویشیوں کے سوا کچھ نہیں
’ہم کوچی لوگ سردیوں میں بھکر، ڈیرہ اسماعیل خان جبکہ گرمیوں میں افغانستان جاتے ہیں۔ کبھی سرحد پار کرتے ہیں، تو کبھی سرحد کے اس پار ہوتے ہیں۔ ہم تو توئی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، صرف مالداری کی وجہ سے مختلف علاقوں میں جاتے رہتے ہیں۔ سرحد پر ہمیں بتایا جاتا ہے، کہ آپ کو اجازت نہیں۔ ہم پاکستانی ہیں، ہمارے مرد و زن کے پاس قومی شناختی کارڈز موجود ہیں۔‘
اپنے مستقبل کے بارے میں فکرمند باریش غلام نے بتایا کہ اگر انہیں پاکستان افغان سرحد پر آنے جانے کی اجازت نہیں ملتی، تو وہ مجبور ہیں کہ یہاں پاکستان ہی میں سردی کا موسم بھی گزاریں، خواہ ان کے بقول ان کے بچے، خواتین یا مویشی ہی کیوں نہ مر جائیں۔ کیونکہ وہ سرحد پر فورسز کے ساتھ تصادم نہیں کرسکتے
بدقسمتی یہ ہے کہ افغان خانہ بدوشوں کی پاکستان میں آمد، سرحد پار کرنے یا داخل ہونے کے حوالے سے کوئی واضح حکومتی پالیسی موجود نہیں.