قصہ انگریزوں کی جانب سے مری 1940 روپے میں خریدنے کا

ویب ڈیسک

اسلام آباد – شدید برفبانی طوفان اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے افسوسناک واقعات کی وجہ سے ملکہ کوہسار کہلانے والا پرفضا مقام مری پچھلے ہفتے میڈیا کا موضوع بنا رہا

مری کی تاریخ کے حوالے سے مختلف روایات موجود ہیں، جن میں سے اکثر بہت دلچسپ معلوم ہوتی ہیں

کیا مری کی وجہ تسمیہ حضرت مریم ہیں؟ مری کو مری کیوں کہتے ہیں، اس بارے میں مختلف روایتیں مشہور ہیں

مسعود الحسن نے اپنی تصنیف ’مری گائیڈ‘ میں لکھا ہے کہ ’مری‘ ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی چراگاہ کے ہیں۔ ترک جب فاتح بن کر ہندوستان میں آئے تو ہزارہ اور مری کی پہاڑیاں ان کی اقامت گاہ قرار پائیں۔ (ترکی لغت کے مطابق مری تو نہیں، البتہ لفظ ’میرا‘ ترکی میں چراگاہ یا گھاس کے میدان کو کہتے ہیں۔)

ایک اور روایت، جسے لطیف کاشمیری نے اپنی کتاب ’خیابان مری‘ مطبوعہ 1971ع میں لکھا ہے، کے مطابق مری میں جہاں آج پنڈی پوائنٹ ہے، کبھی اس جگہ ایک بزرگ عورت کی مڑھی ہوا کرتی تھی جس کی وجہ سے اس کا نام پہلے ’مڑھی‘ پڑا جو بدلتے بدلتے مری ہو گیا

ایک اور محقق خواجہ نذیر احمد نے تو اپنی تصنیف ’جیسس آن ارتھ اینڈ ہیون‘ میں یہاں تک قیاس کر دیا ہے کہ وہ بزرگ خاتون جو صدیوں سے یہاں محوِ خواب ہیں، وہ حضرت مریم علیہ السلام ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تلاش میں کشمیر جا رہی تھیں، کہ مری کے مقام پر فوت ہو گئیں!

دوسری جانب ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ پانڈو اپنے ایام جلاوطنی میں جب کشمیر سے واپس آ رہے تھے، تو وہ مری میں بھی ٹھہرے تھے اور جس جگہ وہ ٹھہرے تھے وہ جگہ پنج پانڈو کے نام سے کشمیر پوائنٹ کی پہاڑی پر آج بھی واقع ہے۔ یہاں تقسیم سے پہلے اکتوبر کے مہینے میں ہندوؤں کا سالانہ میلہ بھی م لگتا تھا، جس میں دور دراز سے ہندو اور سکھ بڑی تعداد میں شریک ہوتے تھے

مری میں تقسیم سے پہلے دو گوردوارے، دو مندر اور چار چرچ بھی ہوا کرتے تھے۔ اس سے بہت پہلے یہ جوگیوں کا مسکن بھی رہا۔ پتریاٹہ کے قریب قدیم زمانے کی تراشیدہ چٹانیں اب بھی موجود ہیں، جن کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ بدھ مت کے عروج کے دور کی ہیں۔ سانجا کس کے مقام پر ایسی ہی ایک چٹان کو مقامی لوگ ’رام دیو کی چٹان‘ کہتے ہیں

1870 کے زمانے کا مری

روایات کے مطابق مری کی قدیم تاریخ کشمیر سے جڑی ہوئی ہے۔ پھر ایک ہزار سال پہلے جب ترک النسل گکھڑ سلطان کائی گوہر پوٹھوہار میں مقیم ہوا، تو اس نے مری کا علاقہ فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا، جس کی اس وقت سرحدیں دریائے سندھ سے دریائے جہلم تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اس وقت مری میں گھنے جنگلات تھے جن میں خونخوار جانوروں کی بہتات تھی، اس لیے یہاں آبادی بھی نہ ہونے کے برابر تھی

مغلوں کے زمانے اس کی حیثیت نیم خودمختار علاقے کی رہی۔ سکھوں کے عہد میں سردار ملکھا سنگھ تھئے پوریہ نے سترہویں صدی کے اواخر میں راولپنڈی کو گکھڑوں سے چھین لیا اور یوں عملاً یہاں ملکھا سنگھ کی حکومت قائم ہوئی، لیکن عملی طور پر مری، مانسہرہ اور ہری پور کے قبائل خودمختار ہی رہے

جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے راولپنڈی کو 1820ع میں اپنی عملداری میں لیا، تو اس کے جرنیل ہری سنگھ نے مری اور مانسہرہ کے قبائل پر دس سال میں دو بار لشکر کشی کی، کیونکہ وہ اس کے لیے مشکلات کا باعث بنتے تھے

بعد ازاں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے یہ علاقہ مظفر آباد کے سکھ گورنر گلاب سنگھ کو دے دیا، جس نے مقامی قبائل پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے ہر باغی کے سر کے بدلے اپنے فوجیوں کو ایک روپے انعام کا اعلان کیا

1839ع میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے مرنے کے بعد مقامی قبائل نے سکھ حکومت کے خلاف بغاوت کر دی. اس بغاوت کو کچلنے کے لیے لاہور سے فوج روانہ کی گئی

پنڈی پوائنٹ پر سکھوں کے عہد کا ایک قلعہ ہوا کرتا تھا، جو 1968ع تک موجود رہا۔ بعد میں اسے مسمار کر دیا گیا، وہاں اب پی ٹی وی کا براڈ کاسٹنگ ٹاور موجود ہے

انگریزوں اور سکھوں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ نو مارچ 1846ع کو لاہور میں ہوا، جس کے تحت انگریزوں کے خلاف جنگ کی پاداش میں کشمیر اور ہزارہ کے علاقے ایک کروڑ روپے کے عوض گروی رکھ دیے گئے، لیکن 16مارچ 1846ع کو انگریزوں اور کشمیر کے مہاراجہ گلاب سنگھ کے درمیان ”معاہدہ امرتسر“ طے پایا، جس کی رو سے انگریزوں نے دریائے راوی اور سندھ کے درمیان کشمیر اور ہزارہ کے علاقے مہاراجہ کو پچھتر لاکھ روپے کے عوض پٹے پر دے دیے

کشمیر اور ہزارہ کے قبائل نے اس فیصلے کے خلاف مزاحمت کی، جس کے جواب میں مہاراجہ نے انگریزوں کو ہزارہ کا علاقہ دے دیا اور اس کے بدلے جموں کا لے لیا

انگریزوں نے 1850ع میں ہزارہ کے تین سو نو دیہات انتظامی سہولت کے لیے راولپنڈی کے ضلع میں شامل کر دیے، جن میں مری، پھلگراں، کری، مغل، چراہاں، دیول، کوٹلی، کرور، جسگام، کہوٹہ، کایرو، ہرو، کرال وغیرہ شامل تھے

لیکن جب 1901ع میں شمال مغربی سرحدی صوبہ بنایا گیا تو ڈھنڈ بکوٹ، بوئی، کرال اور لورا کو راولپنڈی ضلع کے بجائے ہزارہ میں شامل کر دیا گیا

ایک مقامی روایت ہے کہ انگریزوں نے مری کا ہل سٹیشن راجگان سے اُنیس سو چالیس روپے کے عوض خریدا اور جو انگریز یہ خریداری کرنے آیا تھا، اسے مقامی راجہ نے اس رقم میں سے دس روپے یہ کہہ کر واپس کر دیے کہ ”تمہاری بیگم کے کپڑے پورے نہیں، اسے کپڑے خرید دینا۔“ وہ انگریز عورت اس وقت اسکرٹ پہنے ہوئے تھی

مری کا ہل اسٹیشن راولپنڈی سے انتالیس میل کے فاصلے پر واقع تھا، جسے اس وقت انگریزوں نے اپنی فوج اور انتظامیہ کے گرمائی کیمپ کے طور پر ترقی دی تھی۔ مری کے علاوہ اس دور میں ہمالیہ کے دامن میں واقع شملہ، مزوری اور نینی تال کو اسی پس منظر میں ترقی دی گئی تھی۔ مری میں سرکاری دفاتر سنی بینک کے علاقے میں 1853ع میں بنائے گئے۔ 1857ع میں یہاں چرچ بنایا گیا، مال روڈ بھی 1860ع میں بنایا گیا، جس پر ان دنوں صرف انگریز خاندان ہی چہل قدمی کر سکتے تھے

اس زمانے میں مال روڈ کے صرف ایک طرف عمارات بنانے کی اجازت دی گئی، تاکہ سیاح قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو سکیں۔ اس ضابطے پر اگلے ایک سو تیس سال سختی سے عمل کیا گیا، لیکن 1990ع کے بعد اس سڑک کے دونوں اطراف عمارتیں بنانے کی اجازت دے دی گئی۔ چرچ کے بلمقابل پوسٹ آفس اور انگریزوں کی ضروریات زندگی کی اشیا کے لیے مارکیٹ بھی بنائی گئی

کہتے ہیں کہ 1857ع کی جنگِ آزادی، جسے انگریز بغاوت کا نام دیتے ہیں، اس میں مری اور ہزارہ کے لوگوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مری میں موجود انگریز فوجوں پر حملے جاری رکھے، جو 1875ع تک جاری رہے

مری 1864ع تک پنجاب کا گرمائی دارالحکومت بھی رہا، اس کے بعد یہ شملہ منتقل کر دیا گیا، جس کی وجہ یہاں پانی کی کمی تھی۔ مقامی لوگ جوہڑوں اور چشموں کا پانی استعمال کرتے تھے۔ اس سے اکثر ہیضے کی وبا پھوٹ پڑتی تھی، جس کی وجہ سے کافی ہلاکتیں ہوتی تھیں۔ انگریزوں نے ڈونگہ گلی سے ایوبیہ تک ساڑھے چار کلومیٹر پائپ لائن بچھا کر یہاں پانی پہنچانے کا بندوبست کیا

1867ع میں مری کو میونسپلٹی کا درجہ ملا۔ بیسویں صدی کے اوائل میں انگریزوں نے مری اور اس کے گرد و نواح جن میں کلڈنہ، گھڑیال، اپر اور لوئر ٹوپہ، نتھیا گلی میں بیرین اور کالا باغ کے مقام پر فوجی تنصیبات قائم کیں، جس کے بعد مری کو ناردرن کمانڈ کے گرمائی مرکز کی حیثیت ملی۔ اسی دور میں مری میں انگریز بچوں کے لیے کئی اسکول قائم کیے گئے جن میں لارنس کالج بھی شامل ہے

اس دور میں مری میں فوج کی بیرکوں سمیت انگریز افسروں کے لیے جو گھر بنائے گئے تھے، وہ وکٹورین طرز کے تھے، اس لیے اسے ’منی انگلینڈ‘ بھی کہا جاتا تھا۔ گرمیوں میں مری میں انگریزوں کے علاوہ پنجاب سے آنے والے سیاحوں کا بھی ہجوم لگ جاتا تھا۔ اس کے علاوہ جو یورپی سیاح سری نگر جاتے تھے، وہ بھی مری میں ضرور قیام کرتے تھے۔ انگریز دور میں مری تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بھی بنا، لیکن زیادہ لاگت کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا

مری 1940 میں بھی خاصا مصروف سیاحتی مرکز تھا

راولپنڈی کے گزیٹیئر 94-1893ع کے مطابق ”مری سطح سمندر سے 7517 فٹ کی بلندی پر واقع ہے، جس کی آبادی 1768 افراد پر مشتمل ہے، جس میں مئی سے نومبر تک سیاحوں کی وجہ سے خاصا اضافہ ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ پنجاب میں سب سے قریب ترین پہاڑی مقام ہے، جو راولپنڈی سے تانگوں کے ذریعے پانچ گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ یہاں گرمیوں میں دس ہزار کے قریب سیاح آتے ہیں۔“

آج لوگ اسلام آباد سے پونے گھنٹے میں مری پہنچ جاتے ہیں مگر کبھی یہ فاصلہ تانگوں کے ذریعے طے ہوتا تھا۔ لطیف کشمیری اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں کہ ’پہلی جنگ عظیم سے پہلے انگریز سپاہی بھی مری پیدل ہی آیا کرتے تھے یا بیل گاڑیاں استعمال کرتے تھے۔ کچھ لوگ تانگوں پر آتے تھے اور راولپنڈی سے ایک پارسی سیٹھ دھنجی بائی کی تانگہ سروس چلتی تھی، ڈاک کا ٹھیکہ بھی اسی کے پاس تھا۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close