اسلام آباد – پاکستان میں ان دنوں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر صدارتی نظام نافذ کرنے سے متعلق بحث جاری ہے۔ جبکہ کئی روز سے اس بارے میں کی جانے والی ٹویٹس میں صارفین مختلف آرا پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ پاکستان میں صدارتی نظام لاگو کرنا آئینی طور پر ممکن نہیں
صدارتی نظام لاگو کرنے کے سب زیادہ حامی بظاہر حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ جبکہ وفاق میں اپوزیشن کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’اگر صدارتی نظام لاگو کرنے کی کوشش کی گئی، تو پاکستان ٹوٹ جائے گا۔‘
صدارتی نظام کی حمایت کرتے متعدد صارفین کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کو مافیاز مسائل حل نہیں کرنے دے رہے۔ اس لیے انہیں صدارتی نظام لاگو کر کے صدر بنانے کی حمایت کی جا رہی ہے
اس رائے کی مخالفت بھی جاری ہے اور بیشتر صارفین کی رائے ہے کہ جو جماعت حکومت ملنے کے باوجود بہتر کارکردگی نہیں دکھا سکی، وہ صدارتی نظام میں بھی کچھ نہیں کر سکتی اور حکومتی جماعت کے حمایتی سرکار کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے صدارتی نظام کا مطالبہ کر رہے ہیں
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نظام کوئی بھی ہو لیڈر اور ادارے وہی ہوں گے تو مثالی کارکردگی کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار فہد حسین کے مطابق صدارتی نظام کے بارے میں جاری بحث فی الحال بے معنی ہے۔ وہ اس لیے کہ حکمران جماعت کے حمایتیوں کی جانب سے اس لیے یہ باتیں کی جارہی ہیں کہ ان کی حکومت نے عوام کو مایوس کیا ہے تو یہ اس پر پردہ ڈالنے کی ایک ناکام کوشش ضرور ہو سکتی ہے
فہد حسین کا کہنا تھا کہ ’صدارتی نظام نافذ کرنا کسی فرد واحد یا ادارے کے بس میں نہیں۔ بلکہ اس کے لیے پارلیمنٹ سے دو تہائی اکثریت کی حمایت لازمی ہے اور میں نہیں سمجھتا اس وقت اپوزیشن یا حکومتی اتحاد کی اکثریت صدارتی نظام لاگو کرنے کی حمایتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ بعض افراد کی رائے ضرور ہوسکتی ہے۔ لیکن زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس معاملہ میں سنجیدگی کا کوئی پہلو دکھائی نہیں دے رہا۔ دوسری بات یہ کہ فرض کریں صدارتی نظام لاگو کرنے کی کوشش ہوتی بھی ہے، تو لیڈر تو وہی ہیں، جن میں سے کسی ایک کو صدر بننا ہے تو جو اس پارلیمانی نظام میں کارکردگی نہیں دکھا سکے، وہ صدر بن کر کیا انقلاب لے آئیں گے؟‘
تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعی نے بھی صدارتی نظام کی بحث کو بلا جواز قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق جب تک عدلیہ اور انتظامی ادارے اور پارلیمنٹ میں موجود لوگ، ووٹرز اور لیڈرز وہی ہوں گے تو بہتری ممکن نہیں ہے
انہوں نے کہا کہ ’گھوم پھر کر وہی چالیس یا پچاس لوگ قومی دھارے میں سیاسی منظر نامے پر چھائے نظر آئیں گے۔ علاقائی سیاست میں جو طاقتور ہوتا ہے وہی رکن اسمبلی بنتا ہے۔ مقامی طاقت کے زور پر پارٹیوں کو بلیک میل کر کے ٹکٹ لینے والوں سے ہی پارلیمنٹ ہر بار بھری ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کرپٹ اور بدمعاشی سے کامیاب ہونے والے مسائل کیسے حل ہونے دیں گے؟ یہی صورتحال اداروں کی ہے۔‘
امجد شعیب کے بقول: ’اگر صدراتی نظام پارلیمنٹ سے دو تہائی اکثریت سے لاگو کرنے کی منظوری ہو بھی جائے تو لوگ تو وہی ہوں گے۔ باہر سے تو کسی کو لاکر صدر نہیں بنایا جاسکتا اور ادارے بھی وہی رہیں گے جو وزیر اعظم بن کر مسائل حل نہیں کر سکے وہ صدر بن کر کیسے تبدیل ہوسکتے ہیں؟‘
انہوں نے کہا کہ کہ ’پورے کا پورا نظام نیچے سے اوپر تک غیر موثر ہے۔ پہلے ایوانوں میں اداروں میں ایماندار اور اہل لوگ لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لوگ ذاتی مفاد سے بالا تر ہوکر نمائندے منتخب کریں گے تو ہی کسی حد تک مرحلہ وار مسائل حل ہوسکتے ہیں۔‘
صدارتی نظام لاگو کرنے کے مطالبے کے بارے میں فہد حسین کہتے ہیں کہ ’لوگوں کو رائے دینے کا حق ضرور حاصل ہے۔ لیکن لازمی نہیں کہ بعض لوگوں کے مطالبہ سے مسائل بھی حل ہوسکیں۔ جہاں تک صدارتی نظام کے مطالبہ کی بات ہے تو حکمران جماعت کے حامیوں کی خواہش ہے کہ شاید ان کے لیڈر کو زیادہ اختیار ملنے سے مسائل حل ہو جائیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’موجودہ نظام میں بہتری کی گنجائش ضرور موجود ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ نظام مکمل ناکام ہوچکا ہے۔ سیاسی رائے یا بیان بازی اپنی جگہ لیکن اگر قابلیت ہو تو موجودہ نظام کو بہتر کر کے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔‘
فہد حسین کے مطابق ایسی باتیں اس لیے کی جا رہی ہیں کہ اپنے پارٹی لیڈر کی خامیوں پر پردہ ڈالا جائے۔ تاکہ یہ رائے قائم ہو کہ لیڈر ٹھیک ہے باقی سب بہتری میں روکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور انہیں ڈیلیور کرنے نہیں دیا جا رہا
امجد شعیب کی رائے میں پہلے بھی با اختیار صدور رہے ہیں لیکن نظام تو ایسے ہی رہا۔ فرض کریں عمران خان کو صدر بنا بھی دیا جائے تو کیا ضمانت ہے کہ وہ بہتری لانے میں کامیاب ہوں گے اور کیا وہ ہمیشہ رہیں گے؟
ان کے مطابق بہتری لانا کسی فرد واحد کے بس میں نہیں ہوتا۔ سب سے پہلے اداروں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے پھر پارٹیوں میں موروثی کی بجائے جمہوری روایات لازمی ہیں۔ اہلیت کا پیمانہ مقبولیت نہیں بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر ہونا چاہیے
انہوں نے کہا کہ ’ملک میں ایک مکمل جمہوری پارلیمانی نظام موجود ہے۔ سب سے پہلے تو اس میں بہتری ناگزیر ہے۔ نظام بدلنے سے لوگ نہیں بدلتے بلکہ لوگوں کے بدلنے سے نظام بدلتا ہے اور اس کے لیے عہدوں کی نہیں نیت اور جذبے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔‘