ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے بنائی گئی جعلی وڈیوز نے سوشل میڈیا کو غیر معتبر کیسے بنایا؟

ویب ڈیسک

کراچی – ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بیشتر افراد یہ معلوم ہونے کے باوجود، کہ ان کو دکھائے جانے والے مواد کو ڈجیٹل طور پر تبدیل کیا گیا ہے، یہ بتانے سے قاصر رہے کہ وہ ’ڈیپ فیک‘ وڈیو دیکھ رہے ہیں

واضح رہے کہ ’ڈیپ فیک‘ کی اصطلاح ایسی وڈیوز کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جن میں کمپیوٹر پر سافٹ ویئزز اور ڈیپ لرننگ (کمپیوٹر کو سیکھانے کے لیے استعمال ہونے والے الگورتھم) کے ذریعے کسی شخص کے چہرے سے وہ کہلوایا جاتا ہے، جو اس نے نہیں کہا ہوتا

قابل ذکر مثالوں میں رچرڈ نکسن کے اپالو 11 کا صدارتی خطاب اور سابق امریکی صدر باراک اوباما کی وہ وڈیو شامل ہے، جس میں انہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی توہین کرتے دکھایا گیا ہے

چند محققین کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کا غیر قانونی استعمال اسے مستقبل میں خطرناک ترین جرم بنا سکتا ہے

اس ضمن میں آکسفورڈ یونیورسٹی، براؤن یونیورسٹی اور رائل سوسائٹی کے محققین نے پہلے تجربے میں شریک رضاکاروں کے ایک گروپ کو پانچ غیر تبدیل شدہ وڈیوز دکھائیں، جب کہ دوسرے گروپ نے چار غیر تبدیل شدہ وڈیوز اور ایک ڈیپ فیک وڈیو دیکھی

ناظرین سے کہا گیا کہ وہ شناخت کریں کہ ان میں سے کون سی وڈیو جعلی یا جھوٹ ہے

محققین نے وی ایف ایکس (ویژول ایفیکٹس) آرٹسٹ کرس اوم کی بنائی ہوئی ٹام کروز کی وڈیوز کا استعمال کیا، جس میں امریکی اداکار کو جادو کے کرتب دکھاتے اور ٹک ٹاک پر اپ لوڈ کی گئی وڈیوز میں روسی سیاست دان میخائل گورباچوف کے بارے میں لطیفے سناتے ہوئے دکھایا گیا تھا

جن شرکا کو پہلے سے متنبہ کردیا گیا تھا، ان میں سے بیس فیصد نے ڈیپ فیک وڈیو کی شناخت کرلی، جبکہ جن لوگوں کو نہیں بتایا گیا تھا ان میں سے دس فیصد لوگ پہچان سکے

لیکن حیرت انگیز طور پر براہ راست وارننگ کے باوجود بھی 78 فیصد سے زیادہ لوگ ڈیپ فیک اور مستند مواد میں فرق کرنے سے قاصر رہے

محققین نے تحقیق کے اجرا سے قبل مقالے میں لکھا ”کسی ایسے کنٹرولڈ گروپ کے مقابلے میں جو صرف مستند وڈیوز دیکھتے ہیں، عام مواد دیکھنے والے افراد کے سامنے جب ڈیپ فیک وڈیوز آتی ہیں، تو ان میں کسی چیز کو نوٹس نہیں کر پاتے ہیں۔“

توقع ہے کہ چند مہینوں میں یہ مقالہ شائع ہو جائے گا اور ماہرین اس کا جائزہ پیش کریں گے

شرکا کی ٹام کروز سے واقفیت، جنس، سوشل میڈیا کے استعمال کا معیار یا تبدیل شدہ وڈیو کا پتہ لگانے کے اہل ہونے پر ان کے اعتماد کے باوجود ان سب نے ایک جیسی غلطیوں کا ارتکاب کیا

محققین کو معلوم ہوا کہ ڈیپ فیک کا پتہ لگانے کی صلاحیت کا تعلق عمر سے ہے۔ محققین نے معلوم ہوا کہ بڑی عمر کے شرکا ڈیپ فیک کی شناخت کرنے میں بہتر طور پر اہل ہوتے ہیں

محققین نے پیش گوئی کی ہے کہ عام طریقے (آنکھ سے) جعلی وڈیوز سے اصلی وڈیو کا پتہ لگانے میں دشواری ’وڈیو میڈیا کی معلومات کی قدر کو کم کرنے میں خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔‘

مکالمے میں لکھا ہے کہ ’چوں کہ لوگ ڈیپ فیک کی دھوکہ دہی سے اس قدر متاثر ہو جاتے ہیں کہ وہ عقلی طور پر تمام آن لائن وڈیوز بشمول مستند مواد پر اعتماد کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔‘

اگر یہ مستقبل میں جاری رہا تو لوگوں کو سوشل میڈیا پر وارننگ لیبلز اور مواد کی ماڈریشن پر انحصار کرنا پڑے گا تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ پلیٹ فارمز پر گمراہ کن وڈیوز اور دیگر غلط معلومات معمول نہ بن جائیں

مقالے میں کہا گیا کہ ٹوئٹر، فیسبک اور دیگر پلیٹ فارمز معمول کے مطابق اپنے ماڈریٹرز کے لیے باقاعدہ صارفین کی جانب سے مواد کو فلیگ کرنے پر انحصار کرتے ہیں

یہ ایک ایسا کام ہے جو مشکل ثابت ہو سکتا ہے اگر لوگ غلط معلومات اور مستند مواد کو الگ کرنے سے قاصر ہو جائیں

خاص طور پر فیسبک کو ماضی میں بارہا اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، کیوں کہ پلیٹ فارم اپنے مواد کے ماڈریٹرز کی خاطر خواہ حمایت نہ کرنے اور غلط مواد کو ہٹانے میں ناکام رہا

نیویارک یونیورسٹی اور فرانس کی Université Grenoble Alpes میں کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگست 2020 سے جنوری 2021 تک غلط معلومات پھیلانے والوں کے مواد کو درست خبروں کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ لائکس، شیئرز اور انٹرایکشنز ملے

فیسبک نے دعویٰ کیا ہے کہ اس طرح کی تحقیق پوری تصویر نہیں دکھا پاتی کیوں کہ پیجز کو ملنے والی انگیجمنٹس سے یہ ابہام نہیں لینا چاہیے کہ لوگوں نے انہیں فیسبک پر ہی دیکھا ہے

محققین نے یہ خدشات بھی ظاہر کیے ہیں کہ ’اس طرح کی وارننگز کو سیاسی طور پر حوصلہ افزا یا متعصبانہ قرار دیا جا سکتا ہے، جیسا کہ کرونا ویکسین کے بارے میں سازشی نظریات یا سابق صدر ٹرمپ کے ٹویٹس پر ٹویٹر کے لیبلنگ سے ظاہر ہوتا ہے

صدر اوباما کی جانب سے اس وقت کے صدر ٹرمپ کو نامعقول شخص قرار دینے کے بارے میں ڈیپ فیک وڈیو کو 2020ع کے مطالعے میں 15 فیصد لوگوں نے درست سمجھ لیا تھا، حالانکہ یہ مواد خود انتہائی مشکوک تھا

محققین نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ آن لائن معلومات پر زیادہ عام عدم اعتماد ڈیپ فیک اور مواد کی وارننگ دونوں کا ممکنہ نتیجہ ہو سکتا ہے اور پالیسی سازوں کو آن لائن مواد کو ماڈریٹ کرنے کے نقصان اور فوائد کا اندازہ لگاتے وقت اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close