وزیرستان – پولیس کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان کے علاقے اعظم ورسک میں رواں ہفتے ایک نوجوان کو بھتیجے سمیت مخالفین نے ”غگ رواج“ کے نتیجے میں اس وقت قتل کر دیا، جب وہ گھر سے باہر نکل رہے تھے
واضح رہے کہ غگ ایک ایسا رواج ہے جس میں ایک مرد اسلحہ لے کر متعلقہ خاتون کے دروازے پر جاکر فائرنگ کرکے اس کے حوالے سے ایک اعلان کرتا ہے، جس کے بعد اس لڑکی کو کوئی نہیں اپناتا اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایسی خواتین گھر بیٹھی رہ جاتی ہیں
تھانہ اعظم ورسک پولیس نے دہرے قتل کا مقدمہ درج کرلیا ہے، جس کے بعد ملزمان کی تلاش کی جاری ہے
تھانہ اعظمم ورسک سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پولیس معمول کے گشت پر تھی کہ انہیں موبائل فون پر دو افراد کو قتل کیے جانے کی اطلاع ملی
جب پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تو معلوم ہوا کہ مقتولین عمر خان اور یوسف خان تھے، جن کا تعلق غلام خیل قبیلے سے تھا
مقتولین کے ورثا نے وہاں زبانی طور پر پولیس کو چند افراد کے نام لے کر بتایا کہ دونوں کو انہوں نے قتل کیا ہے، تاہم ورثا نے قبائلی رواج کی وجہ سے اس واقعے کی رپورٹ یا پوسٹ مارٹم نہیں کروایا
پولیس کے مطابق چونکہ جرم قابل دست اندازی ہے، لہٰذا ملزمان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا
جنوبی وزیرستان کے ایک پولیس افسر کے مطابق، شکایت کنندہ خاندان کو چاہیے تھا کہ قانون ہاتھ میں لینے کے بجائے ملزم کو قانون کے حوالے کر دیتے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ملزم عمر کے ساتھ قتل ہونے والا ان کا بھتیجا یوسف بے قصور مارا گیا
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان موقع سے فرار ہوگئے ہیں، اور ابھی تک انہیں گرفتار نہیں کیا گیا ہے
واقعہ کے پس منظر کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ 2020 میں مقتول عمر خان کے خلاف اس وقت ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا ، جب انہوں نے وانا سب ڈویژن کے علاقے بومائی کی ایک سولہ سالہ لڑکی کے گھر جاکر دروازے کے باہر فائرنگ کر کے کہا کہ ’اس لڑکی پر میرا غگ ہے‘ اور وہ اس کی شادی کہیں اور نہیں ہونے دے گا اور اگر معاملہ اس کی مرضی کے برعکس ہوا تو وہ ’سب کو قتل کر دے گا۔‘
اس واقعے کے بعد لڑکی کے والد اپنی بیٹی کے ہمراہ تھانے گئے اور ایف آئی آر درج کرواتے ہوئے پولیس کو بتایا کہ ان کی بیٹی کا رشتہ پہلے ہی ان کے بھتیجے کے ساتھ طے ہو چکا ہے
انہوں نے ایف آئی آر میں یہ بھی لکھوایا کہ ان کی بیٹی اپنے چچازاد کے ساتھ رشتے پر خوش ہے اور وہ کسی طور پر عمر خان کے ساتھ شادی کے لیے تیار نہیں ہے
انہوں نے پولیس سے عمر خان پر اپنے مکان کے دروازے پر ڈرانے دھمکانے کی خاطر فائرنگ کرنے اور بیٹی پر رشتے کا غگ کرنے کے خلاف غگ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی
ایف آئی آر درج ہونے کے بعد پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا، جس نے جج کے سامنے اقبال جرم بھی کیا
دو سال جیل میں گزارنے کے بعد عمر کو ڈیرہ اسماعیل خان ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کر دیا۔ تاہم پولیس کے بقول، رہا ہونے کے بعد بھی عمر خان اپنی ضد پر قائم رہا اور لڑکی کے خاندان کو دھمکیاں دیتا رہا
2020 میں بھی بعض علاقہ مکینوں نے عمر خان کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے علاقے کے لوگوں سے عمر خان کے خلاف آواز اٹھانے کی اپیل کی تھی
اس معاملے پر ایس ایچ او ذبیح اللہ نے اپنے سوشل میڈیا پیغام میں لکھا تھا ”ہم اس طرح کی بدمعاشی یا زبردستی کی اجازت نہیں دیں گے۔ کان کھول کر سن لیں کہ کسی کو علاقہ اعظم ورسک میں حکومتی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں ہے۔“
قبائلی علاقوں میں عموماً لڑکیوں کی شادی زیادہ تر چھوٹی عمر میں ہی کردی جاتی ہے اور اگر کسی لڑکی کے ساتھ غگ جیسا معاملہ ہوجائے تو گھر کے بڑے اس کی جلد از جلد شادی کرنے کا بندوبست کرتے ہیں۔ پشتون معاشرے میں اگر کسی غیر شادی شدہ لڑکی کا کسی لڑکے کے ساتھ نام آجائے، تو اس کے لیے جہاں رشتے آنا بند ہوجاتے ہیں، وہیں ایسی لڑکی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا
یہاں یہ ذکر بھی بے مہل نہیں ہوگا کہ حال ہی میں ایک نجی ٹی وی چینل پر ڈراما ’سنگ ماہ‘ میں بھی اسی رواج پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تاہم پہلی دو اقساط میں ڈرامے کے مصنف مصطفیٰ آفریدی نے ناظرین کو کنفیوز رکھتے ہوئے تاحال ’غگ‘ اور ’محبت‘ کا فرق واضح نہیں کیا ہے
جہاں ایک جانب ایک لڑکے سبز علی کو غگ پر جرگے میں سزا سنائی جاتی ہے، وہیں اسی جرگے کے سربراہ (اداکار نعمان اعجاز) سزا کے خوف سے گھبرا جانے والے سبز علی کو ’بزدل عاشق‘ کا نام دیتے ہیں
غگ کے پیچھے اسباب چاہے محبت یا بدمعاشی ہو، بہرحال اس کو پشتون معاشرے میں بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ اب کافی ناپید ہوگیا ہے مگر پھر بھی یہ رواج کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی صورت آج بھی موجود ہے
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ 2013ع میں خیبر پختونخوا حکومت کی کوششوں سے غگ ایکٹ کا قانون بھی پاس کیا گیا تھا ، جس میں اس جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص کے لیے سات سال قید، پانچ لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں تجویز کی گئیں۔ مزید برآں اس قانون کے تحت پولیس کو اس طرح کے کیسز میں کسی وارنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ موقع پر ہی ایسے افراد کو گرفتار کرسکتی ہے
غیر سرکاری ادارے بلیو وینز سے تعلق رکھنے والی خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن ثنا احمد کہتی ہیں کہ قانون تو بن گیا، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا اور اس کے قواعد (رولز آف بزنس) بھی نہیں بنائے گئے، یہی وجہ ہے کہ غگ جیسا بدترین رواج جو کہ ایک زبردستی ہے، معاشرے میں موجود ہے بلکہ قانون کو ہاتھ میں لینے والے بھی۔ اگر اس قانون کے حوالے سے شعور پھیلایا جاتا اور اس کا صحیح معنوں میں نفاذ ہوتا تو لوگ خود انصاف کرنے نہ بیٹھے ہوتے۔ ‘
ثنا احمد نے کہا کہ ہر سال مختلف قسم کے تشدد کے اعداد وشمار کی رپورٹس آتی ہیں، لیکن غگ کے حوالے سے کوئی ڈیٹا سامنے نہیں آتا، جو کہ سرکاری وغیر سرکاری تنظیموں کی ذمہ داری بنتی ہے.