عمران خان کا مضمون بار بار پوسٹ کرنا، ’دی اکانومسٹ نے حکومت پاکستان کی چھیڑ بنا لی‘

ویب ڈیسک

پاکستان میں الیکشن سے قبل سوشل میڈیا پر انتخابات کے حوالے سے ٹرینڈز کرنے والے متعدد موضوعات میں سے ایک برطانوی جریدہ ’دی اکانومسٹ‘ بھی ہے

واضح رہے کہ اس جریدے نے جمعرات 4 جنوری کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں پابندِ سلاسل تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کا ایک مضمون شائع کیا تھا

’دی اکانومسٹ‘ کی جانب سے مضمون کی اشاعت پر پاکستان کی نگراں حکومت کا ردعمل سامنے آیا تو سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے مختلف تبصروں کا ایک سلسلہ بھی شروع ہو گیا

برطانوی جریدے میں شائع ہونے والے مضمون شائع میں عمران خان نے آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے اپنے تحفظات ظاہر کیے ہیں۔

جمعے کو نگراں وفاقی وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’آج ہم دی اکانومسٹ کے ایڈیٹر کو عمران خان کے ایک مبینہ مضمون کے بارے میں لکھ رہے ہیں جو اس جریدے میں شائع کیا گیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ بات حیران کن اور پریشان کن ہے کہ ایسے نمایاں میڈیا نے ایک ایسے فرد کے نام سے مضمون شائع کیا جو جیل میں ہے اور اسے سزا ہو چکی ہے۔‘

نگران وزیر اطلاعات کے اس بیان کے بعد دی اکانومسٹ نے یہ مضمون کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے ری ٹویٹ کیا تو گزشتہ روز ان کے ردعمل میں مزید شدت نظر آئی۔ مقامی نیوز چینل سے گفتگو میں مرتضیٰ سولنگی نے عمران خان کی جانب سے غیرملکی جریدے ’دی اکانومسٹ‘ میں لکھے گئے آرٹیکل کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ حکومت نے تمام معلومات حاصل کرلی ہیں، ہماری معلومات کے مطابق نا باہر سے کوئی خط یا آرٹیکل اندر گیا ہے اور نا اندر سے کوئی چیز باہر آئی ہے، تو یقینی طور پر یہ چیز باہر ہی لکھی گئی ہے اور اس کے بعد ہی اس ادارے نے چھاپی ہے تو ہماری معلومات کے مطابق اندر سے کوئی چیز نہیں گئی

جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر یہ آرٹیکل جیل کے اندر سے نہیں گیا تو پھر تو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے، جس پر نگران وزیر اطلاعات نے کہا ”مسئلہ کیوں نہیں ہونا چاہیے؟ اس آرٹیکل کے ساتھ جس شدومد کے ساتھ پی ٹی آئی کھڑی ہے تو وہ اس کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور خود جس ادارے نے چھاپا ہے، اس نے یہ اعلان کر کے چھاپا ہے کہ یہ عمران خان نے لکھا ہے، انہوں نے یہ تو نہیں کہا کہ یہ ایک گھوسٹ آرٹیکل ہے، جو ہمارے خیال میں ہے کیونکہ انہوں نے تحریر نہیں کیا تو یہ سوال اپنے طور پر بالکل بنتا ہے کہ جب ایک شخص نے اندر سے کوئی چیز تحریر نہیں کی تو کیا تخیلاتی مضمون بھی چھاپے جائیں گے، ’گھوسٹ آرٹیکل‘ چھاپے جائیں گے، سوال بالکل بنتا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا عمران خان قانون کی رو سے ابھی بھی ایک سزا یافتہ شخص ہیں، سزا کی معطلی اور خاتمہ دو الگ چیزیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک کتاب لکھنا اور بات ہے اور پروپیگنڈے کا آرٹیکل کسی کے نام سے چھپنا اور بات ہے، جو ہمارے خیال سے گیا ہی نہیں ہے، بانی پی ٹی آئی پر الزامات ’سیاسی نوعیت‘ کے نہیں ہیں، یہ نیلسن منڈیلا والی بات نہیں ہے۔

نگران وزیر اطلاعات نے کہا کہ مضمون اور انٹرویو میں فرق ہے، میں ایک قتل کے ملزم کا انٹرویو کرنے کے لیے تیار ہوں اگر وہ قوم کے مفاد میں ہو کیونکہ وہ مونولاگ (یکطرفہ تقریر) نہیں ہو گا، اس میں سخت سوال کیے جائیں گے، یہ ایک پروپیگنڈا کا مضمون ہے، اس میں کوئی سوال نہیں کیا گیا اور نہ انہوں نے ان بوگس الزامات پر حکومت پاکستان کا موقف لینے کی زحمت گوارا کی۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ان (دی اکانومسٹ) کو تفصیل کے ساتھ لکھ کر دیں گے، اس کے بعد کیا کریں گے وہ ہم بعد میں بتائیں گے، ہم اسے گھوسٹ آرٹیکل اس طرح ثابت کر سکتے ہیں کہ نہ جیل کے اندر سے کوئی چیز گئی ہے، نہ جیل کے اندر کوئی چیز آئی ہے۔

نگران وزیر اطلاعات کے اس بیان پر معروف تجزیہ کار اور کالم نگار ارشاد بھٹی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”‏میرے پیارے سولنگی صاحب، ویسے تو جب سے ’دی اکانومسٹ‘ والوں نے یہ سنا کہ آپ ان سے پوچھیں گے تب سےوہ تھر تھر کانپ رہے، خیر آپ جانیں اور وہ جانیں۔۔ میں تو بس آپ کو ایک مفت مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ ’دی اکانومسٹ‘ سے پوچھنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ ‏ایک سزا یافتہ اشتہاری کو برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر ڈاکٹر فیصل نے ہیتھرو ائیر پورٹ پر الوداع کیا، سعودی عرب، یو اے ای کے پاکستانی سفارت خانوں نے ویلکم کیا، آپ کی وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، انتظامیہ، پولیس نے سلام ٹھوکے اور تو اور، اسی سزا یافتہ اشتہاری کے لئے آپ کے پرنٹ میڈیا نے خصوصی ضمیمے چھاپے، الیکٹرانک میڈیا پر پورا دن خصوصی ٹرانسمیشن ہوئیں، اور پھر اسی سزا یافتہ اشتہاری نے لندن میں بیٹھ کر پہلے عمران حکومت گرائی، پھر شہباز حکومت چلائی اور وزیراعظم پاکستان ہر چوتھے دن کابینہ لے کر اسی سزا یافتہ اشتہاری کے دربار میں لندن پہنچے ہوئے ہوتے تھے۔۔
‏پیارے سولنگی صاحب، اگر ’دی اکانومسٹ‘ والوں نے یہ آئینہ دکھا دیا تو پھر کیا کریں گے؟ لہٰذا مشورہ یہ کہ سوچ سمجھ کر بولا کریں، اب آپ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ٹی وی تجزیہ کار نہیں پاکستان کے ترجمان ہیں۔“

دوسری جانب عمران خان کا آرٹیکل شائع ہونے کے بعد اس وقت ’دی اکانومسٹ‘ اڑھائی لاکھ سے زائد ری ٹویٹس کے ساتھ پاکستان میں پہلے نمبر پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔

’دی اکانومسٹ‘ کے ایکس (ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر شیئر کیے گئے آرٹیکل پر کچھ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا کہ عمران خان کے آرٹیکل پر سوال اٹھانے کے باوجود عمران خان کا ’دی اکانومسٹ‘ میں لکھا گیا آرٹیکل سترہ سالہ تاریخ کا سب سے زیادہ پڑھے جانے والا آرٹیکل ہوگا۔“

ایکس (ٹوئٹر) صارف سید زوہیب بخاری نے لکھا ”دی اکانومسٹ نے آزادی اظہار رائے اور جمہوریت کے لیے لڑنے والوں کے دل جیت لیے ہیں۔“

صحافی ثاقب بشیر نے لکھا کہ ’نگراں حکومت کی جانب سے عمران خان کے مضمون کی اشاعت پر سوال اٹھائے جانے کے بعد کل شام سے اب تک دی اکانومسٹ دو دفعہ وہی مضمون ٹویٹ کر چکا ہے۔‘

انہوں نے اس حوالے سے مزید لکھا کہ ’بار بار ٹویٹ کرنے سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی انہوں نے چھیڑ بنا لی ہے۔‘

ارسلان ضیا ولیم پاکستان کے نگراں وزیر اطلاعات کو مینشن کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’آپ کو دی اکانومسٹ پر مقدمہ کرنا چاہیے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close