تحریکِ لبیک کے مظاہروں میں پولیس کانسٹیبل محمد افضل اور علی عمران کی ہلاکت

ویب ڈیسک

اس بات کی تصدیق تو نہیں ہو سکی کہ یہ وڈیو پنجاب پولیس کے کانسٹیبل افضل کی ہے، لیکن کیپٹل سٹی پولیس لاہور کی جانب سے اس بات کی ضرور تصدیق کی گئی ہے کہ ‘مظاہرین کے تشدد سے کانسٹیبل محمد افضل اور کانسٹیبل علی عمران’ کی موت ہو گئی ہے جبکہ اس کے علاوہ مجموعی طور پر صرف لاہور شہر میں 97 افسران و اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
پرتشدد مناظر پر مبنی وڈیوز گذشتہ دو روز سے پاکستان میں جاری ان مظاہروں کی ہیں جس میں انتہائی دائیں بازو کی مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان اپنے رہنما سعد رضوی کی حراست پر ریاست کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں
تاحال سعد رضوی پولیس کی حراست میں ہیں اور ان پر دہشت گردی کے الزام سمیت مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے
لیکن سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں صارفین نے محمد افضل کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انھیں خراج تحسین پیش کیا اور ساتھ ساتھ میں یہ سوال اٹھایا کہ ان اہلکاروں کی موت کا ذمہ دار کون ہوگا؟
ایک صارف ایلیا حارث نے کانسٹیبل محمد افضل کے جنازے کی وڈیو ٹویٹ کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ‘جب بچے پوچھیں بابا کہاں ہیں تو بول دینا ہم ہار آئے جان فرض ادا کرتے کرتے۔’
صارف سحر طارق، محمد افضل کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ‘آج رات دل بہت بھاری ہے۔ کانسٹیبل افضل کی موت کے مناظر نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہم کس قدر بے رحم اور پرتشدد بن گئے ہیں جہاں لوگوں کو صرف ان کا کام کرنے پر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔’
کالم نویس علی معین نوازش لکھتے ہیں کہ ‘اگر ایک پولیس کانسٹیبل کی موت کے باوجود اس کے ذمہ دار بچ نکلتے ہیں اور ریاست اپنی پوری قوت کے ساتھ ان لوگوں کے خلاف نہیں قدم اٹھاتی جو اس موت کے ذمہ دار ہیں، تو ہم بحیثیت ایک قوم ناکام ہیں۔’
ایک اور صارف لکھتی ہیں کہ ‘مجھے ایک نظم لکھنی تھی لیکن اب لکھنے کو بچا ہی کیا ہے، مجھ سے رونا ہی نہیں ختم ہو رہا۔’
دوسری جانب ٹی ایل پی کے حمایت میں بھی کئی صارفین ٹویٹ کرتے نظر آئے جس میں سے ایک محمد معاذ لکھتے ہیں کہ صرف پولیس کانسٹیبل کی تصاویر ٹویٹ نہ کریں بلکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھائیں۔ وہ لکھتے ہیں: ‘جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ اگر ریاست اشتعال نہ پھیلاتی تو آج حالات مختلف ہوتے۔’
ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے علاوہ سوشل میڈیا صارفین میں پولیس پر کیے جانے والے تشدد پر بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے
ملک کے مختلف حصوں سے سامنے آنے والی بیشتر وڈیوز میں سے ایک کے آغاز میں آواز سنائی دیتی ہے ‘مارو مارو مارو پتھر مارو۔۔۔ اٹھاؤ اٹھاؤ پتھر اٹھاؤ۔’
یہ الفاظ اتھوں میں ڈنڈے یا پتھر لیے افراد کے ہیں، جنھوں نے پولیس کی وردی میں ملبوس اہلکار کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اسی طرح کی کچھ اور وڈیوز میں نظر آتا ہے کہ نڈھال پولیس اہلکار ڈنڈا برادر افراد کے نرغے میں ہیں۔ کسی کے منہہ سے خون بہہ رہا ہے تو کسی کے سر سے..
ایک اور وڈیو میں زمین پر گرے ہوئے پولیس اہلکاروں کو چند افراد بوتل سے پانی پلا کر بےہوش ہونے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں
اسی نوعیت کی ایک اور وڈیو میں آوازیں سنائی دیتی ہیں جس میں پولیس اہلکار کہہ رہے ہیں کہ ‘میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے، یہ درندے ہیں لوگ ہمارے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ہم نے ان کو ایک چھڑی بھی نہیں ماری اور ان لوگوں نے ہمارا کیا حال کیا ہے۔’
ان پرتشدد مناظر والی وڈیوز کے سامنے آنے پر پاکستانی سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں بحث جاری ہے جہاں بیشتر صارفین یہ سوال پوچھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ پاکستان میں پولیس اہلکاروں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے، تو چند ایسے صارفین بھی ہیں جو ٹی ایل پی کی حمایت میں بھی تبصرے کر رہے ہیں
لندن میں مقیم محقق اور پاکستان میں پولیس پر تحقیق کرنے والی زوہا وسیم نے اس حوالے سے متعدد سلسلہ وار ٹویٹس میں سوال کیا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ دو کم رینک والے پولیس اہلکاروں کی موت کے بعد ہی ہمیں احساس ہوتا ہے کہ پاکستان میں پولیس کو اپنے ادارے اور معاشرے میں کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
وہ لکھتی ہیں کہ ‘اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم پولیس کی جانب سے پاکستان کے شہریوں پر کیے جانے والے تشدد کو نظر انداز کر دیں، جس کی بھرپور مذمت کرنی چاہیے۔ لیکن یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ اگر پولیس تشدد کرتی ہے، تو ان پر خود بھی تشدد ہوتا ہے۔’
ایک اور ٹویٹ میں وہ یہ پوچھتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ کیا پولیس کی قیادت نے اپنے اہلکاروں پر دو روز میں ہونے والے تشدد کی مذمت کی ہے یا نہیں۔
جیو سے وابستہ صحافی بینظیر شاہ ان واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ‘ریاست کو پولیس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ یہ یونیفارم شاید اتنا اہم نہیں سمجھا جاتا۔’
بینش عزیر نامی ایک صارف جو ٹوئٹر پر خود کو پاکستانی پولیس سے منسلک ظاہر کرتی ہیں، کا ایک و؛ ڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ‘یہ پولیس انسپکٹر ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے وہاں پر موجود ہے۔ ہماری حکومت کیسے یہ برداشت کر سکتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پولیس ہی ہمارے گھروں اور ان غنڈوں کے درمیان ہے۔’
بینش عزیز اپنی ایک اور ٹویٹ میں کہتی ہیں کہ ‘ٹی ایل پی ایک ریاست مخالف جماعت ہے اور وہ اپنی ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ ملک کو یرغمال بنا لے۔ یہ دہشت گردی ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسے دہشت گردی ہی قرار دیا جائے۔’
ان کی اس ٹویٹ پر ڈان اخبار سے منسلک صحافی قراۃ العین لکھتی ہیں کہ ‘حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ پولیس والے سر عام اپنے خیالات سب کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔’
ان واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس سے وابستہ آمنہ بیگ نے ٹویٹ کیا کہ اس وقت مجھے اس فورس کا حصہ ہونے پر فخر محسوس ہو رہا ہے جو ملک میں امن بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے
البتہ دوسری جانب ایک صارف جنید حیات نے بینش عزیر اسی ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسی لیے پولیس اور فوج میں عورتوں کا شامل کرنا حماقت ہے
انھوں نے لکھا: ‘فرانسیسی سفیر کی ملک سے بے دخلی صرف ٹی ایل پی کا مطالبہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے ملک کے مسلمانوں کا مطالبہ ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close