کراچی – پاکستان نے ایرانی حکام سے ایک سعودی سفارت کار کے قتل کے بعد ایران فرار ہونے والے تین ملزمان کی گرفتاری میں مدد مانگی ہے
یاد رہے کہ سعودی سفارت کار حسن القحطانی کو 16 مئی، 2011 کو کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز چھ میں درخشاں تھانے کی حدود میں موٹر سائیکل سوار چار حملہ آوروں نے قتل کر دیا تھا
انہیں اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ خیابان شہباز کے قریب واقع اپنی رہائش گاہ سے باہر نکل رہے تھے
کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) سندھ نے ایران سے سعودی سفارت کار قتل کیس میں مطلوب تینوں ملزمان کی تفصیلات کے لیے خط ارسال کیا ہے
سی ٹی ڈی کے ایک افسر نے، جنہیں میڈیا سے گفتگو کی اجازت نہیں، نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ سعودی سفارت کار کے قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور اس کیس میں مطلوب تینوں ملزم علی مستحسن، رضا امام اور سید وقار احمد کی معلومات ایران سے مانگی گئی ہیں
سی ٹی ڈی کے افسر نے مزید کہا کہ تینوں ملزمان قتل کے بعد ایران فرار ہوگئے تھے، جس کے بعد ان کی سفری تفصیلات میں پاکستان واپس آنے کے کوئی شواہد نہیں
’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تینوں ملزمان ایران میں ہیں۔ تاہم ان کے اہل خانہ کی پاکستان سے ایران آنے جانے کی سفری معلومات موجود ہیں۔‘
سی ٹی ڈی افسر کے مطابق علی مستحسن اور رضا امام کے ریڈ وارنٹ جاری کیے جا چکے ہیں، جبکہ شناختی کارڈ موجود نہ ہونے کے باعث سید وقار احمد کا ریڈ وارنٹ جاری نہیں ہوسکا
ریڈ وارنٹس سے ملنے والی معلومات کے مطابق علی مسحتسن کی گرفتاری پر پانچ لاکھ روپے کا انعام رکھا گیا ہے۔ ان کی عمر انتالیس سے چالیس سال ہے۔ قد درمیانہ، رنگ گندمی، بالوں کا رنگ سیاہ ہے
ریڈ وارنٹ کے مطابق علی مستحسن انتہا پسند جماعت سپاہ محمد کے رکن ہیں اور وہ مبینہ طور پر کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی مختلف واردات میں ملوث ہیں۔ وہ کراچی کے تھانے شاہ فیصل کالونی اور گلشن اقبال میں دو کیسز میں بھی مطلوب ہیں
دوسری جانب رضا امام عرف رضا امام عرف منظر ولد جعفر علی نقوی کے ریڈ وارنٹ کے مطابق ان پر دس لاکھ روپے کا انعام ہے
ان کی عمر باون سے پچپن سال، تعلیم گریجویٹ، اور تکیہ کلام ’جی، جی‘ ہے۔ وانٹ کے مطابق رضا امام سپاہ محمد کے سرگرم کارکن ہیں اور وارداتوں کے بعد ایران چلے جاتے ہیں
ریڈ وارنٹ کے مطابق رضا امام پاکستان ایئر فورس کی مسرور بیس میں ملازم تھے اور اس وقت ایران میں ہیں
پاکستان ایئر فورس کے ترجمان پروفیسر قیصر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ رضا امام سابق ملازم تھے لہٰذا وہ اس معاملے پر تبصرہ نہیں کرسکتے.