ریاض – اسلامی تاریخ کے پراجیکٹ ’رحلت مہاجر‘ کے منتظمین نے کہا ہے کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کے ہجرت کے سفر کو دستاویزی شکل دینے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے
تفصیلات کے مطابق پیغمبر اسلامﷺ کی سوانح عمری پر ماہرین اور محققین کے ساتھ مل کر کام کیا گیا ہے، جو دراصل مکہ میں جبل ثور کلچرل سنٹر کی افتتاح کے لیے کی جانے والی تیاریوں کا حصہ ہے، تاکہ یہاں کا دورہ کرنے والے سیاح وسیع اور معیاری تجربہ حاصل کریں
ثقافتی منصوبوں بشمول قومی عجائب گھر، نمائشوں اور دیگر سرگرمیاں منعقد کرنے والی ماہر کمپنی سمایا انوسٹمنٹ کا بھی یہی ہدف ہے کہ سیاحوں کے لیے معیاری اور تاریخی معلومات پر مبنی تقریبات کا اہتمام کیا جائے
سمایا کے سربراہ فواض المرحج نے بتایا کہ پیغمبر اسلامﷺ کے ہجرت کے سفر کو فضا سے فلم بند کرنے اور پینورامک فوٹوگرافی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال 20 دسمبر کو لانچ ہونے والے پراجیکٹ کے پہلے مرحلے میں ٹیم نے ان تمام مقامات کی نشاندہی کی، جو ہجرت کے سفر کا حصہ تھے. ان مقامات میں غار ثور سے لے کر مدینہ میں مسجد قبا تک تمام چالیس جگہیں شامل ہیں
فواض المرحج نے بتایا کہ انہیں سفر ہجرت کے راستے کو دستاویزی شکل دینے کا خیال تب آیا، جب وہ اس بات پر غور کر رہے تھے کہ جبل ثور ثقافتی سنٹر میں پیغمبر اسلامﷺ کے ہجرت کے واقعے کو کس انداز میں پیش کیا جائے
ہجرت کا سفر بنیادی طور پر پینارامک فوٹوگرافی 360 کا استعمال کرتے ہوئے ریکارڈ کیا گیا ہے، جبکہ اس کے دوسرے مرحلے میں تمام مقامات کو فور کے ڈرونز کے ذریعے ریکارڈ کیا جائے گا
سمایا کے سربراہ فواض المرحج نے بتایا کہ اس پراجیکٹ کے دوران سب سے زیادہ مشکل ناہموار سڑکوں کے باعث پیش آئی اور اس وجہ سے بھی کہ بہت سے تاریخی مقامات کے نام وقت کے ساتھ تبدیل ہو گئے ہیں
اس پراجیکٹ کی تحقیق کے لیے اسلامی تاریخ اور پیغمبر اسلام کی سوانح عمری کے متعدد ماہرین سے مدد حاصل کی گئی جس میں پروفیسر محمد بن سامل السلامی اور مکہ کی ام القریٰ یونیورسٹی کے پروفیسر سعد بن موسیٰ الموسیٰ بھی شامل ہیں
ان کے علاوہ ریاض کی امام محمد ابن سعود اسلامک یونیورسٹی کے پروفیسر سلیمان بن عبداللہ السویکت اور پروفیسر عبدالعزیز بن ابراہیم العمری نے بھی اپنی خدمات پیش کیں، جو ایٹلس بائیوگرافی آف پرافٹ کی سائنسی کمیٹی کے ممبران بھی ہیں
پیغمبر اسلامﷺ کی سوانح عمری اور مدینہ کے اہم مقامات پر مہارت رکھنے والے پروفیسر عبداللہ بن مصطفیٰ نے بھی پراجیکٹ کے کچھ حصوں میں حصہ لیا.