پرتگال: پتھروں کو ’جنم دینے والے‘ پراسرار پتھر جو اولاد کے خواہشمند جوڑوں کے مددگار سمجھے جاتے ہیں۔۔

اسمی فوکس

پرتگال کے شمال میں ایک ایسی جغرافیائی پہیلی ہے، جس نے دہائیوں سے سائنسدانوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ بہت ہی نایاب پتھر، جو چھوٹے چھوٹے پتھروں کی صورت میں اپنی افزائش نسل کرتے نظر آتے ہیں

جب میں دور دراز شمالی پرتگال میں ایک وسیع سطح مرتفع میدان کے کنارے پر کھڑی ہوئی تو میرے چہرے سے تیز ہوا ٹکرائی۔ لیونڈر کے پھولوں جیسا نیلا رنگ کہرا افق پر پھیلا ہوا تھا اور میں اس منظر میں صرف ایک بہتی ہوئی آبشار کا خاکہ دیکھ سکتی تھی، جب یہ اونچائی سے نیچے پہاڑ سے نیچے گرتی ہے

نازک پیلے رنگ کے پھولوں نے کئی گہرے رنگوں کے مناظر سجا دیے تھے۔ اپنے سامنے پھیلے ہوئے پہاڑوں کو دیکھ کر مجھے ایسا لگا، جیسے میں دنیا کے کنارے پر کھڑی ہوں اور میں اب سمجھ سکتی تھی کہ انہیں پرتگالی زبان میں ’مونٹینہاس میگیکاس‘ یعنی ’جادوئی پہاڑ‘ کیوں کہا جاتا ہے

میں ’اروکا یونیسکو گلوبل جیوپارک‘ میں تھی، جو ایک کھلا ہوا ارضیاتی عجائب گھر ہے اور طویل عرصے سے سائنسدانوں کے لیے باعثِ کشش ہے کیونکہ اس میں موجود ارضیاتی عجائبات کی ایک بڑی تعداد ہے

یہ مجموعی طور پر 41 الگ الگ ارضیاتی عجائبات کی جگہ ہے۔ ان میں دنیا کے سب سے بڑے ’حِجريات سَہ لَختہ‘ (ٹریلوبائٹ فوسلز) شامل ہیں – آرتھروپڈ (ریڑھ کی ہڈی کی قسم پرجیوی حیاتیات کی قسم) جو 50 کروڑ سال پہلے کے دور میں رہتے تھے – اس کے علاوہ ارضیاتی خطوطِ گسل (فالٹ لائنز) اور لاکھوں سال میں پانی کے ذریعہ تیار کردہ دوسری ارضی چٹانوں کی شکلیں لیکن میں ان میں سے کوئی بھی دیکھنے نہیں آئی تھی- یقیناً وہ سب دلچسپ ہیں – قدرت کے حسن کی بہترین نمائش ہیں۔ میں اس سے بھی زیادہ دلکش چیز اور دنیا کے سب سے حیران کن ارضیاتی مظاہر میں سے ایک کو دیکھنے آئی تھی

پہاڑی نظارے سے خود کو دور کرتے ہوئے، میں اپنی منزل کی طرف بڑھتی رہی۔ کاسٹان ہائیرا کا چھوٹا سا گاؤں۔۔ فریٹا ماؤنٹین (جیوپارک کے اندر واقع جادوئی پہاڑوں میں سے ایک) کے پہلو میں واقع یہ گاؤں پیڈراس پریڈیرس یا انگریزی میں ‘برتھنگ اسٹونز’ کا گھر ہے – تیس کروڑ سال پرانی چٹانیں جو بظاہر چھوٹے چھوٹے پتھروں کے ‘بچوں’ کو جنم دیتی ہیں۔ وہ کرہ ارض پر موجود کسی بھی دوسری چٹان سے بالکل مختلف ہیں

یہ گرمیوں کے عروج کا دور تھا، لیکن جیسے جیسے میں قریب پہنچی، موسیقی کی ایک دھیمی دھند نے گاؤں کے ماحول کو مسحور کیا ہوا تھا اور آسمان سیاہ ہو چکا تھا۔ تھوڑی دیر بعد یہ منظر میری آنکھوں سے اوجھل ہونے لگ گیا تھا اور میں ان پہاڑوں کو مزید نہیں دیکھ سکتی تھی، جنہیں میں جانتی تھی کہ مجھے گھیر چکے ہیں

گاڑی سے باہر نکلتے ہی مجھے ہوا میں خُنکی محسوس ہوئی۔ میں نے دھند کے درمیان سے کسی کو پکارتے ہوئے سنا اور کچھ ہی لمحوں بعد گھنٹیوں کی آواز پورے پہاڑوں میں گونجی اور مویشیوں کا ایک غول نمودار ہوا، جو چراگاہ سے گاؤں کی طرف واپس لوٹ رہا تھا

میں جلدی سے کاسٹان ہائیرا کے چھوٹے معلوماتی اور ترجمہ کرنے والوں کے مرکز پر پہنچی، جو 2012ع میں گرینائٹ اور اس کے پتھر ‘بچوں’ کے اس پراسرار پیداوار کے ارد گرد بنایا گیا تھا تاکہ سیّاحوں کو یہ سمجھنے میں مدد ملے کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں۔ بڑے پتھروں نے ڈھکے ہوئے دالان کو بھرا ہوا تھا، ہر ایک پر چھوٹے چھوٹے سیاہ گول گول نشان ایسے تھے، جیسے اس نے پولکا ڈاٹ لباس پہنا ہوا ہو۔ یہ ایک ایسا منظر تطا جسے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا

اندر اس طرح کے پتھروں کی اور بھی زیادہ تعداد تھی۔ مزید قریب سے دیکھنے پر میں دیکھ سکتی تھی کہ سیاہ نقطے صرف چپٹے نشانات ہی نہیں تھے۔ وہ تین جہتی پتھر تھے، جو بڑی چٹان کے اندر جُڑے ہوئے تھے

اروکا جیوپارک کی ماہر ارضیات الیگزینڈرا پاز نے کہا کہ ‘ہم اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ دونوں چٹانیں اور ان کے اندر موجود چھوٹے چھوٹے پتھر تقریباً 32 سے 31 کروڑ سال پہلے بنے تھے۔’

‘بڑے گرینائٹ کی ‘ماں’ چٹانیں بظاہر ان چھوٹے چھوٹے ‘بچوں’ کے انڈوں کو اپنے اندر سے بایو ٹائٹ (ایک عام چٹان بنانے والی معدنیات) سے بنا کر باہر دھکیلتی نظر آتی ہیں۔ یہ وہ چھوٹے چھوٹے سیاہ پتھر ہیں جو آپ دیکھ سکتے ہیں۔’ پاز نے وضاحت کرتے ہوئے گٹھڑیوں کی طرف اشارہ کیا، اس لیے ان کا نام ‘پادرے پیڈریس’ (Pedras Parideiras) یا جنم دینے والے پتھر رکھا گیا

پاز ایک میز کے پیچھے گئیں اور اپنے ہاتھ کی ہتھیلی میں ایک چمکدار سیاہ پتھر پکڑے واپس لائیں۔ اس نے اسے میرے حوالے کرتے ہوئے کہا ‘یہ بائیوٹائٹ پتھروں میں سے ایک ہے جو مکمل طور پر الگ ہو کر بالکل نیا پتھر بن گیا ہے۔’

بڑے بادام کی شکل کا پتھر
کالا پتھر جب مادر چٹان کے اندر تھا تو اس کی شکل گول ہوتی تھی، لیکن اب جب میں اسے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھی تو میں دیکھ سکتی تھی کہ یہ دراصل بیضوی شکل کا تھا اور قدرے چپٹا تھا، جیسے بڑے بادام کی شکل ہو

الیگزنڈرا پاز نے وضاحت کی کہ یہ چٹانیں بڑی گرینائٹ چٹان کی نسبت موسمی اثرات کے خلاف زیادہ مزاحمت کی صلاحیت رکھتی ہیں، اور ہواؤں اور بارش سے متاثر ہونے کے بعد، گرمیوں میں گرمی اور سردیوں میں ٹھنڈ کے ساتھ سکڑتے اور پھیلنے کے بعد، آخر کار انھیں (چھوٹے چھوٹے پتھروں) باہر نکالتی ہیں

مستقبل بعید میں کسی نہ کسی وقت، تمام چھوٹے پتھر باہر دھکیل دیے جائیں گے اور مادر چٹان بالکل گرینائٹ کے کسی دوسرے سلیب کی طرح بن جائے گی اور جب کہ ان میں سے ہزاروں بچے پتھر چٹانوں کی سطح کے قریب دیکھے جا سکتے ہیں، کوئی بھی قطعی طور پر نہیں جانتا کہ اور کتنے مادر پتھر کے اندر گہرائی میں واقع ہیں، جو اب سے سینکڑوں سال بعد ‘پیدا’ ہونے کا انتظار کر رہے ہیں

مرکز میں معلومات اور ایک تھری ڈی وڈیو کے ذریعے میں نے سیکھا کہ یہ واقعہ کتنا نایاب ہے۔ جب کہ ‘آربیکولر گرینائٹ’ (اندر کروی شکلوں والی گرینائٹ چٹان)، ‘پادرے پیڈریس’ کی طرح، چند ایک ممالک میں پائی جاتی ہے، یہ صرف اروکا میں ہے جہاں چٹان ان منفرد محدب الطرفین نما طشتری کو ‘جنم’ دیتی نظر آتی ہے

یہ عین اُن حالات کی وجہ سے ہوتا ہے جو انھیں پہلی جگہ بنانے کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ جیوپارک ایک فالٹ سسٹم کے اوپر واقع ہے، اور جس وقت ‘پادرے پیڈریس’ 30 کروڑ سال پہلے بنائے گئے تھے، یہاں کا منظرنامہ غیر مستحکم تھا

‘ارضیاتی پرتیں’ (ٹیکٹونک پلیٹیں) ایک دوسرے سے ٹکرائیں، زبردست جادوئی پہاڑوں کی تخلیق میں زمین کو اوپر کی طرف دھکیل دیا۔ زلزلوں کی وجہ سے زمین میں دراڑیں پڑ گئیں، اور اس بڑھے ہوئے دباؤ کی وجہ سے لاوا سطح پر پھوٹ پڑا اور معدنی یا نامیاتی مادے کی نرم یا رقیق مقدار ‘میگما’ زیر زمین گہرائی میں بہہ گیا

جبکہ ماہرین ارضیات ابھی تک پوری طرح سے نہیں سمجھتے کہ یہ چھوٹے بچے ‘نوڈول’ اب تک کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ آروکا جیوپارک کے سائنسی کوآرڈینیٹر اور یونیورسٹی آف ٹراس-اوس-مونٹیس اور آلٹو ڈورو میں جیوڈینامکس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آرٹور اگوسٹینہو ڈی ابریو ای سا نے کہا کہ یہ رجحان میگما کی کیمیائی ساخت اور چٹان کے ساتھ اس کے تعامل سے وابستہ ہے۔ نیز ٹیکٹونک تحریک جو اِس وقت موجود تھی اُس وقت اُن کی تشکیل ہوئی

موجودہ نظریات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یا تو پگھلی ہوئی چٹان نے ان چھوٹے پتھروں کو گھیر لیا تھا اس سے پہلے کہ یہ اَسی لاکھ سال بعد بالآخر سخت ہو جائیں۔ یا یہ کہ دباؤ- ابریو ای سا کے مطابق، ‘بند شیمپین کی بوتل کو ہلانے کے مترادف ایک ہوا’ – چٹان میں چھوٹے بلبلے کی طرح کے چٹخنے کا سبب بنتا ہے، جو پتھر کے بچے بن گئے

انھوں نے مزید کہا کہ یہ بچے نوڈول منفرد ہیں کیونکہ یہ زمین کی ٹیکٹونک پلیٹوں کے دباؤ کی وجہ سے قدرے چپٹے ہوئے تھے۔ ابریو سا نے کہا، ‘جب پادرے پیڈریس’ کے باہری حصے کو دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم ایک ایسی تصویر کی تعریف کر رہے ہیں جو چٹان کی تاریخ کے بارے میں کہانی بیان کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چٹان کے کرسٹلائزیشن کے عمل کے دوران، اس نے ٹیکٹونک قوتوں کی سمت کو محفوظ رکھا جو اس کی تخلیق کے وقت اس پر اثرانداز ہو رہی تھیں۔’

ان ارضیاتی عجائبات کو بہتر طور پر دیکھنے کے لیے، میں باہر لکڑی کے راستے کی طرف چلی گئی جو فریٹا ماؤنٹین کی چوٹی کے ساتھ چلتا ہے۔ جنم دینے والے مادر پتھروں کی مرکزی بیرونی شکل پر نظر ڈالتے ہوئے، میں دیکھ سکتا تھا کہ ‘پادرے پیڈریس’ کتنی دور پھیلے ہوئے ہیں: گرینائٹ مادر چٹانوں کے بڑے سلیب دس فٹبال کے میدانوں جتنے بڑے علاقے میں پھیلے ہوئے تھے۔ اگرچہ دھند اب بھی ہوا میں کم تھی، لیکن میں پتھروں کے بچوں پر سیاہ چمک دیکھ سکتی تھی

اچانک ایک کالی چادر اوڑھی ہوئی بوڑھی عورت دھند میں سے میرے قریب آئی۔ آدھے ہاتھ کو مواد کے تہوں کے پیچھے چھپاتے ہوئے اس نے انہیں کھولا اور احتیاط سے مجھے ایک قیمتی سیاہ گٹھلی دکھائی۔ ‘تم خریدو گی؟’ اس نے سرگوشی کی۔ اس نے اپنے ہاتھ اپنے پیٹ کے اوپر گول شکل میں پھیرتے ہوئے مزید کہا کہ ‘بچے کو لاؤں۔’

میں نے سنا تھا کہ پتھروں کے ارد گرد مقامی خرافات موجود ہیں، لیکن مجھے پاز کی انتباہ یاد آئی کہ وہ اپنے ساتھ کوئی گھر لے جانے کے لیے نہ خریدیں کیونکہ وہ پارک کے ذریعے جمع کیے جاتے ہیں اور اس علاقے کی ابتدا کی سائنسی تحقیق کے لیے استعمال ہوتے ہیں

میں نے اپنا پیدل سفر جاری رکھتے ہوئے اُس عورت کا شکریہ ادا کیا اور اپنا سر ہلایا، پھر وہ واپس دھند میں غائب ہو گئی

اس کے بعد میں نے ابریو ای سا سے ان چٹانوں کے آس پاس کے افسانوں کے بارے میں مزید معلومات کے لیے بات چیت کی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ بہت سے مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ ‘پادرے پیڈریس’ میں بچوں کی پیدائش سے جڑی زرخیزی کے مسائل سے دوچار جوڑوں کی مدد کرنے کی طاقت ہے۔ شہری افسانوی کہانیوں کے مطابق، اگر آپ اپنے تکیے کے نیچے کسی بچہ پتھر کے ساتھ سوتے ہیں تو اس سے آپ کے ہاں بچہ پیدا کرنے میں مدد ملے گی

یہ نظریہ اس قدر وسیع پیمانے پر پھیل گیا تھا کہ سنہ 1990 کی دہائی تک، کاسٹان ہائیرا میں مادر چٹانیں ان کے چھوٹے چھوٹے پتھروں کے بچوں سے تقریباً مکمل طور پر خالی ہو چکی تھیں، کیونکہ پرتگال بھر سے اور یہاں تک کہ بیرون ملک سے بھی لوگ ایک انتہائی مطلوبہ زرخیزی پتھر حاصل کرنے کی امید میں یہاں کا سفر کرتے تھے۔’

ابریو ای سا نے مجھے بتایا کہ ‘اگرچہ واضح طور پر اس بات کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے کہ یہ پتھر جوڑوں کو حاملہ ہونے میں مدد دیتے ہیں، لیکن یہ ان لوگوں کی کامیابی کی کئی کہانیوں کو نوٹ کرنا دلچسپ ہے جنہوں نے یہ پتھر بچے حاصل کیے ہیں اور اسے رات کو اپنے تکیے کے نیچے رکھا ہے۔’ انہوں نے مزید کہا کہ ایک بار ایک برازیلی خاتون نے اُن سے رابطہ کیا جو مبینہ طور پر اروکا سے پتھر لینے کے بعد حاملہ ہو گئی تھی

درحقیقت جیوپارک کے پاس فی الحال بچہ پیدا کرنے کے خواہشمند جوڑوں کو ایک متعین مدت کے لیے ‘کرائے پر ایک پادرے پیڈریس’ دینے کا ایک تجرباتی پروگرام ہے (دلچسپ جوڑے پوچھ گچھ کے لیے جیوپارک سے رابطہ کر سکتے ہیں)۔ اگرچہ اس کے پیچھے بنیادی وجہ لوگوں کو پتھروں کو چوری کرنے سے روکنا ہے، لیکن اس کے تعارف نے زرخیزی کے افسانے کو برقرار رکھا ہے

جیسے ہی میں جادوئی پہاڑوں سے نکلنے کے لیے مڑی تو سیاہ چادر والی عورت کی تصویر میرے سامنے آئی۔ کہانیاں سچ ہوں یا نہ ہوں، ایسا لگتا ہے کہ پرتگال کے اس دور افتادہ علاقے میں پتھروں کی پراسرار طاقت بدستور زندہ ہے۔

بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close