بارہ ماسی: آم کا وہ درخت، جو سردیوں میں بھی پھل دیتا ہے

نیوز ڈیسک

لودھراں – آم اور وہ بھی سردیوں میں، بلکہ سال کے بارہ مہینے… کیا یہ حقیقت ہے اور کیا ایسا ممکن بھی ہے؟

جی ہاں، یہ بلکل ممکن ہے، ایسا نہیں کہ یہ امکان کولڈ اسٹوریج کا مرہونِ منت ہے، بلکہ یہاں اس کے درخت پر پھل لگنے کا ہی ذکر ہو رہا ہے

پنجاب کے ضلع لودھراں کے موضع نور شاہ گیلانی میں واقع وسیع و عریض چاند شاہ گیلانی فارم میں 45 ایکڑ پر تو صرف آم کے باغات لگے ہوئے ہیں، جبکہ اس کے علاوہ باقی کھیت اور باغات الگ ہیں

چاند شاہ گیلانی فارم کے مالک علاقے کے دو زمیندار بھائی سید محمد شاہ گیلانی اور سید جعفر شاہ گیلانی ہیں

چاند شاہ گیلانی فارم میں ان کے ڈیرے پر موجود قریب کے علاقوں کے مہمانوں نے بتایا کہ وہ اکثر سید محمد شاہ گیلانی اور سید جعفر شاہ گیلانی سے ملنے اور لنگر کھانے کے لیے آتے رہتے ہیں اور اب وہ اس وقت سردیوں میں آم کھانے آئے ہیں

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پہلی مرتبہ سردیوں میں آم کھا رہے ہیں، تو ان سب کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں

”کچھ عرصے سے اس علاقے میں سردیوں میں بھی آم دستیاب ہوتا ہے۔ اس کو بھی اگر مناسب انداز میں اسٹور کیا جائے تو اتنا ہی لذیذ ہوتا ہے جتنا گرمیوں میں پائے جانے والے آموں کی ورائٹی۔“

چاند شاہ گیلانی فارم کے دورہ کے موقع پر سید جعفر شاہ گیلانی نے اپنے آموں کے باغ میں سے ان درختوں کی نشاندہی کی، جن سے سال کے بارہ ماہ آم ملتا رہتا ہے اور اس پر سال میں دو مرتبہ بلومنگ یعنی ایسے پھول نکلتے ہیں جن پر بعد میں پھل آتا ہے

اس وقت بھی کم از کم دس درختوں پر اکا دکا آم موجود تھے۔ کچھ آم پکے ہوئے تھے جن کو کسی بھی وقت آئندہ دو چار دن میں اتارا جانا تھا جبکہ کچھ آم چھوٹے تھے، جن کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ آم جنوری میں مکمل پک کر اپنے سائز اور رنگ میں آ جائیں گے

تقریباً سارا سال ہی پھل دینے والے درخت اس فارم پر کوئی ایک ایکٹر پر لگے ہوئے تھے۔ ان کی خصوصی نگہداشت کی جاتی ہے، ان کے زیادہ قریب دوسرے درخت نہیں لگائے گئے تاکہ یہ متاثر نہ ہوں۔ موسم کے درختوں پر پھول مارچ، اپریل، مئی میں نکل جاتے ہیں اور پھل بننے میں تقریباً تین ماہ لگتے ہیں

جبکہ سید جعفر شاہ گیلانی کے مطابق سردیوں اور سارا سال پھل دینے والے درختوں پر سال میں دو مرتبہ مارچ، اپریل کے بعد ستمبر میں بھی پھول نکلتے ہیں

اس موقع پر سید جعفر شاہ گیلانی نے بتایا کہ دسمبر میں ان درختوں پر بہت شاندار پھل آیا تھا. فی درخت ہمیں تین سے پانچ من تک پھل ملا۔ ہم نے دسمبر میں اتارے جانے والے آموں کو پورے پاکستان میں موجود اپنے دوستوں کو بھجوایا تھا

سید جعفر شاہ گیلانی کا کہنا تھا کہ یہ باغ اور آم کے درخت ان کے والد مرحوم نے لگائے تھے

وہ کہتے ہیں”باقی باغ تو تقریباً چالیس سال پرانا ہے، مگر سارا سال پھل دینے والے درختوں پر آم گزشتہ تین، چار سال سے لگ رہے ہیں۔ ان درختوں پر بہت محنت ہوئی ہے جس کے بعد انھوں نے پھل دینا شروع کیا۔“

اس وقت آسٹریلیا میں قیام پذیر ڈاکٹر ذوالفقار فیصل آباد ریسرچ سنٹر میں اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں اور چاند شاہ گیلانی فارم کے کنسلٹنٹ کی خدمات بھی انجام دی ہیں

ڈاکٹر ذوالفقار کے مطابق چاند شاہ گیلانی فارم ہی نہیں بلکہ پنجاب کے کچھ اور علاقوں کے علاوہ سندھ میں بھی یہ درخت موجود ہیں اور ان کو ’بارہ ماسی‘ کہا جاتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور تحقیق نے یہ ممکن بنا دیا کہ اب آم سردیوں اور بارہ مہینے بھی دستیاب ہو سکتا ہے

وہ کہتے ہیں کہ’چاند شاہ گیلانی فارم میں بارہ ماسی پر بہت محنت ہوئی ہے۔ اس کے لیے طویل تجربے کیے گئے۔ موسمی حالات کے موافق حالات بنائے گئے، جس کے بعد ان درختوں نے پھل دیا۔‘

’اس درخت کو پرواں چڑھانا بذات خود ایک پوری سائنس اور لمبی جدوجہد ہے، جو شاید ایک عام فارمر کے بس میں نہیں۔‘

سید جعفر شاہ گیلانی کہتے ہیں ”ہمارے باغ میں آم کی کافی ورائٹی لگی ہوئی ہے، جس میں چونسہ، انور رٹول، کالا چونسہ وغیرہ شامل ہیں لیکن جو درخت سارا سال پھل دیتے ہیں ان پر دوسرے درختوں کی نسبت زیادہ محنت ہوتی ہے۔“

انہوں نے کہا ”ہمارے والد محترم کو یہ درخت ان کے سندھ کے زمیندار دوستوں نے تحفے میں دیے تھے۔ سندھ کے زمینداروں نے پنجاب سے پہلے ہی یہ اپنے فارمز اور باغوں میں لگا رکھے ہیں۔“

سید جعفر شاہ گیلانی کہتے ہیں کہ ”آم کی دوسری ورائٹی پانچ، سات سال میں پھل دینا شروع ہو جاتی ہیں جبکہ بارہ ماسی اس سے دوگنا وقت لیتا ہے۔“

اس حوالے سے سندھ ایگری کلچر سرچ سینٹر کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر نور محمد بلوچ کا کہنا ہے کہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پاکستان میں بارہ ماسی اصل میں سندھ کا درخت اور پھل ہے

انہوں نے بتایا کہ اس کو پاکستان میں سب سے پہلے ہمارے ہی ادارے کے سابق ڈائریکٹر جنرل مرحوم پاشا جیگدار نے سنہ 2007ع میں متعارف کروایا تھا۔ انہوں نے اس کے سات، آٹھ درخت تیار کیے تھے، جس کے بعد اب ان کی تعداد کافی بڑھ چکی ہے۔ میرپور خاص اور سندھ کے کئی فارمز یہ پھل حاصل کر رہے ہیں۔ سندھ میں آموں کی ہونے والی ہر نمائش میں ہم بارہ ماسی کو پیش کرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آموں کی اب اڑتالیس اقسام ہیں اور جدید دور میں یہ کوئی حیرانگی کی بات نہیں کہ سردیوں میں بھی آم مل رہا ہو۔ بارہ ماسی کا جوان درخت چالیس فٹ لمبا اور کافی پھیلا ہوا ہوتا ہے

ڈاکٹر نور محمد بلوچ کہتے ہیں بارہ ماسی کے لیے کرافٹنگ، ڈرافٹنگ کی جاتی ہے

ڈاکٹر ذوالفقار کہتے ہیں کہ پاکستان میں عموماً ہر آم کی ورائٹی کی قلم ہی لگتی ہے اور اسی طرح بارہ ماسی کے درخت کی بھی قلم لگائی جاتی ہے

وہ کہتے ہیں ’کسی بھی آم کے درخت پر بارہ ماسی کے درخت کی قلم لگا کر اس کو بارہ ماسی کے درخت میں تبدیل کیا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایسے فارمر جو بارہ ماسی لگانا چاہتے ہیں، وہ بارہ ماسی کی گھٹلی لگا کر اس کے درخت کو بڑا کریں اور پھر اس کی قلمیں بنا کر آم کے کسی بھی درخت پر لگا کر اس کا پھل حاصل کریں

انہوں نے بتایا ’آم کی باقی اقسام کے مقابلے میں یہ درخت جوان ہونے میں تقریباً دوگنا وقت لیتا ہے۔ اس پر محنت، دیکھ بھال بھی باقی کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔‘

بارہ ماسی کی کمرشل ویلیو کے بارے میں ملتان مینگو گروور ایسوسی ایشن کے صدر طارق خان کہتے ہیں کہ انہیں نہیں لگتا کہ سردیوں کی اس ورائٹی کے لیے مارکیٹ میں کوئی گنجائش موجود ہے

وہ کہتے ہیں کہ ’سادہ سی بات ہے کہ آم کھانے کا دل کب کرتا ہے، تو اس کا جواب ہے کہ جون، جولائی میں جب گرمیاں عروج پر ہوتی ہے۔‘

ان کے مطابق ’اس وقت ہی آم کی طلب عروج پر ہوتی ہے۔ عموماً اس وقت ہی زیادہ تر اقسام مارکیٹ میں آ جاتی ہیں۔ اس وقت ہی اس کی مارکیٹنگ کا پورا نیٹ ورک فعال ہوتا ہے۔ جس میں مزدور سے لے کر پرچوں فروش تک کام کر رہا ہوتا ہے۔‘

طارق خان کے مطابق آم گرمیوں کا موسمی پھل ہے۔ اس وقت ہی اس کے ساتھ جڑا سارا نظام فعال ہوتا ہے۔ وہ ہی نظام پھر دوسرے پھلوں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے

سندھ کے فارمر محمود نواز شاہ کے مطابق یہ بات تو ٹھیک ہے کہ سندھ کے بعد اب یہ پنجاب کے فارمز تک بھی پہنچ چکا ہے، مگر اس کی پیدوار بہت محدود ہے

وہ بتاتے ہیں ’یہ کچھ فارمرز نے اپنے شوق، تحقیق وغیرہ کے لیے لگایا ہوا ہے۔ اس پر سے پھل بھی اتنا نہیں آتا کہ اس کی کوئی مارکیٹنگ کی جا سکے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹنگ کے لیے لازمی ہے کہ اس کو مناسب مقدار میں مارکیٹ تک پہچایا جا سکے۔ ’ابھی تو اگر کچھ فارمرز نے یہ لگایا ہوا ہے وہ اگر ایک آدھ ایکڑ پر ہے بھی تو اس کی اتنی مقدار دستیاب نہیں، جو مارکیٹنگ کے لیے موزوں ہو۔‘

محمود نواز شاہ کہتے ہیں کہ فی الحال تو نہیں لگتا کہ اس وقت اور موجودہ صورتحال میں اس کی مارکیٹنگ ممکن ہو سکے گی۔

سید جعفر شاہ گیلانی کا کہنا تھا کہ ہم اس وقت کوشش کر کے بارہ ماسی کے کاشت کے رقبے کو بڑھائیں گے، جس کے بعد شاید اس کی مارکیٹنگ ممکن ہو سکے

انہوں نے کہا ’ہمیں دیکھ کر کئی اور لوگ بھی اس کی کاشت کو بڑھائیں۔ جس کے بعد ممکنہ طو ر پر آم سارا سال دستیاب ہو سکے گا۔ ابھی تو فی الحال یہ ہماری اپنی ضرورت اور شوق ہی پورا کر رہا ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close