ایک تصویر، جس کے پیچھے چھپی کہانی رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے

ویب ڈیسک

یہ تصویر دیکھ کر آپ کے ذہن میں کیا خیال آتا ہے؟ اس تصویر کی کہانی انتہائی حیران کن اور رونگٹے کھڑے کردینے والی ہے.. یہ کہانی ہے یکم مئی 1947ع کی

یہ تصویر اس وقت فوٹوگرافی کی تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلم رابرٹ وائلس نے لی تھی اور سات عشروں بعد بھی یہ چند معروف ترین تصاویر میں سے ایک ہے

کیا آپ اس تصویر کے پیچھے چھپی وجہ سمجھنے میں کامیاب ہوئے؟ ویسے اسے دیکھ کر جاننا بہت مشکل ہے کہ اس تصویر کو اب تک کیوں یاد کیا جاتا ہے

چلیں اس تصویر کا عنوان آپ کو حقیقت بتادے گا اور وہ ہے ‘دنیا کی سب سے خوبصورت خودکشی یا دی موسٹ بیوٹی فل سوسائیڈ’۔

جی ہاں.. یہ تصویر خودکشی کرنے والی خاتون کی ہے اور وہ بھی نیویارک کی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی چھیاسویں منزل سے چھلانگ لگا کر، مگر حیران کن طور پر اتنی بلندی سے نیچے گرنے پر بھی ایسا نہیں لگتا کہ یہ خاتون مرچکی ہیں یا جسم کو نقصان پہنچا ہے

22 مئی 1947کو ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کے آبزرویشن ڈیک سے لی گئی تصویر

اس تصویر میں موجود خاتون ایویلین میک ہیل جنہوں نے تیئیس سال کی عمر میں اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کیا

اس خاتون کی زندگی یا آخری گھنٹوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں، بس یہ معلوم ہے کہ ان کا تعلق کیلیفورنیا کے علاقے بارکلے سے تھا جو ماں باپ کی علیحدگی کے بعد باپ اور بہن بھائیوں کے ہمراہ نیویارک منتقل ہوئیں

وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ویمن آرمی کور میں شمولیت اختیار کی اور پھر اسے چھوڑ کر ایک کمپنی میں بک کیپر بن گئیں، مگر خودکشی کیوں کی

بس یکم مئی کو یہ خاتون ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ گئی اور 86ویں منزل پر آبزرویشن ڈیک سے نیچے چھلانگ لگا دی اور اس کے بعد پولیس نے ایویلین کا آخری خط 86ویں منزل پر ان کے صفائی سے فولڈ کیے گئے کوٹ سے دریافت کیا جس پر لکھا تھا ‘میں اب مزید اپنے خاندان کو اپنی زندگی کا حصہ نہیں دیکھنا چاہتی، کیا آپ میرے جسم کو جلا کر ختم کرسکتے ہیں؟ میں آپ سے اور اپنے خاندان سے بھیک مانگتی ہوں کہ میرے مرنے کے بعد آخری رسومات یا مجھے یاد کرنے کی کوشش نہ کریں۔ میرے منگیتر نے مجھ سے جون میں شادی کا کہا، مگر مجھے نہیں لگتا کہ میں کسی کی اچھی بیوی بن سکتی ہوں، وہ میرے بغیر زیادہ اچھی زندگی گزار سکے گا۔ میرے والد کو کہہ دینا کہ میرے اندر میری ماں کی متعدد چیزیں موجود ہیں’

ایویلین کی لاش کی شناخت ان کی بہن ہیلن نے کی اور آخری خواہش کے مطابق آخری رسومات کی بجائے لاش کو جلادیا گیا

یہ تصویر خاتون کی خودکشی کے چار منٹ بعد لی گئی اور اسے دنیا کی سب سے خوبصورت خودکشی قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ ایک بار جب اس تصویر کو دیکھتے ہیں تو نظر ہٹانا مشکل ہوتا ہے

تصویر میں محسوس ہوتا ہے کہ ایویلین آرام کرتے ہوئے اوپر دیکھ رہی ہے یا قیلولہ کررہی ہے، ایسا لگتا ہی نہیں کہ وہ مری ہوئی حالانکہ وہ ایک گاڑی کے اوپر گری تھی جو بری طرح دب گئی تھی، شیشے ٹوٹے تھے

مگر تصویر میں خاتون نے ہاتھ میں موتیوں کا ہار ہار پکڑا ہوا ہے اور جسم ایسے انداز سے پڑا ہوا ہے جیسے آرام کرتے ہوئے یا نیند کے دوران ہوتا ہے

جب یہ خاتون نیچے گاڑی سے ٹکرائی تو ایک زوردار دھماکا ہوا جس کو سن کر فوٹوگرافر بھاگا ہوا آیا اور اس تصویر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیا

خاتون کے گرنے سے گاڑی بری طرح تباہ ہوئی

یہ تصویر 12 مئی 1947 کو لائف میگزین میں پکچر آف دی ویک کے طور پر شائع ہوئی اور پھر متعدد جرائد میں اسے شائع کیا گیا جبکہ اب بھی اسے استعمال کیا جاتا ہے جیسے ٹیلر سوئفٹ کے ایک البم میں اسے استعمال کیا گیا

یعنی ایویلین کی آخری خواہش مر کر بھی پوری نہیں ہوئی کہ اسے یاد نہ رکھا جائے بلکہ اس کا نام و نشان مٹا دیا جائے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close