ناسا کی جیمز ویب نامی خلائی دوربین اپنی لانچ کے ایک ماہ بعد دس لاکھ میل کا سفر طے کر کے اپنی آخری منزل پر پہنچ گئی ہے
25 دسمبر کو فرانسیسی گیانا سے اڑان بھرنے والی یہ دوربین پیر کو چاند سے آگے ’ایل 2‘ نامی اپنے آخری پارکنگ اسپاٹ پر پہنچ چکی ہے
اس مقام سے یہ خلائی دوربین ایکو پلانیٹس کو دیکھے گی، جو ہمارے نظام شمسی سے باہر کی دنیا میں ہیں، اور نظام شمسی کے اندر سیاروں اور ستاروں کا مشاہدہ بھی کر سکے گی
واضح رہے کہ یہ دوربین ناسا کی قیادت میں یورپین اسپیس ایجنسی اور کینیڈین اسپیس ایجنسی کا مشترکہ بین الاقوامی پروجیکٹ ہے اور اس کا نام 1961ع سے 1968ع تک ناسا کے منتظم جیمز ای ویب کے نام پر رکھا گیا ہے، جو چاند پر بھیجے جانے والے اپالو مشنز کے اہم رکن تھے
گرین بیلٹ، میری لینڈ میں ناسا کے گوڈارڈ اسپیس فلائٹ سینٹر میں سینئر پروجیکٹ سائنسدان جان ماتھر کے مطابق یہ دوربین ہمارے نظام شمسی میں سمندری دنیاؤں کی جانچ کرے گی، جیسے کہ مشتری کا چاند یورپا اور زحل کا چاند ٹائٹن
دس ارب ڈالر کی یہ دوربین انفراریڈ روشنی میں مشاہدہ کرتی ہے۔ جون میں مکمل طور پر کام شروع کرنے سے پہلے اس کے آئینے سیدھے ہونے چاہیں اور اس کے انفراریڈ ڈیٹیکٹرز کو ٹھنڈا ہونا چاہیے
دوربین کے ڈیزائن میں اپنے دیو قامت آئینوں اور آلات کو سورج کی شعاعوں سے بچانے کے لیے پانچ پرتوں والی سن شیلڈ شامل ہے، کیونکہ انہیں چلانے کے لیے درجہ حرارت کا منفی 370 ڈگری فارن ہائیٹ ہونا ضروری ہے
ناسا کے منتظم بل نیلسن نے ایک بیان میں کہا: ’ہم کائنات کے اسرار سے پردہ اٹھانے کے ایک قدم قریب ہیں۔ اور میں اس موسم گرما میں جیمز ویب کے بھیجے گئے کائنات کے مناظر دیکھنے کا انتظار نہیں کر سکتا!‘
دس لاکھ میل سے زیادہ کے فاصلے پرموجود یہ دوربین، جس کو ہبل خلائی دوربین کا جانشین سمجھا جاتا ہے، چاند سے چار گنا زیادہ دور ہے اور مرمت کے لیے بہت زیادہ ہی دور ہے
دوربین سورج کے گرد چکر لگاتے ہوئے زندگی کی کسی بھی اجنبی علامات کے لیے کائنات کو اسکین کر سکے گی
ویب کی پوزیشن کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر موجود ٹیمیں ڈیپ اسپیس نیٹ ورک کے ذریعے اس سے بات چیت کر سکیں گی، جو آسٹریلیا، اسپین اور کیلیفورنیا میں تین انٹینا گراؤنڈ سٹیشن استعمال کرتا ہے.