قیام پاکستان کے بعد ملیر (اربن) کی مختصر تاریخ

سید علی عمران

مہرولی مغربی دہلی میں واقع ایک قدیمی بستی ہے. تحریک پاکستان میں مہرولی والوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا مگر قیام پاکستان کے فوراً بعد اس سے پہلے کہ یہ لوگ پاکستان جاتے، ہندوؤں نے ان پر حملہ کر دیا اور مکانات کو آگ لگا دی. یہ لوگ اپنے گھروں سے اس طرح سے نکلے کہ کسی کے پاؤں میں چپل تک نہ تھی اور عورتوں کے پاس چادر تک موجود نہ تھی. یہ سارے لوگ بھاگ کر خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار میں بیٹھ گئے اور کئی دن مزار پر ہی گزارے. جب حالات قدرے بہتر ہوئے تو یہ لوگ چھپتے چھپاتے مزار سے ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے اور پورے ایک دن اسٹیشن میں چھپے بیٹھے رہے. جب ٹرین آئی تو وہ پہلے سے ہی بھری ہوئی تھی، بڑی مشکل سے سب ٹرین میں گھسے. ایک اسٹیشن پر ٹرین کی رفتار تھوڑی ہلکی ہوئی تو باہر کا منظر دیکھ کر سب کی سانسیں رک گئیں کیونکہ اسٹیشن پر پہلے ہی سکھ تلوار اور خنجر لئے اس انتظار میں کھڑے تھے کہ ٹرین رکے تو اس میں گھس کر حملہ کر دیں. مگر ٹرین رکی نہیں اور پھر تیزی سے آگے بڑھ گئی جس پر سب نے سکون کا سانس لیا. ایک عورت کا بچہ بھوک اور پیاس میں مر گیا تھا مگر اس نے کسی کو نہیں بتایا اور پورے راستے بچے کو اپنی گود میں ہی رکھا جب لاہور آیا تو اسے اسٹیشن پر ہی دفنا دیا گیا

جب بھوک اور پیاس کے عالم میں یہ مسلمان لاہور پہنچے تو پہلے سے ہی موجود رضاکار اور عوام روٹی اور پانی لے کر موجود تھے۔ ٹرین سے اتر کر اپنی سرزمین پر جو جذباتی مناظر تھے، وہ عجیب تھے۔۔ کوئی مٹی اپنے سر پر ڈال رہا تھا، کوئی زمین پر سجدے میں گرا ہوا تھا اور کوئی آسمان کی طرف دیکھ دیکھ کر رو رہا تھا. غرض ہر شخص خوشی سے دیوانہ ہو رہا تھا.

مہرولی کے کچھ خاندان تو براہ راست کراچی آ گئے اور کچھ ملتان لاہور اور دیگر شہروں میں رکتے رکاتے کراچی تک پہنچے. مہرولی کے تمام لوگ کراچی میں موجود مختلف علاقوں میں قائم جھگیوں میں رہائش پذیر ہوئے۔

1948ع کے شروع میں مہرولی سے آنے والوں میں سے ایک آدمی ملیر کے علاقہ، جسے ملیر مندر کہا جاتا ہے، میں آیا تو اسے پتہ چلا کہ یہاں ہندوؤں کے بہت سارے گھر ہیں اور وہ حال ہی میں اپنے گھر چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے ہیں. اس شخص نے واپس آ کر اپنے خاندان والوں کو بتایا اور یوں ایک ایک کر کے سارے مہرولی والے ملیر مندر کے علاقے میں ہندوؤں کے گھروں میں رہائش پذیر ہوتے چلے گئے. یوں ملیر میں مہاجرین کی پہلی بستی مہرولی والوں کی صورت میں ملیر مندر کے علاقے میں قائم ہوئی.

اس علاقے میں مہرولی دہلی والوں کے علاوہ ہندوستان کے دیگر شہروں کے لوگ بھی آ کر آباد ہوئے. یہ آبادی ’ملیر 15‘ سے ’مولارام کمپاؤنڈ‘ تک اور ’مولارام کمپاؤنڈ‘ سے ’دولت رام بلڈنگ‘ کے اطراف تک، جس میں ایک بڑا مندر بھی تھا اور اسی کی مناسبت سے یہ پورا علاقہ ’ملیر مندر‘ کہلانے لگا۔ اس آبادی کو دو حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے، ایک ’رام باڑی‘ کا علاقہ اور دوسرا ’دولت رام بلڈنگ‘ کا علاقہ۔

رام باڑی کی بلڈنگ ملیر15 کے اسٹاپ سے میمن گوٹھ روڈ پر ’ثمینہ بک کارنر‘ کے پاس بنی ہوئی ہے. یہ بلڈنگ دراصل اس زمانے میں مندر آنے والوں کا گیسٹ ہاؤس ہوا کرتی تھی۔ جبکہ اس علاقے کا پرانا نام ’شیری عام وادی‘ تھا. اسی بلڈنگ کے پیچھے گوشت مارکیٹ کا علاقہ ہے اور تھوڑا سا آگے جاکر مولارام کمپاؤنڈ ہے، جس کے ایک گھر میں سمادھی بھی بنی ہوئی ہے۔

دولت رام بلڈنگ ایک بہت بڑے ہندو سیٹھ کی حویلی تھی، جو اس کے نام پر دولت رام بلڈنگ کے نام سے آج بھی مشہور ہے۔ ہندو سیٹھ دولت رام خود تو ہندوستان چلا گیا مگر اپنے ایک نوکر کو وہیں پر چھوڑ گیا تھا۔ کچھ دنوں بعد نوکر کو سیٹھ کا پیغام آیا کہ تم بھی ہندوستان چلے آؤ کیونکہ ہمیں اس حویلی سے بھی زیادہ بڑی سجی سجائی مسلمانوں کی حویلی کلیم میں مل گئی ہے۔ دولت رام بلڈنگ سے آگے کھیتوں تک بھی ہندوؤں کے بہت سارے مکانات تھے اور خود مندر کے اندر بھی بہت سارے مکانات تھے۔ ان سب پر بھی آہستہ آہستہ ہندوستان سے آئے ہوئے مسلمان رہائش پذیر ہوتے گئے.

یہ آبادی کا آخری کونا تھا اور اس کے بعد کھیت شروع ہو جاتے تھے، جو بہت دور تک چلے جاتے تھے. اسی لیے ہندوؤں نے یہاں پر اپنے گودام بنائے ہوئے تھے. کچھ خاندان انہی گوداموں میں آ کر رہائش پذیر ہوئے، جو کہ رہائش کے لئے کسی بھی طرح سے موزوں نہیں تھے. کچھ لوگوں نے حاصل ہونے والی زمین پر اپنی جھگیاں ڈال دیں۔

بعد میں ستم یہ ہوا کہ پورے ملیر مندر کے علاقے میں قیام پذیر مہاجرین میں سے بہت کم لوگوں کو یہ گھر کلیم میں ملے، کچھ تو کاغذات ساتھ نہیں لائے تھے اور کچھ کی کلیم کی زمین مختلف شہروں میں نکل آئی تھیں. اس وجہ سے اکثر لوگوں کو اپنے قبضہ میں موجود مکانات اور زمین کو ان کے نئے مالکان سے خریدنا پڑا.
جس کو جہاں جگہ الاٹ ہوئی، وہ سر چھپانے کے لیے وہیں بیٹھ گیا۔ کیمپوں سے لوگوں نے کچے مکانات بنانا شروع کیے گھروں کی تعمیر کے لئے اکثر لوگ خود اپنے ہاتھوں سے مٹی کی کچی اینٹیں تیار کرتے اور گھروں کی چھتیں چٹائیوں سے یا ٹین سے بناتے۔ دروازے کھڑکیاں لگانے کے اگر پیسے نہیں ہوتے تو ٹاٹ کی بوریوں سے پردے بنا کر لگا دیتے۔ چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے کھلے گھر میں خواتین کے پردے کے انتظام کے لئے ایسی بیلوں کے پودے زمین میں لگائے جاتے، تاکہ یہ بیلیں پھیل جانے کے بعد پردے کا کام کریں۔ بجلی اور گیس کا کوئی تصور نہ تھا اس وقت۔ مگر کسی شخص کے لبوں پر کوئی گلہ نہیں تھا۔ ہر آدمی حب الوطنی سے سرشار اپنی اپنی جھونپڑیوں میں خوش تھا۔ کسی نے اپنے ماضی کی بہترین زندگی کے بارے میں کوئی رونا پیٹنا نہیں مچایا۔

محترمہ فاطمہ جناح نے 1951ع میں سید محمد حسین قادری کی مدد سے ماڈل کالونی کی زمین کی الاٹمنٹ کروائی۔ پھر اس وقت کے ٹاؤن پلانر مکی صاحب کے ذریعے اس کا لے آؤٹ بنوایا اور اس کا نام ماڈل مہاجر کالونی تجویز کیا. اس کالونی کو ائیر پورٹ کے نزدیک اور دارالخلافہ کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا. یہ دراصل آفیسرز کالونی بننی تھی.

ماڈل کالونی کو مختلف بلاکس میں بانٹا گیا اور ان بلاکس کو شیٹ کا نام دیا گیا. جس کو بھی مکی صاحب پرچی بنا کر دے دیتے تو اسے ماڈل کالونی میں پلاٹ الاٹ ہو جاتا تھا. ماڈل کالونی میں سب سے پہلے آبادی مین روڈ سے شروع ہوئی، جہاں آج کل ’سیکنڈ وائف ریسٹورنٹ‘ موجود ہے۔ اس کی دو شیٹیں ایسی ہیں، جو دراصل ہندوؤں کی پراپرٹی تھی اور متروکہ جائیداد کہلاتی ہے. یہ کلیم میں مہاجرین کو ملنی تھی مگر اس کا اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا، اس لیے یہ دونوں شیٹیں کبھی بھی لیز نہیں ہو سکتیں. کیونکہ متروکہ جائیداد کو سرکار فروخت کرنے کی مجاز نہیں.

1980ع تک یہ کالونی بڑی بڑی شخصیات کا مسکن تھی مگر پھر یہاں سے لوگ کراچی میں دوسری جگہوں پر منتقل ہوتے چلے گئے لیکن آج بھی ماڈل کالونی پورے ملیر کا معتبر ترین علاقہ مانا جاتا ہے. نامور ٹیسٹ کرکٹر سعید انور اور راشد لطیف کا بھی اسی علاقے سے تعلق ہے. ماڈل کالونی میں کراچی کے ٹاپ کے تمام کوچنگ سینٹرز ایک ہی روڈ پر موجود ہیں. یہ ملیر میں تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز ہے، جس کی وجہ سے شام کے اوقات میں صرف طلبہ و طالبات ہی روڈ پر نظر آتے ہیں. اسی لئے اس جگہ کو ’ملیر کا علی گڑھ‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا.

ملیر مندر اور ماڈل کالونی کے بعد ملیر میں مہاجرین کو آباد کرنے کے لیے مزید کواٹرز بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کوارٹرز دینے کے لیئے پہلے ملیر میں دو جگہ پر شیڈ بنائے گئے. ایک موجودہ لیاقت مارکیٹ کے پیچھے اور دوسرا موجودہ ملیر 15 سے تھوڑا سا آگے جا کر محبت نگر کے پاس۔ یہ شیڈ دراصل بڑے بڑے ہال ہوا کرتے تھے۔ ان کی چھتیں بہت بلند ہوتیں تھیں اور اندر بہت سارے خاندان رہا کرتے تھے جو اپنے ہی لگائے ہوئے پردوں سے ایک دوسرے سے الگ ہوتے تھے۔ گرمیوں کے زمانے میں اندر شدید حبس اور گرمی ہوتی تھی کہ لوگوں کے چہرے کملا جاتے تھے۔ شیڈوں میں واش روم بالکل باہر بنے ہوئے تھے، جس میں لمبی لمبی مردوں اور عورتوں کی الگ الگ لائنیں ہوتیں تھیں۔ بہت سارے شہروں اور برادریوں کے لوگ ان لائنوں میں ہی ایک دوسرے کو ملے.

سرکار کی پالیسی یہ تھی کہ جیسے جیسے کوارٹرز بنتے جائیں گے، شیڈو میں موجود لوگوں میں تقسیم ہوتے جائیں گے اور ان کی جگہ نئے لوگ شیڈو میں آتے جائیں گے۔ اس لیے کوارٹر کے حصول تک شیڈو میں رہنا لازمی تھا۔ شیڈو میں مخصوص شہروں کے لوگ ایک ساتھ مل جاتے اور اسی لئے ملنے والے کوارٹرز میں مخصوص خاندان اور شہر کے لوگ پوری پوری گلیوں میں ایک ساتھ آباد ہوئے۔ یہ کوارٹرز ترتیب وار مختلف بلاکس میں بنائے گئے تھے اور ہر بلاک کو A سے لے کر G تک کے ایریا میں تقسیم کیا گیا تھا. تمام ایریاز کی تعمیر تقریباً ایک ساتھ شروع ہوئی۔ سب سے پہلے اے ایریا میں مہاجرین کو بسانا تھا مگر کچھ مسائل کی بنا پر پہلے B ایریا آباد ہوا اور اس کے بعد A ایریا آباد ہوا. A اور B ایریا سے پہلے یہاں کھجور کے باغ تھے، جو پانی کی کمی کی وجہ سے سوکھتے جا رہے تھے۔ ان سوکھے ہوئے کھجور کے درختوں کو ہی کٹوا کر زمین ہموار کرنے کے بعد کوارٹرز بنائے گئے۔ سرکار ان کوارٹرز میں ایک کمرہ اور ایک صحن دیتی تھی، جب کہ باورچی خانے اور باتھ روم کی جگہ چھت اور دیوار بنا کر چھوڑ دی جاتی تھی، جسے خود ہی بنایا جاتا تھا۔ بس یہ کوارٹرز کیا تھے، ایک سر چھپانے کا آسرا تھے۔

1954 میں H ایریا کو بسایا گیا۔ 1972 میں شہدائے اردو کی یاد میں اس علاقے میں ایک اردو چوک بنایا گیا، جس کی مناسبت سے یہ خاص علاقہ ایچ ایریا کا حصہ ہونے کے باوجود اردو نگر کہلانے لگا ۔ ایچ ایریا کے بعد کچھ عرصے کے لیے کوارٹرز میں منتقلی رک گئی اور شیڈو میں رہنے والے لوگ کچھ عرصے کے لیے شیڈو میں ہی رہے اور ملیر میں مہاجرین سے آباد ہوا علاقہ ملیر مہاجر کالونی کہلانے لگا. کیونکہ برصغیر دو صدیوں تک انگریزوں کی کالونی رہا تھا، اس لیے یہ کالونی کا لفظ معاشرے میں بھی عام ہو گیا تھا. مگر کثرت استعمال سے اس میں سے مہاجر نکل گیا اور یہ صرف ملیر کالونی ہو گیا اور اسی نام سے مشہور ہوا. اس کے بعد اسی علاقے میں 1955 میں شاہ سعود نے ایک بستی کی بنیاد رکھی، جو آج ’سعود آباد‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس زمانے میں ملیر کالونی سعوداباد پر آکر ختم ہوجاتی تھی۔ ساری بسیں بھی سعودآباد تک ہی آتیں تھیں. 1957 میں اس بستی کی توسیعی کی ضرورت محسوس ہوئی اور یوں ملیر توسیعی کالونی وجود میں آئی جو موجودہ سعود آباد کے قبرستان سے لے کر چمن کالونی ندی کے کنارے تک بنائی گئی. اس میں کوارٹرز تو بن گئے تھے مگر پانی نہ ہونے کی وجہ سے کوئی رہائش اختیار نہیں کر رہا تھا، جس کی وجہ سے یہ کوارٹرز ویران پڑے ہوئے تھے.

1958 میں جب ایوب خان کی حکومت آئی تو جنرل اعظم خان نے اس جگہ فوری طور پر پانی کی سہولت فراہم کر دی. یوں یہ کوارٹرز آباد ہونا شروع ہوئے ان کوارٹرز میں اولین آنے والوں میں رن آف کچھ سے آئے ہوئے مہاجرین تھے، جنہیں کچھی بھی کہا جاتا ہے. ان کچھیوں کی یہاں پر خاصی تعداد تھی اور یہ لوگ ندی کے کنارے سے آباد ہونا شروع ہوئے. یہ تمام لوگ کھوکھراپار کی سرحد پار کر کے پاکستان میں داخل ہوئے تھے. جب یہ افراد ملیر توسیعی کالونی میں پہنچے تو ان کو یہاں بھی کھوکھراپار کے بارڈر کی طرح بے آب و گیاہ ریتیلا صحرا نرم بھربھری ریت کے ٹیلے جو اپنی جگہ تبدیل کرتے رہتے تھے نظر آئے، تو ان کچھی مہاجرین نے کھوکھراپار کی اس مماثلت کی وجہ سے اس علاقے کو بھی کھوکھراپار کہنا شروع کر دیا اور یہی نام پھر آگے جا کر رائج ہو گیا.

1958 میں جب جنرل اعظم خان نے کھوکھراپار میں کوارٹرز کو آباد کروانا شروع کیا تو اسی زمانے میں ناظم آباد 4 نمبر پر ریلیکس سنیما کے پاس 1200 جھونپڑیوں میں آگ لگنے کے نتیجے میں ساری جھونپڑیاں جل کر ختم ہو گئیں، جس کی وجہ سے جنرل اعظم خان نے ان تمام متاثرین کو بھی کھوکھراپار نمبر 5 کے اے ایریا میں لاکر آباد کر دیا. کھوکھراپار میں سب سے زیادہ رن آف کچھ، کانپور, بلند شہر، حیدرآباد دکن، لکھنؤ، مظفرنگر، متھرا، بہار، بجنور، آگرہ، اٹاوا، فیض آباد اور دیگر شہروں کے لوگ آ کر آباد ہوئے.

کھوکھراپار نمبر1 لال کوارٹرز میں 1962 سے کواٹرز الاٹ ہونا شروع ہوئے. ان میں زیادہ تر کوارٹرز لال اینٹوں سے بنائے گئے تھے، اس لئے انہیں لال کوارٹرز بھی کہا جاتا تھا.

کھوکھرا پار کی تعمیر کے ساتھ ہی 60-1959 میں ایف ساوتھ کے کوارٹرز بھی تیار ہوگئے. جن کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک حصہ ڈبل اسٹوری اسکول سے لے کر جناح اسکوائر تک اور دوسرا حصہ جناح اسکوائر سے جعفر طیار سوسائٹی تک تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ روڈ کے دوسری طرف جی ایریا سے لیاقت مارکیٹ تک کا علاقہ بھی اسی زمانے میں آباد ہوا. اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور آبادیاں بھی بنتی گئیں جن میں صابر کالونی معین آباد، علیم آباد وغیرہ شامل ہیں.

ملیر چونکہ ایک زرعی علاقہ تھا مگر اس کا پورا انحصار بارشوں پر تھا۔ جیسے جیسے بارشوں میں کمی آتی گئی پانی کے مسائل بڑھتے رہے اور نتیجتاً کاشتکار زمین چھوڑ کر پیچھے ہوتے چلے گئے۔ یوں یہ خالی زمین کاشتکاروں نے فروخت کرنا شروع کر دی جس سے پرائیویٹ سوسائٹیاں وجود میں آنا شروع ہوئیں. یہ کام دراصل 1970ع کے عشرے کے اوائل سے شروع ہوا. اس طرح جعفر طیار سوسائٹی, درخشاں سوسائٹی, الفلاح سوسائٹی, باغ ملیر, کوثر ٹاؤن اور پاک کوثر ٹاؤن کی سوسائٹیز وجود میں آئیں اور اب یہاں پر بہت بڑی تعداد میں لوگ رہائش پذیر ہیں. ان سوسائٹیز کا معیار زندگی کافی بلند اور شرح خواندگی 90 فیصد سے زیادہ ہے.

جب کوارٹرز کی تعمیر کا کام ختم ہوگیا تو آخری لوگ جو شیڈو میں تھے، وہ شیڈو میں ہی رہ گئے. اور پھر وہ ایک طویل عرصے تک شیڈو میں ہی رہتے رہے. لہٰذا ان کو بسانے کے لیے 1982 میں صدر ضیاء الحق کے زمانے میں کھوکھراپار کے پیچھے اور صابر کالونی کے برابر میں مدینہ کالونی کے نام سے ایک بستی بسانے کا فیصلہ کیا. 1986 میں یہ آباد ہونا شروع ہوئی اور اب یہ ایک گنجان آباد علاقہ ہے.

(نوٹ: کسی بھی بلاگ یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close