ٹوکیو – یہ کہانی ہے آج سے ٹھیک پچاس برس پہلے کی، جب ایک جاپانی فوجی کو دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے لگ بھگ تین عشروں بعد گوام کے جنگلوں سے صحیح سلامت تلاش کر لیا گیا
جنگ کے ختم ہونے کے بعد اٹھائیس برس تک دشمن کے خوف سے جنگل میں چھپ کر زندگی گزارنے والے اس فوجی کی جاپان واپسی پر ایک ہیرو کی طرح گرم جوشی سے پذیرائی کی گئی اور اسے خوش آمدید کہا گیا، لیکن وہ دوبارہ اس جدید معاشرے میں کبھی بھی معمول کی زندگی بسر کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا
ان اٹھائیس سالوں کے دوران گوام کے جنگلات میں چھپے جاپانی فوج کے لانس کارپورل شوئچی یوکوئی کو اس بات کا قوی یقین تھا کہ اُس کے ساتھی ایک دن اُسے ڈھونڈتے ہوئے ادھر ضرور آئیں گے
جب 24 جنوری 1972ع کو بحرالکاہل کے ایک جزیرے سے مقامی شکاریوں نے شوئچی یوکوئی کو ڈھونڈ نکالا تو اُس وقت بھی ستاون سالہ سابق فوجی کے ذہن میں یہی بات گھر کیے ہوئے تھی کہ اُس کی زندگی خطرے میں ہے
یوکوئی کے بھانجے اومی ہاتاشن کا کہنا ہے کہ، شکاریوں کو دیکھ کر وہ بہت زیادہ گھبرا گیا تھا
تیس برس کے وقفے کے بعد اپنے جیسے دیگر انسانوں کی جھلک دیکھ کر وہ چونک گیا تھا، کیونکہ اس نے کئی برسوں سے کسی انسان کو نہیں دیکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے شکاریوں کی رائفل پکڑنے کی کوشش کی، لیکن برسوں سے غیر صحت مند غذا کھانے کے باعث وہ کمزور پڑ گیا تھا اور اس میں مقامی افراد کا مقابلہ کرنے کی سکت باقی نہیں بچی تھی
ہاتاشن کے مطابق ”اسے ڈر تھا کہ شکاری اسے بطور جنگی قیدی گرفتار نہ کر لیں، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ بطور جاپانی فوجی اور جاپان میں اس کے خاندان کے لیے شرمندگی کی بات ہوتی۔“
جب وہ شکاری یوکوئی کو جنگل کی گھنی گھاس کے درمیان سے لے جا رہے تھے، تو یوکوئی اُن کی منتیں کر رہا تھا کہ وہ اسے یہیں ہلاک کر دیں، مگر قیدی نہ بنائیں
ہاتاشن نے اپنے چچا یوکوئی کے مل جانے کے دو سال بعد جاپان میں اُس کی بازیابی کی ڈرامائی کہانی بتانے کی کوشش کی ہے۔ اس میں ان شکاریوں کی جانب سے بیان کیا گیا آنکھوں دیکھا حال بھی موجود ہے، جنہوں نے اسے ڈھونڈ نکالا تھا
یوکوئی کی کہانی پر مبنی ہاتاشن کی کتاب ’پرائیویٹ یوکوئیز وار اینڈ لائف ان گوام 1944-1972‘ انگلش ترجمے کے ساتھ سنہ 2009ع میں شائع ہوئی تھی
ہاتاشن بتاتا ہے کہ ’مجھے اُس پر بہت فخر ہے۔ وہ ایک شرمیلا اور خاموش انسان تھا اور اس کی شاندار شخصیت تھی۔‘
جولائی 1944ع میں یوکوئی کا یہ تھکا دینے والا طویل سفر تب شروع ہوا، جب بحر الکاہل میں جاپان کے خلاف اپنی جارحیت کے تسلسل میں امریکی افواج نے گوام پر حملہ کر دیا تھا
اس خونریز لڑائی میں دونوں جانب ہلاکتیں ہوئیں۔ لیکن جب جاپانی کمانڈ منتشر ہو گئی تو یوکوئی اور اُن کی پلاٹون کے دوسرے فوجی اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت دشمن کے تابڑ توڑ حملوں سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے
ہاتاشن کے مطابق ’پہلی بات تو انھوں نے پکڑے جانے کے خوف کے مدِنظر بہت زیادہ احتیاط برتی۔ وہ جنگل میں نقل و حرکت کے دوران اپنے پیروں کے نشان تک مٹا دیتے تھے تاکہ کوئی ان کا پیچھا کرتے کرتے وہاں نہ پہنچ پائے۔‘
ابتدائی دنوں میں پیچھے رہ جانے والے جاپانی فوجی، جو گنتی میں محض چند درجن رہ گئے تھے، مقامی مویشیوں کو پکڑ کر ہلاک کر کے اپنی خوراک کا بندوبست کرتے تھے
پہلے انہیں امریکی فوجیوں کی جانب سے پکڑے جانے کا خوف تھا اور بعد میں وہ مقامی شکاریوں کے خوف سے بھاگ رہے تھے۔ اس دوران وہ جنگل میں مزید گہرائی میں داخل ہوتے جا رہے تھے
وہاں وہ زہریلے مینڈک، دریائی بام مچھلی اور چوہے کھاتے تھے
یوکوئی نے جنگلی جھاڑیوں کی مدد سے بام مچھلی پکڑنے کا جال بھی بنا لیا تھا۔ اس نے بانس کی لکڑی کی مدد سے اپنے لیے ایک انڈر گراؤنڈ شیلٹر یعنی زیرزمین پناہ گاہ کھود لی تھی
ہاتاشن کا کہنا ہے کہ ’وہ ایک انتہائی کارآمد انسان تھا۔‘
اس کے مطابق اپنے آپ کو بہت زیادہ مصروف رکھنے کی وجہ سے وہ خود کو درپیش مشکلات، خاندان اور گھر کی یاد کے بارے میں سوچنے سے بچ گیا تھا
یوکوئی نے چھپے رہنے کے دوران یادداشتیں لکھی تھیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس مشکل گھڑی میں بھی امید ہارنے کو تیار نہیں تھا
خاص کر وہ آٹھ سال جب وہ بالکل تنہا تھا۔ اس کے ساتھ زندہ رہ جانے والے آخری دو ساتھی سنہ 1964ع میں جنگل میں آنے والے سیلابوں میں ہلاک ہو گئے تھے
گھر میں اپنی معمر والدہ کو یاد کرتے ہوئے ایک بار اس نے لکھا کہ ’ان چیزوں کے بارے میں سوچ کر اپنے دل کو تکلیف پہنچانا بے مقصد ہے۔‘
ایک اور موقع پر جب وہ جنگل میں شدید بیمار ہوگیا تھا، اس نے لکھا کہ ’نہیں! میں یہاں مر نہیں سکتا۔ میں اپنی لاش دشمن تک پہنچنے نہیں دے سکتا۔ مجھے مرنے کے لیے واپس اپنی پناہ گاہ میں جانا ہوگا۔ میں اب تک بچنے میں کامیاب رہا ہوں، لیکن اب میری یہ تمام کوششیں رائیگاں جا سکتی ہیں۔‘
جنگل میں اُس کی دریافت کے دو ہفتے بعد یوکوئی جاپان میں اپنے گھر لوٹا، جہاں اسے ’ہیرو‘ قرار دیا گیا اور فوجی اعزاز کے ساتھ اس کا استقبال کیا گیا
اسے میڈیا نے گھیر لیا تھا جہاں اس کے ریڈیو اور ٹی وی پر انٹرویو کیے جا رہے تھے۔ اسے باقاعدگی سے ملک بھر کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں خطاب کرنے کے لیے بلایا جاتا تھا
اس کا بھتیجا ہاتاشن اس وقت چھ سال کا تھا، جب یوکوئی نے اُس کی خالہ سے شادی کی تھی۔ وہ کہتا ہے کہ سابقہ فوجی کی حیثیت سے یوکوئی جدید جاپان میں اپنی زندگی کو کبھی ڈھال نہیں سکا تھا
جنگ کے بعد ملک میں تیز رفتار معاشی ترقی نے یوکوئی کو متاثر نہیں کیا تھا۔ ایک بار اس نے دس ہزار ین کا نوٹ دیکھ کر کہا ’کیا ملک کی کرنسی کی قدر ختم ہو گئی ہے۔‘
ہاتاشن کے مطابق اس کے چچا کی عمر بڑھنے کے ساتھ اسے ماضی کی یاد ستانے لگی تھی۔ سنہ 1997ع میں اپنی موت سے قبل وہ کئی بار اپنی اہلیہ کے ساتھ گوام واپس گیا تھا
جنگل میں اس کی قیمتی چیزیں، جیسے مچھلی پکڑنے کا جال، اب اس جزیرے کے ایک چھوٹے سے میوزیم میں رکھی گئی ہیں، جو اس کی زندگی کی جدوجہد کی گواہی دے رہی ہیں.