کیا جاوید اقبال مغل واقعی سو بچوں کا قاتل تھا؟

ڈاکٹر خالد سہیل

ایک شام میرے ادیب اور جرنلسٹ دوست مرزا یاسین بیگ کا فون آیا۔ فرمانے لگے میں کینیڈا ون ٹی وی پر ایک نیا پروگرام PRIME TIMEشروع کرنے والا ہوں اور اس پروگرام میں آپ میرے پہلے مہمان ہوں گے۔ میں نے نئے پروگرام کی مبارکباد دیتے ہوئے پوچھا کہ آپ مجھ سے کس سلسلے میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں؟ کہنے لگے پاکستان میں جاوید اقبال مغل پر ایک فلم بنی ہے لیکن ابھی منظر عام پر نہیں آئی۔ آپ نے اس حوالے سے بیس سال پیشتر جاوید اقبال اور سیریل کلرز کی نفسیات کے حوالے سے ایک کتاب۔ اپنا قاتل۔ لکھی تھی جسے مشعل پبلشرز لاہور نے چھاپا تھا۔ وہ کتاب آپ کی انگریزی کتاب THE MYTH OF THE CHOSEN ONE کا ترجمہ تھا۔ آپ جاوید اقبال مغل سے ملنے کینیڈا کا کلینک بند کر کے لاہور کے پھانسی گھاٹ بھی گئے تھے۔ میں آپ کی کتاب کے حوالے سے آپ کا انٹرویو لینا چاہتا ہوں۔ میں راضی ہو گیا۔

انٹرویو میں مرزا یاسین بیگ کے ساتھ کئی اہم اور متنازعہ فیہہ موضوعات پر گفتگو ہوئی میں یہاں صرف دو موضوعات پر اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہوں گا۔

ایک اہم سوال یہ تھا کہ کیا جاوید اقبال سو بچوں کا قاتل تھا؟
میرا جواب تھا کہ نہیں۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ یہ کہ جج کے فیصلہ کی بنیاد سو لاشیں نہیں بلکہ جاوید اقبال کی ڈائری تھی جس میں اس نے سو بچوں کے قتل کا اعتراف کیا تھا۔

میں نے وہ ڈائری پڑھنی شروع کی تو پہلے تو یہ سمجھا کہ وہ حقائق پر مبنی ہے لیکن جوں جوں ڈائری کے اوراق پلٹتا گیا مجھ پر یہ منکشف ہوتا گیا کہ اس ڈائری میں جھوٹ سچ سے اور مبالغہ صداقت سے کہیں زیادہ ہے۔

اس جھوٹ کی ایک مثال ڈائری کا وہ ورق تھا جس میں جاوید اقبال نے ایک قتل کی یہ کہانی لکھی تھی کہ میرا بھتیجا وسیم اپنے دوستوں کے ساتھ ملنے آیا اور ایک لڑکی کو میرے گھر لایا۔ کہنے لگا اس لڑکی سے میرے رومانوی تعلقات تھے پھر وہ گاؤں چلی گئی اب واپس آئی ہے تو کہتی ہے میں حاملہ ہوں۔ یہ لڑکی مجھے بدنام کرنا چاہتی ہے۔ میں اس لڑکی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ ہم نے اس لڑکی کے گلے میں زنجیر ڈال کر پہلے اسے قتل کیا پھر تیزاب کے ڈبے میں ڈال دیا۔

چونکہ میں جاوید اقبال کے بھتیجے وسیم سے اس دن مل چکا تھا جب میں جاوید اقبال کے بھائی پرویز اقبال سے ملنے گیا تھا میں نے وسیم کو فون کیا اور وہ انٹرویو دینے کے لیے تیار ہو گیا۔ وسیم نے بتایا کہ پولیس اسے پکڑ کر لے گئی تھی اور اسے چند دن حوالات میں رکھا تھا۔ اسے مارا پیٹا بھی گیا۔ پولیس نے کہا

کہانی کیا تھی؟
کون سی کہانی؟ وسیم نے کہا
حاملہ لڑکی کی کہانی؟
کس حاملہ لڑکی کی کہانی؟

آخر جب پولیس نے جاوید اقبال کی ڈائری کا ورق دکھایا تو پولیس کو پتہ چلا کہ وہ سب جھوٹ تھا دھوکہ تھا فکشن تھا چنانچہ انہوں نے وسیم کو چھوڑ دیا۔

میں جب جاوید اقبال کا پھانسی گھاٹ میں انٹرویو لے رہا تھا تو وہ رکا اور کہنا لگا
آپ مجھے اپنا ہاتھ دیں

میں چونکا اور میرے ذہن کی سکرین پر اینتھنی ہاپکنز کی فلم THE SILENCE OF THE LAMBS کے سین نمودار ہوئے جس میں سیریل کلر نے اینتھنی ہاپکنز کو اذیت دی تھی۔ میں نے اپنے دل سے پوچھا

کیا جاوید اقبال مجھے نقصان پہنچائے گا؟
میرے دل نے کہا ’نہیں‘
اور میں نے اپنا ہاتھ ایک سیریل کلر کے ہاتھ میں دے دیا۔

اس نے میری انگشت شہادت سے پہلے اپنا سر پھر اپنا جبڑا چھوا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اس کے سر اور جبڑے کے فریکچر ہوئے تھے۔

جاوید اقبال اتنا نحیف و ناتواں تھا کہ وہ مشکل سے چل پھر سکتا تھا ایسے شخص کا سو بچوں کا قتل کرنا کیسے ممکن تھا؟ وہ تو جسمانی اور ذہنی طور پر اس وقت معذور ہو چکا تھا جب وہ بائیس دن ہسپتال میں کوما کی حالت میں رہا تھا۔ سو بچوں کے قتل کی ڈائری اس نے بعد میں لکھی تھی۔

ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ کسی نوجوان کی لاش کو تحلیل کرنے کے لیے بیس سے تیش گیلن تیزاب چاہیے اور سو بچوں کو تحلیل کرنے کے لیے سینکڑوں ہزاروں گیلن تیزاب چاہیے جو کسی عام انسان کی دسترس میں نہیں ہے۔ پھر اس تیزاب کو بہانا اس گنجان آباد علاقے میں ناممکن ہے جہاں وہ رہتا تھا۔

میری نگاہ میں جاوید اقبال مشہور ہونا چاہتا تھا جس کے لیے اس نے ایک بڑی سطح پر ڈرامہ بنایا اور اس ڈرامے میں پولیس عدالت اور میڈیا کو ملوث کیا۔ اس ڈرامے میں وہ کامیاب رہا۔ لیکن یہ کامیابی ایک ذہنی اور جسمانی مریض کی کجی کی کامیابی تھی۔

جب میں نے دوسرے ممالک کے سیریل کلرز کی کہانیاں پڑھیں تو انہوں نے بھی پولیس اور عدالت اور میڈیا کے ساتھ اتنے جھوٹ بولے تھے کہ سچ کا جھوٹ سے جدا کرنا مشکل ہو گیا تھا۔

مرزا یاسین بیگ نے اپنے پرائم ٹائم کے تفصیلی انٹرویو میں جب مجھ سے یہ پوچھا کہ کیا جاوید اقبال نے پھانسی گھاٹ میں خودکشی کی تھی تو میں نے کہا ’نہیں‘

میرے نہ کہنے کی کئی وجوہات تھیں۔

پہلی وجہ یہ تھی کہ جاوید اقبال پھانسی گھاٹ کے جس کمرے میں اپنی زندگی کے آخری دن گزار رہا تھا میں وہ کمرہ دیکھ چکا تھا۔ اس کمرے کی چھت بیس پچیس فٹ اونچی تھی وہاں سے رسی لٹکا کر خود کشی کرنا جاوید اقبال کے لیے ناممکن تھا۔

دوسری وجہ یہ تھی دو انسانوں کا۔ جاوید اقبال اور اس کے ساتھ والے کمرے میں قید ساتھی کا۔ ایک ہی رات ایک ہی وقت خودکشی کرنا ممکن نہیں تھا۔

تیسری وجہ یہ کہ جب میں نے فورنسک رپورٹ پڑھی تو لکھا تھا کہ جاوید اقبال کی لاش پر تشدد کے نشان تھے۔ یہ نشان ان تشدد کے نشانوں کی طرح تھے جو چند ماہ پہلے جاوید اقبال کے ساتھی اسحاق بلا کے جسم پر تھے جو پولیس کی قید میں مر گیا تھا۔ اس پر بھی خودکشی کا الزام لگا تھا اور اس کی لاش پر بھی تشدد کے سترہ نشان تھے۔

میں کینیڈا سے پاکستان جاوید اقبال کی کہانی جاننے گیا تھا لیکن مجھے اندازہ ہوا کہ جاوید اقبال کی کہانی سے ہمارے معاشرے کی بہت سی اور کہانیاں منسلک ہیں۔ مجھے پتہ چلا کہ پاکستان میں ہر روز ۔ نجانے کتنے بچے سکول جاتے ہیں لیکن لوٹ کر نہیں آتے

کتنی مائیں پولیس جاتی ہیں لیکن رپورٹ نہیں لکھوا سکتیں کیونکہ پولیس افسر خطیر رقم مانگتے ہیں جو ان غریب ماؤں کے پاس نہیں ہوتی

کتنے پولیس افسر مجرموں کے دوست اور ساتھی ہیں

کتنے جج جذباتی فیصلے کرتے ہیں

مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ پاکستان میں سینکڑوں ہزاروں لاکھوں بچوں کی زندگی محفوظ نہیں ہے۔

میری نگاہ میں یہ ہماری سماجی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کے لیے ایسا ماحول بنائیں کہ وہ گھروں اور سکولوں ’گلیوں اور درباروں پر محفوظ رہیں اور جاوید اقبال جیسے بیمار ذہن کے انسان ان کا جسمانی جذباتی اور جنسی استحصال نہ کریں۔

نوٹ: ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کا یہ مضمون ہم سب کے شکریے کے ساتھ یہاں شائع کیا گیا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close