ڈیپ سی فشنگ ٹرالرز کا مسئلہ فالفور حل کرنے کی ضرورت تھی، جس کے لیے صوبائی و وفاقی حکومت کو ایمرجنسی بنیادوں پر انہیں واپس بھیج دینا چاہیے تھا. ملک بھر کے ماہیگیر یک آواز ہوکر ڈیپ سی فشنگ ٹرالرز کو مکمل طور پر رد کر چکے ہیں، اس کے باوجود صوبائی و وفاقی حکومتوں کی خاموشی ایسے استحصالی سرمایہ دارانہ عناصر کو تقویت فراہم کر رہی ہے، تیس لاکھ سے زائد ماہیگیروں کو بے روزگار کرنے کا حکومت سوچ بھی کیسے سکتی ہے؟ یہاں حکومتوں نے پچھلے دس سالوں میں دس ہزار لوگوں کو بھی اب تک روزگار فراہم نہیں کیا اور حکومتوں اور ریاستی اداروں کی پالیسی لاکھوں ماہیگیروں کو بے روزگار کرنا کتنی بڑی بےروزگاری کی لہر کی وجہ بن سکتی ہے،
دوسری جانب بیٹھے بٹھائے وفاقی حکومت نے سندھ اور بلوچستان کے تمام جزائر پر اپنی سرپرستی قائم کرنے کے لیے ایک آرڈیننس جاری کرتے ہوئے لاکھوں ماہیگیروں ، ماہیگیر رہنماؤں ، ماہیگیر تنظیموں ، مقامی آبادیوں ، مقامی حکومتوں ، شہری و صوبائی حکومتوں کو یہ باور کرادیا ہے کہ حکومت کے فیصلے مظلوم طبقات کو طاقتور بنانے کے لیے نہیں، ناہی انسانی بنیادی حقوق کے حصول کے لیے کیے جاتے ہیں بلکہ ان فیصلوں کا خالصتاً مقصد صرف اور صرف امیر کو امیر ترین، طاقتور کو مزید طاقتور اور غریب و مظلوم طبقات کو مزید غریب کرنا ہوتا ہے.
یہ بھی پڑھیں
جزائر ماہیگیروں کی ملکیت ہیں اور ان پر پہلا اور آخری حق بھی ماہیگیروں کا ہی بنتا ہے، انہیں دیوار سے لگاتے ہوئے اس طرح کی روش کسی بھی جمہوری حکومت کا شیوہ نہیں ہو سکتی، حکومت اور ریاستی اداروں کو اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا. سرمائے اور کمیشن کی چمک نے انہیں دیکھنے، سوچنے اور یہ سمجھنے سے محروم کر دیا ہے کہ انہیں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچانے والے یہی عوام ہیں ناکہ یہ سرمایہ دار!
ماہیگیر ، کسان ، مزدور، طلبا اور دیگر مظلوم طبقات کو اب حکومت اور ہر استحصالی سرمایہ دار کے ظلم کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنا ہوگا، اگر ایسا نا کیا گیا تو مرحلہ وار جینے کا حق بھی چھینا جاسکتا ہے، وجہ یہی ہے کہ طاقت اور وسائل کی حرص انسان کو اس کی انسانیت سے دور کردیتی ہے، ملکی ترقی عوام میں بنیادی انسانی حقوق ، تعلیم، صحت ، اسپورٹس و دیگر امور کو فروغ دے کر ممکن ہے نا کہ عوام سے سب کچھ چھین کر انہیں بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑ کر تباہ کرنے میں..
ڈھنگی اور بھنڈار جزائر حکومتی اداروں اور سرمایہ داروں کے بینک بیلنس کا منہ کھول سکتے ہیں، مگر ہمارے لیے یہ جزائر ہماری روایات و تمدن کا حصہ ہیں، ان جزائر کے قدرتی ایکو سسٹم کی وجہ سے ہم آج سمندر کنارے آباد ہوتے ہوئے بھی محفوظ ہیں، ان تمر کے جنگلات کی وجہ سے آبی حیات ، جنگلی حیات و مسافر پرندوں کا مسکن آج بھی آباد ہے، ماحول اور اس سے وابستہ تمام امور ہمیں قدرتی آفات و مشکلات سے بچائے ہوئے ہیں۔
ملکی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ عوام کو اس ترقی میں برابر شامل کیا جائے، دراصل عوام کی ترقی ہی ملکی ترقی کا راستہ ہے، ہم لاکھوں لوگوں کو کبھی ڈیپ سی فشنگ ٹرالرز تو کبھی بھنڈار اور ڈنگی جزائر جیسے مسائل میں الجھا کر اپنے آپ اور اس ملک کے آئین و قانون سے مزید دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، یہ ملک کسی سرمایہ دار یا ادارے کا نہیں بلکہ اس ملک کی اکیس کروڑ سے زائد عوام کی ملکیت ہے اور ہمیں یہ اچھا لگے یا نا لگے، مگر ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا اور ہم جتنا جلد اسے تسلیم اور قبول کر لیں گے، ملک اتنی ہی تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا.