کراچی – محکمہ کسٹمز کی تحویل میں پکڑے گئے نایاب نسل کے 70 باز چار ماہ قبل ہلاک ہو گئے
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں محکمہ کسٹم کی تحویل میں موجود انتہائی قیمتی اور مہنگے بازوں کی اکثریت ہلاک ہو چکی ہے، جبکہ ہلاک ہونے والے بازوں کو عدالتوں میں پیش کرنے کے لیے فریرز میں محفوظ کیا گیا ہے
کسٹمز ذرائع نے بتایا ”مردہ بازوں کو عدالتی پراپرٹی کے طور پر فریج میں سنبھال کر رکھا گیا ہے“
واضح رہے کہ ایک سال قبل محکمہ کسٹمز کے اینٹی اسمگلنگ آرگنائزیشن پریونٹیو نے گذری کراچی میں کارروائی کے دوران 75 باز برآمد کیے تھے، کسٹمز کورٹ نے کیس وائلڈ لائف کا قرار دے دیا تھا اور بازیاب شدہ 75 باز کسٹم کی تحویل میں رکھنے کا حکم دیا تھا، جسلن میں سے 70 باز مر چکے ہیں، جبکہ پانچ کی حالت بھی خراب ہے
ذرائع نے بتایا کہ کسٹمز نے 70 مرے ہوئے بازوں کو کورٹ پراپرٹی طور اپنے پاس رکھ دیا ہے اور گذشتہ چار مہینوں سے مرے ہوئے باز کسٹمز کی تحویل میں ہی ہیں
ذرائع کا کہنا ہے کہ بازوں کو متحدہ عرب امارات ودیگر ممالک میں مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے، عرب ممالک میں ایک باز کی قیمت پاکستانی بیس لاکھ روپے سے بھی زیادہ ہوتی ہے، باز کی قیمت اس کی نسل کو مدنظر رکھتے ہوئے قیمت لگائی جاتی ہے
ایک اندازے کے مطابق 70 بازوں کی قیمت اکیس کروڑ روپے بنتی ہے، ذرائع نے بتایا کہ ضبط کیے گئے بازوں کا تعلق سائیبریا سے تھا، بازوں کی حالت بگڑنے پر برطانیہ سے ٹیم بھی بلائی گئی تھی، بازوں کی ملکیت کے دعوے داروں نے عدالت میں لائسنس بھی پیش کیا تھا، واضح رہے کہ یہ لائسنس سندھ وائلڈ لائف جاری کرتی ہے
ذرائع نے بتایا کہ دعوے داروں کے لائسنس سندھ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ نے جاری کیے تھے، وائلڈ لائف سندھ اور کسٹم حکام کے موقف کے بعد بازوں کو کسٹم ری ہیبلیٹیشن سینٹر میں رکھا گیا
فالکن ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق یہ باز انتہائی مہنگے تھے اور اوسطاً ہر باز کی قیمت پانچ لاکھ روپے کے قریب تھی
کچھ کسٹم افسران کی رائے اس کے برعکس ہے اور ان کے مطابق ان میں سے کچھ بازوں کی قیمت ایک سے دو کروڑ روپے تک بھی ہو سکتی ہے
کراچی کسٹم کے ڈپٹی کمشنر انعام اللہ وزیر کہتے ہیں کہ اکتوبر 2020 میں کسٹم حکام نے غیر قانونی بازوں کی ایک کھپت پکڑی تھی جس میں 75 باز شامل تھے۔ اس کا باقاعدہ مقدمہ درج کیا گیا تھا اور اس مقدمے میں باز مال مقدمہ کی حیثیت رکھتے تھے
ان کا کہنا تھا کہ بازوں کی اس کھپت کو سنبھالنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گے تھے۔ کراچی کسٹم ہی کے ایک مقام پر ان کو فالکن ایسوسی ایشن آف پاکستان کی نگرانی میں رکھا گیا تھا مگر ان میں سے ستر باز ہلاک ہو چکے ہیں اور صرف پانچ زندہ بچے ہیں
انعام اللہ وزیر کہتے ہیں کہ باز مال مقدمہ ہیں۔ ’یہ مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ جو باز مر چکے ہیں، انہیں عدالت میں پیش کرنے کے لیے فریز میں سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ ہم نے اپنے طور پر بازوں کو سنبھالنے کی پوری کوشش کی تھی۔‘
افتخار خان اس وقت حیدر آباد کسٹم میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور بازوں کی برآمدگی کا یہ آپریشن اُنہی کی نگرانی میں ہوا تھا
افتخار خان بتاتے ہیں کہ محکمہ کسٹم کو اطلاع ملی کہ کراچی کے پوش علاقوں، جس میں گزری کا علاقہ بھی شامل ہے، میں بازوں کی ایک بڑی غیر قانونی کھپت موجود ہے۔ جس پر محکمے نے باقاعدہ تلاشی کی اجازت حاصل کرنے کے بعد چھاپہ مارنے کا فیصلہ کیا
انہوں نے بتایا ’ہم نے سادہ کپڑوں میں اپنے اہلکاروں کے ہمراہ متعلقہ مقام پر چھاپہ مارا تو وہاں پر یہ باز موجود تھے۔ جس پر جب ہم نے ان کو اپنی تحویل میں لینا چاہا تو ہمیں باقاعدہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔‘
افتخار خان کہتے ہیں کہ جب ہم نے باز اپنی گاڑیوں میں منتقل کیے، تو اس وقت دوبارہ شدید مزاحمت ہوئی. منظم لوگوں کا گروپ ہم پر حملہ آور ہو گیا۔ حملے کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ یہ قیمتی باز تھے۔ اکتوبر کا وقت ان کا سیزن تھا اور ان کی ڈیمانڈ بھی موجود تھی
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کسی نہ کسی طرح باز اپنی تحویل میں لے کر اس کا باقاعدہ مقدمہ درج کیا تھا۔ یہ مقدمہ اکتوبر 2020ع سے لے کر اب تک عدالتوں میں زیر التوا رہا
وہ کہتے ہیں ’یہ ایک لمبا عرصہ ہے۔ کسٹم حکام اور اہلکاروں کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ ان بازوں کی حفاظت کر سکتے اور وہ نہ ہی اس کام کے ماہر ہیں۔ اس لیے اس وقت فیصلہ کیا کہ ان کو فالکن ایسوسی ایشن آف پاکستان کی نگرانی میں دیا جائے۔‘
فالکن ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر کامران خان یوسفزئی کہتے ہیں کہ گذشتہ سال اکتوبر میں کسٹم حکام نے رابطہ کر کے ہم سے بازوں کی دیکھ بھال کی گزارش کی تھی جو کہ بازوں کے بہترین مفاد میں قبول کی گئی اور اس سلسلے میں جگہ سمیت کئی وسائل محکمہ کسٹم نے مہیا کیے اور باقی کا انتظام ہم نے خود کیا تھا جبکہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ ہمارا باقاعدہ معاہدہ ہوا تھا
کامران خان یوسفزئی کہتے ہیں کہ پہلے ان کو کسٹم کلب کراچی میں رکھا گیا تھا۔ اس کے بعد ان کے لیے محکمہ کسٹم ہی کے تعاون سے بڑی جگہ کا انتظام کیا گیا۔ جہاں پر ان کی روزانہ کی بنیاد پر رکھوالی کا پروگرام تربیت دیا گیا۔ ان کے لیے مناسب خوراک اور ماحول فراہم کیا گیا تھا
ان کا کہنا تھا کہ اس میں کچھ بالغ باز تھے اور کچھ ایسے تھے جو بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچے تھے، ان میں نر اور مادہ دونوں ہی شامل تھے
’جب یہ معاملہ ہمارے سپرد ہوا تو اس وقت ہی ہم نے سب کو بتانا شروع کر دیا تھا کہ کراچی کے ماحول اور موسم میں ان بازوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کامیاب ہونے کا امکان کم ہی ہے۔‘
کامران خان یوسفزئی کے مطابق یہ باز زیادہ سے زیادہ گرمی 30 سے 34 ڈگری تک برداشت کر سکتے ہیں
’ان کے لیے پنکھوں اور ایئرکنڈیشن تک کا انتظام کیا گیا مگر پھر بھی یہ گرمی برداشت نہیں کر پائے اور زیادہ تر کی موت اس وقت ہوئی تھیں جب کراچی کی گرمی اپنے جوبن پر ہونے کے علاوہ حبس بڑھ جاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دوسرا یہ کہ کراچی کی فضا میں موجود کبوتر اور پرندے مختلف وائرس کے پھیلاؤ کا سبب ہیں
’یہ خود تو اس وائرس کے خلاف قوت مدافعت حاصل کر چکے ہیں مگر انہوں نے یہ وائرس بازوں میں پھیلایا تھا۔ ایک باز بیمار ہوا اور اپنے ساتھ دیگر کو بھی بیمار کرتا چلا گیا۔‘
کامران خان یوسفزئی کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں ہم لوگوں نے گلگت بلتستان میں ان کے لیے مرکز قائم کیا تھا
’سب کو بتایا کہ کراچی میں ان کے بچنے کے اقدمات کم ہیں۔ اس لیے ان کو وہاں پر منتقل کر دیا جائے تو ان کے بچنے کے امکانات زیادہ ہو سکتے ہیں مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔‘
کامران خان یوسفزئی نے بتایا کہ باز دھوپ سے قوت مدافعت حاصل کرتا ہے لیکن کراچی میں ان کو دھوپ دینا ممکن نہیں تھا
وہ کہتے ہیں ’باز کو مناسب موسم اور ماحول شمالی علاقہ جات اور گلگت بلتستان میں مل سکتا ہے۔ کراچی میں جو پانچ بچ چکے ہیں ہم کہتے ہیں کہ اب بھی وقت ہے کہ ان کو بچا لیا جائے ورنہ ہمیں خدشہ ہے کہ آنے والے دن جب دوبارہ گرمی کا موسم آئے گا تو شاید یہ بھی محفوظ نہ رہیں۔‘
ان کے مطابق، بحالی کے کام کے بغیر ان کو اب تقریباً ڈیڑھ سال قید کے بعد فضا میں نہیں چھوڑا جا سکتا کیونکہ یہ شکار کرنا بھول چکے ہیں اور جب یہ شکار نہیں کر پائیں گے تو ان کا زندہ بچنا بھی ممکن نہیں رہے گا
کامران خان یوسفزئی کہتے ہیں کہ سارے باز اس وقت پکڑے گئے تھے، جب یہ اپنے صدیوں پرانے روٹ پر پاکستان کی حدود سے سفر کر رہے تھے
’کچھ کی منزل چین، سائبیریا وغیرہ تھی۔ یہ عموماً اکتوبر کے بعد بہار کی آمد تک کا وقت پاکستان کی حدود میں سفر کرتے ہوئے اپنی منزل کی طرف جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے روٹ میں ایسے لوگ موجود ہیں جو نسل در نسل بازوں کو اپنے قابو میں کرنے کے ماہر ہیں۔
’وہ یہ فن اپنے خاندان ہی میں سیکھتے ہیں۔ یہ ان کا ایک بڑا زریعہ روزگار ہوتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں یہ مغلوں کے دور سے بھی پہلے ہورہا ہے۔‘
کامران خان یوسفزئی کہتے ہیں کہ یہ لوگ پہلے مغل بادشاہوں کو شکار کی تربیت دیتے تھے اور اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کھیل متحدہ عرب امارات منتقل ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا ”میرے تجربے کے مطابق ان بازوں کو ان کی قدرتی آمجگاہوں سے پکڑا گیا تھا تو ممکنہ طور پر ان کی منزل متحدہ عرب امارات کی ریاستیں ہو سکتی ہیں“