روس، یوکرین تنازع: بائیڈن کا مشرقی یورپ میں جلد فوج بھیجنے کا اعلان، روس کا حملہ خوفناک ہوگا، امریکی جنرل کی تنبیہ

ویب ڈیسک

واشنگٹن / ماسکو – امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین نے کہا ہے کہ ’اگر یوکرین پر حملہ کیا گیا تو اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوں گی‘

امریکی جنرل مارک میلی کا کہنا ہے کہ یوکرین پر روس کا حملہ ’خوفناک‘ ہوگا اور اس سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوں گی

جنرل میلی نے یوکرین کی سرحد کے قریب ایک لاکھ روسی فوجیوں کی موجودگی کو سرد جنگ کے بعد سب سے بڑی فوجی تعیناتی قرار دیا ہے

جنرل میلی کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے ملک کی سرحدوں پر روسی فوجیوں کی موجودگی کے متعلق خوف و ہراس نہ پھیلایا جائے

لیکن امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا ہے کہ سفارتکاری کے ذریعے کشیدگی سے بچا جا سکتا ہے

دوسری جانب روس، یوکرین پر حملے کے کسی بھی منصوبے کی تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے ”یوکرین کے لیے امریکی حمایت ایک خطرہ ہے“

جمعے کو پینٹاگون میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن کے سب سے سینیئر فوجی افسر، جنرل میلی نے خبردار کیا کہ یوکرین کی سرحد کے قریب بڑے پیمانے پر روسی افواج کی تعیناتی کا مطلب یہ ہے کہ اس حملے کے سنگین نتائج مرتب ہوں گے

جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین نے کہا ’اگر یوکرین پر حملہ کیا گیا تو اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوں گی۔‘

جنرل میلی نے مزید کہا کہ زیادہ آبادی والے علاقوں میں لڑائی ’خوفناک بلکہ ہولناک‘ ہو گی

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا ہے کہ امریکا یوکرین کو اپنے دفاع کے لیے مزید ہتھیار فراہم کرنے کے معاملے میں پرعزم ہے

آسٹن نے روسی صدر پوتن سے کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’تصادم سے بچا جا سکتا ہے اور ابھی بھی سفارتکاری کے لیے وقت موجود ہے۔‘

انیوں نے مزید کہا کہ ’ایسی کوئی وجہ نہیں ہے جس کے باعث اس صورتحال کو تنازع میں بدلنا پڑے. وہ اپنے فوجیوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم دے سکتے ہیں۔‘

جمعے کو صدر بائیڈن نے کہا کہ وہ خطے میں نیٹو کو مضبوط کرنے کے لیے جلد ہی مشرقی یورپ میں کچھ فوجیں بھیجیں گے۔ صدر بائیڈن نے یہ نہیں بتایا کہ یہ فوجی کب پہنچیں گے اور کہاں تعینات ہوں گے

اس ہفتے کے شروع میں پینٹاگون نے کہا تھا کہ ساڑھے آٹھ ہزار فوجی مختصر نوٹس پر تعینات کیے جانے کے لیے تیار ہیں

روس نے نیٹو فوجی اتحاد کی توسیع اور اس سے متعلقہ سکیورٹی امور کے بارے میں اپنے خدشات کی ایک تحریری فہرست جاری کی تھی۔ اس فہرست میں یوکرین اور دیگر ممالک کے نیٹو اتحاد میں شامل ہونے کے امکان کو رد کرنے کا مطالبہ بھی شامل تھا

امریکا نے ماسکو کے اس اہم مطالبے کو رد کر دیا ہے اور بائیڈن انتظامیہ کا اصرار ہے کہ وہ روس کو ’سنجیدہ سفارتی راستہ‘ پیش کر رہے ہیں

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے مغرب پر روس کے سکیورٹی خدشات کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کیا ہے

کریملن کی جانب سے پوتن اور ان کے فرانسیسی ہم منصب کے درمیان ہونے والی فون کال کی پریس ریلیز کے مطابق روسی صدر کا کہنا ہے کہ وہ امریکی ردِعمل کو دیکھ کر ہی فیصلہ کریں گے کہ آگے کیا کرنا ہے

ادہر فرانس کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ کشیدگی کو کم کرنے کی ضرورت ہے اور صدر ایمانویل میکخواں نے صدر پوتن سے کہا ہے کہ روس کو اپنی پڑوسی ریاستوں کی خودمختاری کا احترام کرنا چاہیے

پینٹاگون کی جانب سے یہ انتباہ، یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کی صحافیوں سے کی گئی اس بات چیت کے بعد دیا گیا ہے جس میں انہوں نے ملک کی سرحدوں پر روسی فوجیوں کی موجودگی کے متعلق خوف و ہراس نہ پھیلانے کا کہا تھا

کیو میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں زیلینسکی نے کہا کہ گذشتہ موسم بہار میں بھی اتنی ہی تعداد میں فوجی تعینات کیے گئے تھے، لہٰذا اب انہیں کوئی بڑا خطرہ نظر نہیں آ رہا

ان کا کہنا تھا ’حتیٰ کہ کئی اہم ملکوں کے معزز رہنماؤں کی جانب سے بھی ایسے اشارے مل رہے ہیں. وہ کہہ رہے ہیں کہ کل جنگ چھڑ جائے گی۔ یہ خوف ہراس پھیلانا ہے. کیا آپ کو معلوم ہے ہماری ریاست کو اس کی کتنی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے؟‘

انہوں نے کہا کہ یوکرین کے لیے سب سے بڑا خطرہ ’ملک کے اندر عدم استحکام‘ ہے

ایک کے بعد ایک صحافیوں نے یوکرین کے صدر سے دھمکی سے متعلق سوال کیے۔ لیکن ولادیمیر زیلینسکی نے کسی سوال کا جواب نہیں دیا بلکہ انہوں نے میڈیا پر خوف و ہراس پھیلانے کا الزام لگایا

تاہم انہوں نے امریکی انٹیلیجنس کے پاس معلومات سے انکار بھی نہیں کیا۔ آخر کار انہوں نے کہا ’میں ایک لاکھ فوجی دیکھ سکتا ہوں۔‘

انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ یوکرین کسی بھی قسم کی جنگ کے لیے تیاری کر رہا ہے

زیلینسکی نے صحافیوں کو یاد دلایا کہ ان کا ملک برسوں سے روسی جارحیت کے خطرے کے ساتھ جی رہا ہے. اس میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے اور بڑے پیمانے پر فوجیوں کی حالیہ تعیناتی کے باوجود، وہ اس خطرے کو کم کرنے کے لیے پُرعزم نظر آئے

جب ان سے کچھ سفارتخانوں کے عملے کو بحفاظت یوکرین سے نکالنے سے متعلق سوال کیا گیا تو وہ شدید غصے میں آگئے اور کہا: ’سفارتکار کپتان کی طرح ہوتا ہے، انہیں ڈوبتے جہاز کو چھوڑنے والا آخری شخص ہونا چاہیے اور یوکرین ٹائی ٹینِک نہیں ہے۔‘

دوسری جانب روس نے گذشتہ ماہ مغرب سے سکیورٹی کے جو مطالبات کیے تھے، ان کے مطابق:

یوکرین کو نیٹو میں شمولیت سے روکا جائے

نیٹو کو مشرقی یورپ میں فوجی سرگرمیاں ختم کرنا ہوں گی، پولینڈ اور ایسٹونیا، لٹویا اور لیتھوانیا کی بالٹک جمہوریہ سے فوجیوں کو نکالنا ہوگا

اتحادی ممالک، روس کے قریب یا سرحد سے ملحقہ ممالک میں میزائل تعینات نہیں کریں گے

امریکا اور نیٹو نے جواب میں کہا ہے کہ یوکرین کو اپنے اتحادیوں کا انتخاب کرنے کا حق ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے روس کو میزائل تنصیبات اور دیگر مسائل پر بات چیت کی پیشکش کی ہے

روس کے صدر ولادمیر پیوٹن نے کہا کہ امریکا اور نیٹو نے یوکرین کے معاملے پر ان کے سیکیورٹی مطالبات پورے نہیں کیے تاہم اس کے باوجود بھی ہم مذاکرات جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یوکرین کے معاملے پر بڑھتے ہوئے تناؤ کے ماحول میں امریکا سمیت مغربی ممالک کی جانب سے روس کو سنگین نتائج اور پابندیوں کے نفاذ کی دھمکیاں دیے جانے کا سلسلہ جاری ہے لیکن اس کے باوجود روسی صدر نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی تھی

تاہم کل فرانس کے صدر ایمینوئیل میکرون سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ کسی بھی کارروائی سے قبل امریکا اور نیٹو کے ردعمل کا جائزہ لیں گے

فرانسیسی صدارتی آفیشل نے کہا کہ پیوٹن کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ صورتحال مزید خراب ہو اور روسی وزیر خارجہ کے اس موقف کی توثیق کی کہ روس جنگ نہیں چاہتا

ان کا کہنا تھا کہ اس امر پر توجہ مرکوز کی گئی کہ امریکا اور نیٹو نے روس کے اصولی تحفظات کو کوئی اہمیت نہیں دی

روس کے ان تحفظات میں نیٹو کے دستوں میں توسیع، روس کی سرحد کے قریب جارحانہ ہتھیاروں کی تنصیب اور نیٹو کی فوجی صلاحیتوں اور انفرااسٹرکچر کی واپسی شامل ہیں لیکن روس کا کہنا ہے کہ نیٹو اور امریکا نے ان تحفظات کو نظرانداز کردیا ہے

پیوٹن نے کہا کہ اہم سوالات کو نظر انداز کر دیا گیا کہ امریکا اور اس کے اتحادی کس طرح سیکیورٹی سالمیت کے اصول پر عمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ کسی کو بھی دوسرے ملک کی سلامتی کی قیمت پر اپنی سلامتی کو مضبوط نہیں کرنا چاہیے

امریکا اور نیٹو کا کہنا ہے کہ روس کے کچھ مطالبات کو پورا نہیں کیا جا سکتا لیکن مذاکرات کے لیے دروازے کھلے ہوئے ہیں

نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس اسٹولٹنبرگ نے کہا کہ مغربی فوجی اتحاد روس پر نظر رکھے ہوئے ہے جس کے ہزاروں فوجی یوکرین کی سرحد کے قریب موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نیٹو مشرقی یورپ میں اپنے دستوں کی تعداد بڑھانے کے لیے تیار ہے اور خبردار کیا کہ روس کا حملہ سائبر حملے، اقتدار پر قبضے سمیت کسی بھی طرح کا ہو سکتا ہے

انہوں نے کہا کہ ہم نیٹو کی طرف سے سیاسی مذاکرات جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں البتہ اگر روس نے مسلح مزاحمت کا راستہ اپنایا تو ہم اس کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار ہیں

ادھر روس کے وزیر خارجہ سرگئی لیوروو نے کہا کہ اگر اس بات کا انحصار روس پر ہے تو پھر کسی بھی قسم کی جنگ نہیں ہوگی، ہم جنگ نہیں چاہتے لیکن ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ ہمارے مفادات کو نظرانداز کردیا جائے

اگر روس یوکرین پر حملہ کرتا تو یہ پہلی بار نہیں ہوگا، روس نے 2014 میں یوکرین کے جنوبی جزیرہ نما کریمیا پر قبضہ کر کے اپنے ساتھ الحاق کر لیا تھا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close