دو ماہ پہلے کووڈ کا زور تھوڑا سا ٹوٹ رہا تھا، مگر ائر لائنز کی طرف سے اڑتالیس گھنٹے کی مدت میں کورونا کا ٹیسٹ ہونا ضروری تھا۔ دنیا کی تمام فضائی کمپنیاں اس اصول پر من و عن عمل پیرا تھیں۔ ویسے آج کل یہ مدت مزید کم کر کے چوبیس گھنٹے کر دی گئی ہے
بہرحال نیویارک سے واپسی پر کورونا ٹیسٹ کے بغیر سفر ممکن نہیں تھا۔ انٹرنیٹ پر ٹیسٹ کرنے والے سینٹر کو تلاش کیا۔ جس فلیٹ میں مقیم تھا، وہاں سے دس پندرہ منٹ کی مسافت پر تھا۔ وہاں پہنچا تو کلینک کے باہر چار پانچ مرد و خواتین انتظار کر رہے تھے
میں بھی دروازے کے باہر کھڑا ہو گیا۔ اتنے میں ایک نرس باہر نکلی اور کہنے لگی کہ آپ لوگوں کو انتظار کرنا پڑ رہا ہے، اس کی دلی معذرت کرتی ہوں مگر اندر دیگر مریض موجود ہیں، وہ بھی ٹیسٹ کروانے آئے ہوئے ہیں، لہٰذا آپ تھوڑا سا مزید انتظار کر لیجیے۔ خیر تھوڑی دیر بعد کلینک سے پانچ مرد اور خواتین نکلے، اور نرس نے باہر کھڑے ہوئے افراد کو اندر آنے کی اجازت دے دی
سماجی فاصلے کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اندر صرف پانچ کرسیاں تھیں۔ جب اسٹاف کوائف لے رہا تھا تو میں نے پوچھا کہ کورونا ٹیسٹ کروانے کی فیس کتنی ہ گی۔ اس خاتون نرس نے مجھے غور سے دیکھا۔ انتہائی شائستگی سے بتایا کہ پورے امریکا میں کورونا ٹیسٹ سرکاری سطح پر مکمل مفت کیا جاتا ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ خاتون شاید یہ سمجھ رہی ہے کہ میں امریکی شہری ہوں اور شاید یہاں کے شہریوں کے لیے ٹیسٹ کی سہولت بالکل مفت ہے
اسٹاف کو بتایا کہ میں غیر ملکی ہوں۔ میرے پاس امریکی شہریت نہیں ہے۔ اس نے ہنسنا شروع کر دیا۔ ٹیسٹ کی سہولت ہمارے ملک میں سب کے لیے مکمل طور پر مفت ہے۔ یہ امریکی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں اور ملک میں آنے والے مہمانوں میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہ کرے۔ لہٰذا یہ ٹیسٹ ہر رنگ، نسل اور ہر شہریت کے لیے فری ہے۔ خیر ٹیسٹ ہوا۔ اگلے دن رپورٹ ای میل پر موصول ہو گئی اور میں پاکستان آ گیا
یہ واقعہ لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مگر چند دن پہلے میرے ایک دوست کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا۔ جس کی وجہ سے میں اپنے ملک میں نجی اسپتالوں اور ٹیسٹ لیبارٹریوں کی لوٹ مار کا ذکر کرنے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ گزشتہ دو برسوں سے ہمارا ملک کورونا کے عذاب سے گزر رہا ہے لاکھوں لوگ اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ ہزاروں جانیں اس مہلک بیماری سے ملک عدم کو روانہ ہو چکی ہیں۔ یہ بلا ایک نئے روپ میں ہمارے سامنے دوبارہ آن کھڑی ہوئی ہے
اب اگر آپ نے امریکا جانا ہو تو ”ائر لائنز“ صرف چوبیس گھنٹے کے اندر کورونا ٹیسٹ کے نتائج کو تسلیم کرتی ہیں۔ لاہور میں بڑی پرائیویٹ اور فلاحی اداروں کے نام پر لیبارٹریاں ہیں جو آٹھ سے دس ہزار روپے میں کورونا ٹیسٹ کر رہی ہیں۔ میرے دوست نے ان میں سے ایک پرائیویٹ لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا۔ پرواز میں چوبیس گھنٹے تھے۔ دوست صحت کے لحاظ سے بالکل ٹھیک تھا
ٹیسٹ رپورٹ کوئی دس بارہ گھنٹے میں آنی تھی۔ جب کورونا کا نتیجہ آیا تو کورونا پوزیٹو قرار دیا گیا۔ وہ ششدر رہ گیا کیونکہ اسے بخار یا کسی قسم کی کوئی علامات نہیں تھیں۔ بڑی پریشانی میں مجھے فون کیا کہ اب وہ کچھ دن پاکستان مزید رہے گا کیونکہ اب ہوائی جہاز میں سفر نہیں کر سکتا۔ اسے ایک ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا تاکہ علاج شروع ہو۔ وہاں پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب نے رپورٹ دیکھی۔ ایک قہقہہ لگایا
دوست سے پوچھا کہ کیا آپ نے لیبارٹری والے کو بتا تو نہیں دیا تھا کہ آپ یہ ٹیسٹ بیرون ملک جانے کے لیے کروا رہے ہیں۔ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ ہم سارے ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے دوست کے موبائل پر اسی لیبارٹری سے فون آیا۔ ان سے نام وغیرہ پوچھ کر فون کرنے والے نے کہا کہ اگر آپ ہمیں دس ہزار روپے دے دیں تو آپ کا کورونا ٹیسٹ منفی ہو جائے گا۔ یہ سن کر دوست نے تقریباً چیختے ہوئے کہا کہ آپ کی لیبارٹری نے تو مجھے کورونا پوزیٹو قرار دیا ہے۔ اب آپ کیسے نیگیٹو کر سکتے ہیں۔ فون کرنے والا اسی لیبارٹری سے بول رہا تھا
دوسری طرف سے جواب آیا کہ یہ آپ کا مسئلہ نہیں۔ لیبارٹری آ کر دس ہزار روپے جمع کروا دیں آپ کو فوراً منفی رپورٹ مل جائے گی۔ ہم نے یہ سب کچھ ڈاکٹر صاحب کو بتایا۔ انھوں نے بے دریغ لیب کے مالک کی شان میں چند گستاخانہ فقرے کہہ کر بتایا کہ یہ اس نجی لیب کا دھندا ہے۔ ہمیں بالکل یقین نہیں آیا کہ یہ سب کچھ کیسے ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کورونا کے رپیڈ ٹیسٹ کی کٹ نکالی۔ ٹیسٹ کیا۔ نتیجہ سامنے تھا۔ دوست کورونا کا مریض نہیں تھا۔ لیبارٹری کی رپورٹ بالکل غلط تھی۔ مگر حل کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔ وہ چپکے سے اسی نجی لیب میں گیا۔ دس ہزار ادا کیے اور منفی رپورٹ لے کر خاموشی سے امریکا واپس چلا گیا
امریکا جا کر فون کیا اور کہنے لگا کہ یہ ملک کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ جہاں لوگ ٹیسٹ کے منفی یا مثبت کرنے کے بھی پیسے وصول کر رہے ہوں۔ وہاں ایمانداری یا اصولوں کی بات کرنا حماقت نہیں بلکہ پاگل پن ہے۔ میرے پاس اس طنزیہ بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ خاموش ہو گیا۔ بلکہ حد درجہ شرمندگی بھی ہوئی۔ مجھے اندازہ ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت نے کورونا وبا میں اپنی استطاعت سے بڑھ کر اچھا بلکہ بہترین کام کیا ہے۔ مگر بدنام ترین نجی لیبارٹریوں کو مادر پدر آزادی کیوں دی گئی۔ جو عرض کر رہا ہوں یہ صرف ایک دو آدمیوں کے ساتھ نہیں ہوا۔ یہ لیب کا وتیرہ ہے
جہاز پر سفر کرنے والوں کو پہلے کورونا کی مثبت رپورٹ دے کر حد درجہ پریشان کیا جاتا ہے پھر دس ہزار روپیہ وصول کر کے رپورٹ کو منفی قرار دے دیتے ہیں۔ ان کا یہ دھندا دو برسوں سے بھرپور طور پر چل رہا ہے۔ لیبارٹریوں کے مالک اس غلاظت سے کروڑوں روپے ناجائز طور پر کما چکے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ صوبائی وزیر صحت اور مرکزی مشیر صحت حد درجہ فعال لوگ ہیں۔ پھر انھیں کیوں اس سنگین جرم کا علم نہیں ہو سکا۔ اب تک انتہائی دھڑلے سے یہ کاروبار کیوں جاری ہے
ٹیسٹ کرواتے وقت یہ طے کیا جا سکتا کہ رپورٹ منفی دینی ہے یا مثبت۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیجیے کہ کس کس بلند سطح کے لوگوں نے عدالتوں، پیشیوں، مقدمات اور دیگر مسائل سے بچنے کے لیے جعلی مثبت یا منفی رپورٹ حاصل کی ہو گی۔ کیا اب بھی آپ کو اندازہ نہیں ہوا کہ ہمارے چند اہم ترین سیاست دان جیسے ہی کوئی حساس فیصلہ کرنے یا ہونے کے نزدیک ہوتے ہیں تو انھیں فوری طور پر کورونا ہو جاتا ہے۔ آپ خود سمجھدار ہیں
اس تمام بکھیڑے کے پیچھے یہی نجی لیب دھندا ہے جو مرضی کا رزلٹ لے لیں۔ یہ سب کچھ بڑے آرام سے جاری و ساری ہے۔ سب ادارے اور لوگ جانتے بوجھتے ہوئے بھی مکمل خاموش ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ کیا چند نجی اسپتالوں میں کووڈ کے مریض سے یومیہ ساٹھ ستر ہزار روپے نہیں لیے جاتے۔ بلکہ ایک دو اسپتال تو تقریباً سیدھا ایک لاکھ روپے وصول کرتے ہیں
مری میں تو ابلے ہوئے انڈے اور پانی پانچ سو سے ہزار روپے تک فروخت ہوا تھا جو کہ ایک غیر شریفانہ کام ہے۔ مگر نجی اسپتالوں اور لیبارٹریوں کو عام شہری کو لوٹنے کی اجازت کیوں کر ہے۔ یہ کون سا اخلاقی اصول ہے جس کے تحت یہ رنگ باز لوگ صحت کے نام پر لوگوں کی جیبوں پر ڈاکے ڈال رہے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ غریب آدمی کدھر جائے۔ اس کا والی وارث کون ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ صحت کارڈ ایک انقلابی قدم ہے مگر صحت کے نجی شعبے کی لوٹ مار کو کون کنٹرول کرے گا۔ کیا یہ واقعی راست قدم ہے کہ ہم انتہائی لالچی نجی شعبہ کے حوالے سب کچھ کر دیں۔ سرکاری اسپتالوں کو تالے لگا دیں
صحت کے سرکاری شعبہ کی سرپرستی ہی کرنا چھوڑ دیں۔ کیا یہ حکومت کی ذمے داری نہیں کہ بدنام زمانہ لیبارٹریوں اور اسپتالوں کے مالکان کو پابند سلاسل کرے۔ کیا امریکا یاکسی بھی مہذب ملک کی طرح کورونا ٹیسٹ اور اس کا علاج مکمل طور پر مفت نہیں ہو سکتا۔ مگر میں غلط سوچ رہا ہوں۔ مغربی ممالک اپنے مکینوں کی صحت کی حفاظت کرنا اپنا بنیادی کام گردانتے ہیں۔ اور ہمارے ہاں صحت کو صرف ایک کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا گدلا نالہ بن چکا ہے جس میں لالچ اور ہوس زر کی نجاست کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم غلاظت پر عطر چھڑک کر کہہ رہے ہیں، کہ واہ واہ کیا زبردست خوشبو ہے؟
بشکریہ ایکسپریس نیوز