ملیر ایکسپریس وے: ملیر کے عوام نے EIA کو مسترد کردیا، حکام سماعت ادھوری چھوڑ کر چلے گئے

رپورٹ: ریاض بلوچ

ملیر کراچی – سندھ  محکمہ ماحولیات تحفظ کی جانب سے ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر سے ہونے والے ماحولیاتی نقصانات پر  عوامی سماعت کا انعقاد کیا گیا، سماجی کارکنان، متاثرین و آبادگاروں نے بڑی تعداد میں شرکت کر کے ملیر ایکسپریس وے کی منصوبے کو ماحول دشمن اور ملیر گرین بیلٹ کی تباہی سے تعبیر کرتے ہوئے  مسترد کردیا

دلائل، زمینی حقائق، اعداد و شمار اور دستاویزی ثبوتوں پر مشتمل تند و تیز سوالات کا معقول جواب نہ ہونے کے باعث ماحولیات اور ایکسپریس وے کے حکام نے عوامی سماعت ادھوری چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی

تفصیلات کے مطابق ملیر میں محکمہ ماحولیات کی جانب سے ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر سے ماحولیات کی تباہی و نقصانات پر ملیر کورٹ کے سامنے رائل بینکیوٹ میں عوامی سماعت کا انعقاد کیا گیا، جس میں ملیر ایکسپریس وے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نثار سومرو، کنسلٹنٹ محمد ہاشم سمیت ماحولیات کے افسران نے شرکت کی۔ دوسری جانب سماعت میں سماجی کارکنان، متاثرین و آبادگاروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی سماعت میں موجود 500 سے زائد لوگوں نے دلائل دیکر ملیر ایکسپریس وے کے منصوبے کو ماحول دشمن اور ملیر گرین بیلٹ کی تباہی سے تعبیر کرتے ہوئے مسترد کردیا

اعتراضات کی سماعت میں متاثر ہونے والی قدیمی آبادیوں کے مکینوں، آبادگاروں اور علاقے کے سماجی رہنماؤں نے محکمہ ماحولیات کے افسران کے سامنے سولات و اعتراضات کی بوچھاڑ کردی جن کا متعلقہ افسران معقول جواب نہ دے سکے اور عوامی سماعت کو ادھورا چھوڑ کرچلے گئے

افسران کے نامناسب رویے پر متاثرین و سماجی کارکنان نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے محکمہ ماحولیات کے خلاف سخت نعریبازی کی

سماعت میں ای آئی اے رپورٹ پر علاقے کے کئی افراد نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا

ملیر سے تعلق رکھنے والے وائلڈ لائف فوٹوگرافر سلمان بلوچ کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے مطالعے سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس رپورٹ کی تیاری کے لیے سرزمین پر جاکر اسٹڈی ہی نہیں کی گئی، نہ مقامی متاثرین سے رابطہ کیا گیا، نہ علاقے کی مکمل معلومات رکھنے والے ماہرین سے بات کی گئی اور نہ ہی اپنے تحفظات کے اظہار کا موقع دیا گیا. حتیٰ کہ اس حوالے سے کوئی اشتہار تک نہیں دیا گیا

سلمان بلوچ نے وائلڈ لائف کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ کے نام پر ایک مذاق کیا گیا ہے. ملیر ایکسپریس وے 39 کلومیٹر طویل ہے، اس کے صرف ایک کلومیٹر میں معدومیت کے خطرے سے دوچار کئی نایاب پرجاتیاں اور جنگلی حیات موجود ہیں، جبکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہاں جنگلی حیات موجود نہیں ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے

سلمان بلوچ نے اعدادوشمار بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے وائلڈ لائف فوٹوگرافی کے دوران یہاں صرف ایک کلو میٹر کے علاقے میں 37 نایاب اقسام کی تتلیاں، 12 اقسام اسنکیکس ریپٹائلز اور کئی اقسام کے ممالیہ موجود ہیں


محکمہ ماحولیات کی جانب سے منعقدہ نام نہاد عوامی سماعت میں ملیر اور کراچی کی اجتماعی دانش نے ملیر ایکسپریس وے کی منصوبے کو ماحول دشمن اور گرین ملیر کی تدفین سے تعبیر کرتے ہوٸے اس کو کُلّی طور پر مسترد کردیا۔


وائلڈ لائف فوٹوگرافرز سلمان بلوچ نے یہاں پرندوں کی کم از کم 176 انواع کی موجودگی کے ثبوت پیش کیے اور بتایا کہ اس کے علاوہ دیگر ممالیہ جانوروں کی انواع بھی موجود ہیں۔ مؤخر الذکر کا بھی EIA رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں کا ماحولیاتی نظام انتہائی امیر ہے، لہٰذا حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے سے نباتات اور حیوانات کی سینکڑوں انواع درحقیقت متاثر ہوں گی

انہوں نے کہا کہ تتلیوں کی موجودگی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ یہاں شاہوکار اور مضبوط ماحولیاتی نظام موجود ہے، ان کی معدومیت اس علاقے کی ماحولیاتی تباہی کی بنیادی ثابت ہوگی

سلمان بلوچ کا کہنا تھا کہ آئی یو سی این کی ریڈ لسٹ میں دو باز کی اقسام شامل ہیں، جو نایاب ہیں لیکن وہ یہاں پائی جاتی ہیں. رپورٹ میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا

انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں چار ٹیوب ویلز کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ 27 ٹیوب ویلز اس سے متاثر ہوں گے، جو صرف زرعی باغات کے ہیں، اور یہ سینکڑوں خاندانوں کا واحد ذریعہ معاش ہیں. ملیر ایکسپریس وے کی زد میں آکر جہاں ان خاندانوں کا ذریعہ معاش تباہ ہوگا، وہیں کراچی کا یہ گرین بیلٹ تباہی کا شکار ہو جائے گا، جس کے خطرناک ماحولیاتی اثرات مرتب ہوں گے

سلمان بلوچ نے کہا کہ ملیر کے تمام منتخب نمائندوں نے ملیر ایکسپریس وے کے حوالے سے اپنے تحفظات تحریری طور پر وزیراعلیٰ کو پیش کیے تھے، لیکن ان کا اس رپورٹ میں سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا

اس موقع پر حنیف دلمراد کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں تین گوٹھوں جو متاثر ہونگے جبکہ درحقیقت صرف ضلع ملیر میں اس ایکسپریس وے کے زد میں بارہ گوٹھ آتے ہیں، جو کثیر آبادی پر مشتمل ہیں

انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ میں آثار قدیمہ کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے، جن میں 1879 میں تعمیر کیے گئے ڈملوٹی کے کنویں بھی شامل ہیں، جو اب آثار قدیمہ میں شامل ہیں. ان میں سے تین کنویں اور چار تاریخی مقامات تباہ ہونگے

شفیع بلوچ کا کہنا تھا کہ یہ ای آئی اے رپورٹ تب آئی ہے، جب ایکسپریس وے کا کام شروع کر دیا گیا ہے، جو کہ مکمل طور پر ماحولیاتی قوانین کی نفی ہے

انہوں نے کہا کہ ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کے لیے متبادل روٹ موجود ہے، لیکن رپورٹ میں اس پر غور ہی نہیں کیا گیا، اس لیے متبادل روٹ اختیار کرتے ہوئے ملیر کو تباہی سے بچایا جائے

اس موقع پر موجود متاثرین حاجی عزیز اللہ میمن، عظیم دہکان، سماجی رہنما بشیر بلوچ، حنیف دلمراد و دیگر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ ماحولیات کے افسران کی غیر سنجیدگی سے صاف ظاہر ہے کہ عوامی سماعت کی کاروائی فقط رسمی ہے، سندھ حکومت کی جانب سے کسی بھی حالت میں ملیر کے ماحولیات کو تباہ کرکے ملیر ایکسپریس وے کو بنانے کا فیصلہ پہلے سے ہی ہوچکا ہے

انہوں نے کہا کہ ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر سے ملیر کا گرین بیلٹ تباہ ہوجائے گا اور سرسبر کھیت کھلیان و باغات  کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہوجائیں گے

انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا اس ماحولیاتی تباہی پر اعتراض، ثبوت اور دلیل کہاں پیش کیے جائیں جو ادارے اعتراض سننے کے لئے بنائے گئے ہیں وہ صرف کاغذوں کے پیٹ بھرنے میں مگن ہیں اور ٹائم پاس کررہے ہیں جس سے مسائل ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہے ہیں اور لوگوں میں بے چینی مزاحمت کا روپ اختیار کر رہی ہے

ماحولیاتی تباہی کے حوالے سے منعقدہ اس سماعت میں ایک مضحکہ خیز بات یہ بھی سامنے آئی کہ ماحولیاتی اثرات کے متعلق سوالات کے جوابات وہاں موجود متعلقہ حکام کے بجائے کنٹریکٹر دے رہے تھے

علاوہ ازیں یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ ملیر ایکسپریس وے کی وجہ سے ہونے والے زرعی، انفراسٹرکچر، گوٹھوں کے محدود طور پر متاثر ہونے کا گمراہ کن تاثر دیا گیا، لیکن اس کے باوجود اس کی تلافی کے طور پر کسی بھی اقدام کا ذکر نہیں کیا گیا

واضح رہے کہ دسمبر 2020 میں، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے 39 کلو میٹر طویل ملیر ایکسپریس وے کا افتتاح کیا تھا، جس کا مقصد شہر کے متمول علاقوں کو کراچی-حیدرآباد موٹر وے کے ساتھ ساتھ شہر کے مضافات میں ابھرنے والی اتنی ہی پوش نئی سوسائٹیوں سے جوڑنا تھا

اس کے فوراً بعد، صدیوں سے آباد مقامی برادریوں کے لوگوں نے اس پروجیکٹ کے خلاف احتجاج شروع کر دیا، کیونکہ اس کئی گوٹھ اور زرعی باغات پروجیکٹ کے مجوزہ روٹ کی زد میں آتے ہیں، جب کہ ماہرین نے اس پروجیکٹ کے نتیجے میں کراچی کو ماحولیاتی اعتبار سے شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی ظاہر کیا تھا

ماہرین ماحولیات اور سماجی کارکنان بشمول کراچی بچاؤ تحریک اور انڈیجینس رائٹس الائنس سے وابستہ افراد نے اس احتجاج میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے سندھ حکومت پر صدیوں سے آباد مقامی کمیونٹیز کو بے گھر کرنے اور ترقی کے نام پر علاقے کے ماحولیاتی نظام کو تباہ کرنے کا الزام لگایا، جس کا مقصد مراعات یافتہ طبقے کی رسائی کو آسان بنانا ہے

لیکن تمام تر اندیشوں کے باوجود افتتاح کے فوراً بعد جب اس منصوبے پر تعمیراتی کام شروع کیا گیا تو نہ تو ان مقامی کمیونٹیز کو شامل کیا گیا، جو بے گھر ہونے والے تھے اور نہ ہی سندھ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی (SEPA) کے پاس انوائرمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ (EIA) درج کروایا گیا

واضح رہے کہ انوائرمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ (EIA) منصوبے کے ماحولیاتی اثرات کا مطالعہ ہے جو مذکورہ منصوبے کے شروع ہونے سے پہلے انجام دیا جاتا ہے



حالانکہ سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایکٹ 2014ع کے سیکشن 17(1) کے مطابق کسی پروجیکٹ پر اس وقت تک تعمیر یا کام شروع نہیں کیا جا سکتا، جب تک کہ اس نے ایجنسی کے پاس IEE یا EIA دائر نہ کیا ہو، اور اس کے سلسلے میں ایجنسی سے منظوری حاصل نہ کی ہو

اکتوبر 2021 میں، ملیر ایکسپریس وے کے کنسلٹنٹس – نیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان (نیسپاک) اور EMC پاکستان – نے بالآخر SEPA کو 800 صفحات پر مشتمل EIA رپورٹ جمع کرائی، جس نے تقریباً پانچ ماہ بعد آج 9 مارچ کو عوامی سماعت طلب کی تھی، جو شارع فیصل پر ملیر میں ملوک ہوٹل کے ساتھ واقع رائل پیلیس کے لان میں منعقد کی گئی

اس سماعت میں عام لوگوں، متعلقہ شہریوں، اسٹیک ہولڈرز اور ماہرین کو اس منصوبے کی خوبیوں اور اثرات پر بات کرنے کے لیے شرکت کی دعوت دی گئی تھی

تاہم خدشے کے عین مطابق یہ سماعت ایک اور فریب ثابت ہوئی، جس کا مقصد صرف خانہ پوری اور محض رسمی کارروائی تھا

مقامی افراد، اس سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے گوٹھوں کے مکینوں، زرعی باغات کے کاشتکاروں اور ماہرین کے خدشات کا سرکاری حکام، سماعت کے منتظمین اور پروجیکٹ کے ذمہ داروں کے پاس کوئی بھی منطقی جواب نہیں تھا

جیسا کہ پہلے ہی خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ یہ سماعت صرف خانہ پوری اور محض رسمی کارروائی کے لیے منعقد کی جا رہی ہے. اس خدشے کے پیچھے ایک معقول سوال ہے کہ اگر اسٹیک ہولڈرز کی رائے اور عوام کی منظوری اتنی ہی اہم تھی، تو ایک سال کی تاخیر سے یہ سماعت کیوں منعقد کی گئی، جبکہ اس پروجیکٹ پر کام شروع بھی کر دیا گیا ہے

بدقسمتی سے آج ہونے والی یہ سماعت صدیوں سے آباد مقامی لوگوں کے تحفظات کو دور کرنے کی بجائے ان کے خدشات کو درست ثابت کرنے کی وجہ بنی.


ملیر ایکسپریس وے، جہنم کی شاہراہ: جس کی قیمت ملیر کو چکانی پڑے گی


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close