صبح ہی صبح سلو سے منہ ماری ہو گئی. میں لکڑی کے چولہے پر چائے چڑھا کر، شاھو کو جھگی کے پاس نالی پہ بٹھا کر فارغ کروا رہی تھی، کہ چائے ابل گئی.. بس اسی بات پر جھگڑا بڑھ گیا… میں، سلو کو چائے کا دھیان رکھنے کا بولی تھی کہ چائے ہی ہمارا واحد ناشتہ تھا۔ گھر میں بس تین ہی پاپے تھے، دو سلو اور ایک شاہو کے لیے… مجھے باجی کے گھر کا آسرا تھا، ویسے تو باجی دیالو نہیں، مگر کبھی کبھی مہربانی کر ہی دیتی تھی…
خالی پیٹ بیس منٹ پیدل چل کر باجی کے گھر پہنچی اور باجی کے دروازہ کھولتے ہی مجھے معلوم پڑ گیا کہ آج پھر اس کا میٹر آف ہے. سالا آج کا دن ہی منحوس تھا، میں چپ کر کے باورچی خانے میں برتن دھونے لگی۔ میری شامت کہ میرے صابن لگے ہاتھوں سے پلیٹ سنک میں گری اور چکنا چور ہو گئی، باجی قریب ہی کھڑی تھی.. بس پھر کیا تھا… اس نے ایک دم سے چیخنا چلانا اور گالیاں دینا شروع کر دیا.. وہ ڈانتی تو ضرور تھی، مگر گالیاں آج پہلی بار دی تھیں. میں بیچ میں بولی بھی کہ، باجی میری پگھار میں سے پلیٹ کا پیسہ کاٹ لیجیو…
ماٹی ملے!!! یہ سن کر تو وہ بالکل ہی باولی کتیا کے مافک ہوگئی۔ چیخ کر بولی، ”کنجری!! تیری تین مہینے کی تنخواہ سے زیادہ مہنگا تو میرا یہ سیٹ ہے.“ گالیوں میں سور، گدھی تو میں پی گئی کہ روج کی بات تھی، پر جب بات ح…. زادی تک پہنچی، تو میرا مگج بھی پھر گیا کہ خالی پیٹ اور سلو سے گرما گرمی کو لے کر میرا ماتھا بھی گرم تھا.
میں بولی ”بی بی ہاتھ بیچا ہے، ذات نہیں، یہ گالی تم واپس لو…“
بس جی.. باجی تو گسہ سے بھوت ہو گئی..
بولی ”تیری یہ مجال حرام خور! کہ تو مجھ سے گالی واپس لینے کا بولے!!؟ چل نکل میرے گھر سے… اور اب غلطی سے بھی ادھر کا رخ نہ کرنا… ورنہ میں تیرا کلیجہ چبا
لوں گی…“
میرے کو واقعی اس سے بہت ڈر لگا، وہ بالکل پچھل پیری لگ رہی تھی۔
یوں یہ لگی لگائی نوکری میرے ہاتھوں سے گئی. اللہ ماری اس وبائی بیماری کی وجہ سے لوگ ویسے ہی ماسی نہیں رکھ رہے ہیں اور سلو کی دیہاڑی بھی کسی دن لگتی ہے تو کبھی کئی کئی دن ناغہ رہتا ہے. جانے اب ہم لوگوں کو کتنے دن بھوک بھوگنی پڑے گی..
میں بےدھیانی میں سڑک پر چلتی چلی جا رہی تھی کہ سڑک کے کنارے مجمع لگا نظر آیا. میں بھی بھیڑ میں جگہ بناتی اندر کو گھس گئی. سفید آلٹو میں تین کم سن لڑکیاں، ان کی سہمی ہوئی ماں بیٹھی تھی. ایک آدمی کھڑکی کا شیشہ تھپتھپاتے ہوئے اسے باہر نکلنے کا کہہ رہا تھا اور اس کے قریب ہی ایک آدمی کھڑا تھا، جس کی کہنی خونم خون تھی اور کپڑے ایسے پھٹے ہوئے تھے، جیسے سڑک پر دور تک گھسٹتا چلا گیا ہو. پوچھ تاچھ پر پتہ چلا کہ اس عورت نے آخری وقت میں مڑنے کا اشارہ دے کر گاڑی موڑ لی اور اس کے پیچھے آتا ہوا دودھ والا موٹر سائیکل کے بریک لگاتے لگاتے بھی دور تک موٹر سائیکل کے ساتھ گھسٹتا چلا گیا. اس کی کہنی چھلی، کپڑے پھٹے اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ دونوں بالٹیوں کا دودھ ضائع ہو گیا. اب دودھ والا اور اس کے ہالی موالی اس عورت سے نقصان کا ہرجانہ مانگ رہے تھے اور عورت کا کہنا تھا کہ وہ اشارہ دے کر مڑی تھی، اس لیے اس کا قصور نہیں.
اس جھگڑے نے مانو میرے اندر جیسے بجلی بھر دی. میں نے سامنے کھڑے آدمی کو جھٹکے سے ہٹایا اور اس عورت کو باہر آنے کا بولا. وہ ایک عورت کو سامنے دیکھ کر کچھ مضبوطی پکڑتے ہوئے گاڑی سے باہر آ گئی . ابھی اس نے اپنی صفائی میں بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ میں نے اس کے منہ پر تھوکتے ہوئے دیر سے دماغ میں کلبلاتی ہوئی گالی اگل دی…
”حرام زادی!! ہرجانہ تو تیرا باپ بھی دے گا…!!!“