پاکستان کی بین المذاہب دستاویزی فلم نے ایک اور بین الاقوامی ایوارڈ جیت لیا۔

ویب ڈیسک

پاکستانی فٹبال کی دستاویزی فلم، بیٹیرفٹ نے چوتھے سالانہ گلوبل انڈیا انٹرنیشنل فلم فیسٹیول، ممبئی، انڈیا سے بہترین ہدایت کاری کا ایوارڈ جیت لیا- GIIFF، دنیا کے بہترین فلمی میلوں میں شمار ہوتا ہےأ

پچھلے سال دسمبر میں پاکستان کی یہ منفرد بین المذاہب فٹ بال دستاویزی فلم ٹیگور انٹرنیشل فلم فیسٹیول سے ایوارڈ جیت چکی ہے۔

کھیل کی دستاویزی فلم، پاکستان میں فٹ بال کے شمال اور جنوب سے تعلق رکھنے والے،دو سابقہ فٹبالرز اور موجودہ سوکرکوچز کی زندگیوں کے گرد، نوجوان نسل کے فٹ بال کھلاڑیوں کی فٹ بال سے لگاؤ کا دلچسپ احوال ہے۔ ڈاکومینٹری ڈائرکٹر خالد حسن خان نے کہا "یہ کھیل کی دستاویزی فلم سے زیادہ، ایک بین المذاہب اور بین الطباقاتی مکالمہ ہے، جہاں ہندو، میسحی اور زرتشت اقلیتی برادری کے مرد اور خواتین فٹبالرز کے علاوہ، پاکستان کے پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والے فٹبالرز کی زندگیوں کوعسکس بند کیا گیا ہے۔”

 

یہ ڈاکومنٹریی فلم، کراچی سے بنوں تک، فٹ بال کا احاطہ کرتی ہے۔ فلم کے ہدایت کار خالد حسن خان کا کہنا ہے کہ بنوں، پاکستان میں فٹ بال کا سب سے اہم محاذ ہے، جہاں قبائلی علاقے کی سرحدیں، خیبر پختونخوا کی گنجان شہری آبادیوں سے ملتی ہیں ۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کسی طرح لیاری کے فٹبالرز نے خونی گینگ وار کے دوران، فٹبال کا جنون جاری رکھا، علاوه ازیں ماضی میں خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کی کارروائیاں، نوجوان فٹ بال کھلاڑیوں کے جذبے کو ختم نہیں کر سکیں۔

کیپٹن عمر بلوچ

بنوں کے فٹ بال کوچ سیف اللہ خان کا کہنا ہے کہ اگر فٹ بال کے کھیل کو فروغ دیا جائے تو شدت پسندی کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔احمد جان، سابق فیفا ریفری کے مطابق، ایک بار محمڈن اسپورٹنگ کلب، ڈھاکا کے کپتان، دلیپ کمار سے ملنے فلم کے سیٹ پر پہنچے، تو اس عظیم فٹبالر کے احترام میں، فلم مغل اعظم کی شوٹنگ روک دی گئی۔

یہ کپتان محمد عمر تھا، جس کا تعلق لیاری، کراچی سے تھا۔ فلم میں پاکستان کی کثیر الثقافتی خوبصورتی کی مناسبت سے ہم آہنگ، گیت بھی شامل ہے، جس کی شاعری اور دھن، کراچی کے گلو کار ماسٹرنند لال نے تخلیق کی ہے۔

گلو کار ماسٹرنند لال

فلم ہدایتکار کے مطابق "فٹ بال ایسا کھیل ہے جو مختلف مذہبوں کے لوگوں اور سماجی طبقوں میں فاصلے دور کرنے کے علاوہ نئی نسل کو صحتمندانہ تفریح مہیا کرتا ہے اور معاشرہ میں عدم برداشت کے رویے ختم کرتا ہے۔”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close