ایک ایسی مشین، جو دماغی طور پر مفلوج افراد کی آواز بن سکتی ہے!

ویب ڈیسک

سائنسدانوں نے ایک ایسی کمپیوٹرائزڈ ڈیوائس تیار کی ہے، جس کے ذریعے مفلوج انسان کے دماغ سے نکلنے والی لہروں کو پڑھ کر پہلے کے مقابلے میں زیادہ الفاظ میں ترجمہ کیا جاسکتا ہے

اس سے قبل 2021 میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے محققین کی جانب سے ’نیوروپروستھیٹک ڈیوائس‘ کا تجربہ ایک ایسے مفلوج شخص پر کیا گیا تھا، جو کہ بولنے، سمجھنے اور پڑھنے سے قاصر تھا

ماہرین کا کہنا تھا کہ ’نیوروپروستھیٹک ڈیوائس‘ مفلوج شخص کے چھبیس الفاظ کا ترجمہ کرنے میں کامیاب رہی، تاہم اس میں ایک مشکل یہ ہے کہ اگر کوئی بھی شخص انگریزی کا لفظ ’کیٹ‘ یعنی بلی بولے گا تو کمپیوٹر اسے ’بلی‘ کہنے کے بجائے ’چارلی الفا ٹینگو‘ کہے گا

تاہم اب امریکی ماہرین نے اس ٹیکنالوجی میں مزید بہتری کی ہے، ماہرین کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ ڈیوائس فی منٹ میں پہلے کے مقابلے زیادہ الفاظ کا ترجمہ کرسکتی ہے اور پہلے کے مقابلے زیادہ تیز رفتاری سے کام کرے گی

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے محققین کی جانب سے اس ڈیوائس کا تجربہ ایک ایسے مفلوج شخص پر کیا گیا جو بولنے، سمجھنے اور پڑھنے سے قاصر تھا

اڑسٹھ سالہ پیٹ بینیٹ نامی خاتون کو موٹر نیورون بیماری تھی، ماہرین کو امید ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے مفلوج شخص کو دنیا سے جڑے رینے میں مدد مل سکتی ہے

ماہرین کے مطابق تجربے کے دوران جب مفلوج خاتون کے ذہن سے یہ ٹیکنالوجی منسلک کی گئی تو ڈیوائس نے مذکورہ خاتون کے ذہن میں آنے والے الفاظ کا ترجمہ کیا

’نیچر‘ نامی جریدے میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال مارچ میں اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے پیٹ بینیٹ کے دماغ میں چونسٹھ چھوٹے الیکٹروڈ کے ساتھ سلیکون کے چار چھوٹے ٹکڑے لگائے تھے

یہ الیکٹروڈ بہت چھوٹے تھے اور نیورو سائنس کے شعبے میں دماغ کا مطالعہ کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں

دماغ کی بیرونی تہہ یعنی سرمئی مادے کے صرف ڈیڑھ ملی میٹر کے فاصلے تک ان الیکٹروڈز کو لگایا گیا، یہ الیکٹروڈز دماغ کے ان حصوں سے پیدا ہونے والے برقی سگنلز کو ریکارڈ کرتے ہیں جو ہمیں بولنے میں مدد دیتے ہیں

جب اڑسٹھ سالہ پیٹ بینیٹ اپنی زبان کی مدد سے الفاظ بولنے کی کوشش کرتی ہیں تو ایک الگورتھم ان کے دماغ سے نکلنے والی معلومات کو ڈی کوڈ کرتا ہے

جریدے کے شریک مصنف ڈاکٹر فرینک وِلیٹ کا کہنا ہے کہ ’اس سسٹم کو یہ جاننے کے لیے تربیت دی گئی ہے کہ دوسرے الفاظ سے پہلے کون سے الفاظ آنے چاہئیں۔‘

پیٹ بینیٹ کے دماغ کی لہروں کو الفاظ میں تبدیل کرنے والے اس سافٹ ویئر کا چار ماہ تک تجربہ کیا

سافٹ ویئر نے خاتون کے دماغی لہروں کی مدد سے اسکرین پر فی منٹ باسٹھ الفاظ کا ترجمہ کیا، جو پچھلی ٹیکنالوجی کی رفتار سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ عام گفتگو کے دوران فی منٹ میں تقریباً ایک سو ساٹھ الفاظ بولے جاتے ہیں لیکن ابھی تک ایسی ٹیکنالوجی تیار نہیں کی جاسکی جو مفلوج انسان اپنی روزمرہ زندگی میں استعمال کر سکیں

ماہرین نے تسلیم کیا کہ مذکورہ ٹیکنالوجی نے دماغی لہروں کے ذریعے جو الفاظ تبدیل کیے ان میں غلطیاں بھی تھیں، انہوں نے کہا کہ ہر دس میں سے ایک لفظ میں غلطی تھی

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلی ٹیکنالوجی کے مقابلے مذکورہ ٹیکنالوجی کی غلطیوں میں دس فی صد کمی آئی ہے

ڈاکٹر فرینک وِلیٹ کا کہنا ہے کہ فالج کے شکار لوگوں کے ساتھ تیزی سے رابطے کی بحالی کی طرف ایک بڑی پیش رفت ہے

اس کے علاوہ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو میں نیورولوجیکل سرجری کے چیئرمین ایڈورڈ چانگ اور ان کی ٹیم نے ایک اور مفلوج مریض پر تجربہ کیا

ماہرین نے مریض کے دماغ کے بیرونی تہہ پر ایک ایسی ڈیوائس کا استعمال لگائی جس کے cortical material میں 253 الیکٹروڈ موجود تھے

نتائج سے ظاہر ہوا کہ اسٹینفورڈ ٹیم کی ٹیکنالوجی کے مقابلے مذکورہ ڈیوائس نے فی منٹ کے دوران 78 الفاظ کا ترجمہ کیا جو 5 گنا زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے۔

ایڈورڈ چانگ کی ٹیکنالوجی منفرد تھی کیونکہ یہ نہ صرف دماغ کے حصوں سے آنے والی لہروں سے جڑا ہے، بلکہ بڑے سینسرموٹر کارٹیکس کا بھی استعمال کرتا ہے

خیال رہے کہ امریکی ماہرین نے مذکورہ ٹیکنالوجی میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا ہے اور یہ مشین انسان کے دماغی نظام سے منسلک کی جاتی ہے

یہ مشین مفلوج انسان کے دماغ میں آنے والے خیالات یا الفاظ کو اس وقت پکڑ یا پڑھ لیتی ہے جب کوئی شخص ان الفاظ کو کہنے کا سوچ رہا ہوتا ہے

مشین الفاظ یا خیالات کو پڑھ کر انہیں مصنوعی ذہانت کی مدد سے الفاظ میں تبدیل کرکے اسکرین پر دکھاتی یا آڈیو کی صورت میں پڑھ کر بیان کرتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close