ایف آئی اے کے لیے شہباز شریف کو گرفتار کرنا کتنا مشکل ہے؟

نیوز ڈیسک

لاہور – پاکستان میں حکمران جماعت تحریک انصاف اپنے احتساب کے نعرے میں بظاہر انتہائی سنجیدہ دکھائی دیتی ہے۔ اس کی بڑی مثال وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر کا ’اپنا کام‘ پورا نہ کر سکنے کے سبب عہدے سے استعفیٰ دینا ہے

واضح رہے کہ شہزاد اکبر کے استعفے سے پہلے ہی یہ چہ مگوئیاں زوروں پر تھیں کہ شہباز شریف کو گرفتار نہ کرسکنے کی وجہ سے شاید ان کو گھر جانا پڑے۔ ان چہ مگوئیوں کی حکومتی سطح پر کبھی کوئی تردید نہیں کی گئی البتہ ان کا جانا سچ ثابت ہو گیا

اب شہزاد اکبر کی جگہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ مصدق عباسی وزیراعظم کے نئے مشیر برائے احتساب کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ’ادھورے کام ‘ کو پورا کرنے کے لیے ان دنوں لاہور میں ہی ڈیرے جمائے ہوئے ہیں

ذرائع کے مطابق جمعرات کو بھی وہ سارا دن لاہور میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے دفتر میں موجود رہے

نئے مشیر برائے احتساب لاہور میں شہباز شریف کے خلاف مقدمہ تیار کرنے والی ٹیم سے مسلسل بریفنگ لے رہے ہیں اور اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ غلطی کہاں ہوئی؟

یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا واقعی وزیراعظم عمران خان، شہباز شریف کو گرفتار کروانا چاہتے ہیں؟ سیاسی مبصرین اور پارٹی رہنما تو یہی سمجھتے ہیں، لیکن دوسری جانب اگر خود وزیر اعظم کی گذشتہ کچھ عرصے کی تقاریر کا جائزہ لیا جائے تو ان کی تنقید کا محور بھی شہباز شریف ہی ہیں

صحافیوں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران بھی وزیراعظم مسلسل کہتے رہے کہ ’آپ کو شہباز شریف کی کرپشن کا اندازہ ہی نہیں، جس دن آپ پر راز عیاں ہوگا، آپ نواز شریف کو بھول جائیں گے۔‘

صحافی اور اینکر پرسن اجمل جامی بھی اس ملاقات میں موجود تھے اور انہوں نے اس جملے کی تصدیق کی ہے

اسی تناظر میں گذشتہ دنوں پارلیمنٹ کی راہداریوں میں شہباز شریف نے آن کیمرہ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں عمران خان کے حواس پر سوار ہوں، ان کو میری وجہ سے نیند بھی نہیں آتی۔‘

اس ساری صورت حال سے ایک بات تو طے ہے کہ شہباز شریف کو کسی بھی طریقے سے گرفتار کرنا حکومت کی بنیادی ترجیحات میں شامل ہے

ایف آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گذشتہ تین روز سے بریگیڈئیر مصدق عباسی شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے کیس کی تمام جزئیات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ’انہوں نے کئی جگہ پہ سوال اٹھایا ہے کہ مقدمہ کس نے اور کیوں خراب کیا ہے اور اب ایف آئی اے کے پاس مزید آپشن کیا رہ گئے ہیں۔‘

لیکن اسی دوران ایک دلچسپ صورت بھی پیدا ہوئی، جب شہباز شریف کے کیس کی تفتیش کرنے والے افسران کو اچانک منگل یکم فروری کو تبدیل کر دیا گیا

دستیاب نوٹیفیکیشن کے مطابق ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور ریجن ڈاکٹر رضوان نے ڈی جی ایف آئی کو مطلع کیا ہے کہ ’ان افسران کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ انتہائی ہائی لیول کیسز کی تفتیش کر رہے ہیں۔ ‘

تاہم ابھی تک یہ تبادلوں کے آرڈر واپس نہیں ہوئے

اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ شہباز شریف کے مقدمے میں آخر ہوا کیا؟ تو اس سلسلے میں ایف آئی اے کے اعلی افسر کے مطابق ’اس کیس میں پہلی خرابی اس وقت آئی جب بینکنگ کورٹ میں چالان جمع کروانے کے بعد ایف آئی اے کی پراسیکیوشن ٹیم نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس میں ملوث تمام سولہ بینک ملازمین کے خلاف مقدمہ ثابت نہیں ہوا اس لئے ان کے نام مقدمے سےہٹا دئیے گئے ہیں۔ اب یہ کیس بینکنگ جرائم کورٹ کا رہا ہی نہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد یہ کیس اسپیشل جج سنٹرل ون کے پاس لگا دیا گیا (جو کہ ایف آئی اے کے کیس سنتے ہیں)۔

خیال رہے کہ ایف آئی اے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ بنایا تھا اور الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے جعلی اکاؤنٹ بنا کر رقم بیرون ملک بھیجی۔ اس مقدمے میں بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنے والے بینک ملازمین کو بھی جرم کی اعانت کے باعث نامزد کیا گیا تھا

مئی 2020ع میں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے نے اسی عدالت نے عبوری ضمانتیں کروا لیں جو کہ آج تک جاری ہیں۔ اسی دوران ایف آئی اے نے مقدمے کا چالان بھی عدالت میں جمع کروا دیا

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا

بینکنگ جرائم کورٹ کے ماہر وکیل ایڈووکیٹ عثمان اعوان سمجھتے ہیں کہ اس کیس کی جو صورت حال اس وقت ہے، اس میں شہباز شریف کو پکڑنا تقریباً ناممکن ہے

عثمان اعوان نے بتایا کہ ’دوچیزیں غلط ہوئی ہیں ایک تو اس کیس کو بینکنگ جرائم کورٹ سے واپس نہیں لیا جانا چاہیے تھا کیونکہ مقدمہ ہے ہی فیک بینک اکاونٹس سے متعلق یہ کیس سپیشل جج سنٹرل کا ہے ہی نہیں۔ جبکہ دوسری بات یہ ہوئی ہے کہ کیس کا چالان جمع کروا دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس مقدمے میں مزید تفتیش کی ضرورت نہیں رہی اب تو صرف ٹرائل ہونا ہے۔ اگر تفتیش پوری ہو چکی ہے تو پھر گرفتاری کس بات کی؟‘

ایڈووکیٹ عثمان کے مطابق ’اب حکومت کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ اس مقدمے شہباز شریف کے خلاف کوئی ایسا ثبوت عدالت میں لے کر آئیں جس میں مزید تفتیش کی ضرورت ہو جو کہ اس طرح کے مقدموں میں کم ہی ہوتا ہے۔‘

یاد رہے کہ اسپیشل جج سنٹرل نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت میں 10 فروری تک توسیع کر رکھی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close