پاکستان کو بلوچستان میں حملوں کے لیے ایرانی سرزمین استعمال ہونے کا شُبہ، حملوں کے پیچھے مجید بریگیڈ کون ہے؟

ویب ڈیسک

کوئٹہ – بلوچستان میں ایف سی کے کیمپوں پر شدت پسندوں کے حملوں میں فورسز اور سویلین کی اموات پندرہ تک پہنچ گئی ہے۔ حکام کے مطابق نوشکی میں ایک افسر، چار اہلکار اور ایک سویلین ہلاک ہوا جبکہ پنجگور میں سات سکیورٹی اہلکار اور دو عام شہری ہلاک ہوئے

سنہ 2018 سے اب تک ایسے سات حملے ہو چکے ہیں، نوشکی اور پنجگور میں حالیہ حملوں کو مجید بریگیڈ نے فدائی حملے قرار دیا ہے

اس سے قبل 30 دسمبر 2011 کو کوئٹہ میں سردیوں کی ایک شام کو ارباب کرم خان روڈ پر ایک کار ایک گھر کے باہر اس کے بعد ایک شدید دھماکہ ہوا۔ یہ گھر سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل کا تھا

اس حملے میں شفیق مینگل محفوط رہے جبکہ ان کے محافظوں سمیت دس افراد ہلاک اور تئیس زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی اور کہا کہ مجید بریگیڈ کی جانب سے فدائی نوجوان درویش نے یہ حملہ کیا تھا

مجید بریگیڈ اور اس کے فدائین کا نام پہلی بار اس حملے کے بعد سامنے آیا تھا۔ اس کے بعد اس بریگیڈ کا کوئی واضح حملہ نظر نہیں آتا

تقریباً سات سال کے بعد اگست 2018ع کو بلوچستان کے سونے اور تانبے کے ذخائر والے ضلع چاغی کے صدر مقام دالبندین میں ایک ٹرک سامنے سے آنے والی بس، جس میں چینی انجنیئرز سوار تھے، ٹکرا گیا جس کے نتیجے میں تین چینی انجنیئروں سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے

بی ایل اے کی مجید بریگیڈ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی اور بتایا کہ حملہ آور نوجوان ریحان تھا، جو مجید بریگیڈ کے سربراہ اسلم استاد عرف اسلم اچھو کا بیٹا تھا

اسی سال یعنی 2018ع کو کراچی میں نومبر میں چین کے سفارتخانے پر حملہ کیا گیا، جس میں چار حملہ آور پولیس مقابلے میں مارے گئے، اس حملے کی ذمہ داری بھی مجید بریگیڈ نے ہی قبول کی

2019ع میں اس گروپ نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے مرکز گوادر شہر میں پی سی ہوٹل پر حملہ کیا، جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے جبکہ تین حملہ آور مارے گئے۔ مجید بریگیڈ نے اس کارروائی کو فدائی مشن قرار دیا

اس کے اگلے سال جون 2020ع میں کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا گیا جہاں چار حملہ آور مارے گئے، اس حملے کی ذمہ داری بھی مجید بریگیڈ نے ہی قبول کی تھی

ستمبر 2021ع میں بھی کوئٹہ میں مستونگ روڈ پر شدت پسندوں نے ایک سکیورٹی چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا تھا جس میں سکیورٹی فورسز کے کم از کم تین اہلکار ہلاک ہوئے تھے

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے نوشکی اور پنجگور میں ایف سی کے ہیڈکوارٹرز پر شدت پسندوں کی جانب سے کیے گئے حملوں کے نتیجے میں اب تک سات فوجیوں کی ہلاکت اور چار کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے

آئی ایس پی آر کے مطابق اب تک مجموعی طور پر تیرہ حملہ آور مارے جا چکے ہیں

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے گذشتہ شب جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا تھا کہ پنجگور میں دہشت گردوں نے دو مقامات سے ایف سی کے دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن بروقت کارروائی سے انہیں ناکام بنا دیا گیا تھا

قبل ازیں وزیراعلٰی بلوچستان کے مشیر برائے داخلہ میر ضیا اللہ لانگو نے بتایا تھا کہ نوشکی میں آپریشن مکمل کرکے نو دہشت گرد مار دیے گئے ہیں ، جبکہ پنجگور میں تاحال آپریشن جاری ہے، فورسز نے بازار کی طرف فرار ہونے والے چار سے پانچ دہشت گردوں کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور ان کے ساتھ مقابلہ جاری ہے

جمعرات کو کوئٹہ میں نیوز کانفرنس کے دوران ضیا اللہ لانگو کا کہنا تھا کہ بدھ کی شب نوشکی اور پنجگور میں ایف سی کیمپس پر حملہ کیا گیا جنہیں فورسز نے جانوں پر کھیل کر ناکام بنایا

اںہوں نے بتایا کہ نوشکی میں ایک افسر اور چار اہلکاروں کے علاوہ اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی ہلاکت ہوئی۔ ایف سی کے 12 جوان زخمی بھی ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ پنجگور میں سات جوان ہلاک اور گیارہ زخمی ہوئے

میر ضیا لانگو نے کہا کہ پنجگور میں آپریشن جاری ہے، چار دہشت گرد پنجگور بازار میں چھپ گئے ہیں جنہیں شہر بند کرکے تلاش کیا جا رہا ہے۔ اب تک کی کارروائی میں کتنے دہشت گرد مارے گئے یہ نہیں بتاسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان میں دہشت گردی کی لہر ایک سے دو دہائیوں سے جاری ہے، سکیورٹی فورسز اپنے خون کا نذرانہ پیش کرکے امن قائم کررہی ہیں۔‘

مشیر داخلہ کا کہنا تھا ”بلوچستان اور پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان سے سپورٹ مل رہی ہے۔“

انہوں نے کہا ”اس کے علاوہ ایرانی سرزمین سے بھی غیر ریاستی عناصر فائدہ اٹھارہے ہیں، ایران سے یہ معاملہ اٹھایا گیا ہے اور ایرانی حکام نے کارروائی کی یقین دہائی کرائی ہے۔“

اس کے علاوہ پنجگور کے علاقے چتکان سے دو افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں عام شہری تھے جن کی موت گولیاں لگنے سے ہوئی ہے

پولیس کے مطابق : دونوں افراد دہشت گردوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کے دوران گولیوں کی زد میں آکر ہلاک ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک کی شناخت پنجگور کے علاقے تسپ کے رہائشی احتشام کے نام سے ہوئی ہے

ایک پولیس افسر نے نام ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’نوشکی میں کلیئرنس آپریشن کے دوران ہلاک حملہ آوروں سے ملنے والے جدید اسلحہ میں پانچ آر ٹین اسنائپر رائفلز اور اس کے چالیس بھرے میگزین شامل ہیں۔‘

’اس کے علاوہ 23 دستی بم، دو راکٹ لانچرز، 18 راکٹ گولے، دو رائفل گرینیڈ شامل ہیں جبکہ نائٹ ویژن کیمرے، بیٹریاں، وائرلیس اور تین موبائل فونز بھی ملے ہیں۔‘

مجید بریگیڈ نام کہاں سے آیا؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران جب بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت یعنی نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو بر طرف کیا جا چکا تھا تو مزاحمت شروع ہو چکی تھی

سنہ 1975 میں اگست کے مہینے میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کوئٹہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے کے لیے پہنچے تو ایک دستی بم دھماکے میں مجید لانگو نامی نوجوان ہلاک ہو گیا بعد میں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ نوجوان بھٹو پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا

مجید لانگو کا تعلق منگوچر کے علاقے سے تھا اور وہ طالب علمی سے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن یعنی بی ایس او سے وابستہ تھا

مجید لانگو کی ہلاکت کے بعد ان کے چھوٹے بھائی کی ولادت ہوئی جس کا نام مجید رکھا گیا، جس نے کالعدم بلوچ لبرشین آرمی میں شمولیت اختیار کی اور سنہ 2011 میں کوئٹہ کے قریب قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ایک مقابلے میں ہلاک ہو گیا

بی ایل اے کا کہنا ہے کہ اسی ہلاکت والے دن اس فدائی گروپ کی تشکیل کا اعلان ہوا اور استاد اسلم نے اس کا نام دونوں بھائیوں کی بہادری کے پیش نظر مجید بریگیڈ رکھا

مجید بریگیڈ کیوں بنائی گئی؟

واضح رہے کہ بلوچستان میں حالیہ مسلح جدوجہد کا آغاز سابق وزیر اعلیٰ اور سینئیر سیاستدان نواب اکبر بگٹی کی ایک فوجی آپریشن میں ہلاکت کے بعد ہوا تھا

بلوچستان میں اس وقت بلوچستان لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ریپبلکن آرمی، بلوچ نیشنل گارڈ دیگر تنظیمیں اور ان کے گروپس شامل ہیں جو مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں

حکومت پاکستان نے ان کی سرگرمی کو دہشتگردی قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ان میں سب سے پرانی تنظیم بی ایل اے ہے

بلوچستان میں جاری عسکری تحریک پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ نگار شہزادہ ذوالفقار بتاتے ہیں کہ اسلم اچھو اور بشیر زیب نے مجید بریگیڈ کی بنیاد رکھی تھی

ان کے تربیتی اور اشاعتی مواد کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ سوچ تھی کہ وہ کچھ مزید پیشرفت کریں کیونکہ سب سے خطرناک اقدام یہ ہی ہوتا ہے کہ آپ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہیں پر گھس جائیں

کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے کمانڈر اور مجید بریگیڈ کے سربراہ بشیر زیب بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین رہے ہیں۔ بعد میں انہوں نے بی ایل اے میں شمولیت اختیار کی

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے تحریری طور پر بھیجے گئے سوالات کے تحریری جواب میں کہا ہے کہ ’مجید بریگیڈ کے قیام کے مقاصد یہ تھے کہ عسکری حوالے سے مخالف کو وہاں ضربیں لگائی جائیں، جہاں روایتی گوریلا جنگ میں ممکن نہیں اور اس کا سیاسی مقصد دنیا اور دشمن کو یہ دِکھانا ہے کہ بلوچ آزادی کے حق سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اس مقصد کے لیے ہم اپنی جانوں کے نذرانے پیش کریں گے۔‘

یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’مجید بریگیڈ اور باقی مزاحمت کاروں میں فرق یہ ہے کہ گوریلا کو حملہ کر کے بحفاظت نکلنے کی تربیت ہوتی ہے جبکہ بریگیڈ کے فدائی کو اپنی جان کے قیمت پر مقصد حاصل کرنے کی تربیت ہوتی ہے، جس میں طویل مزاحمت کے لیے جسمانی برداشت کی بھی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔‘

قوم پرست اور سیکولر فدائی حملے

دنیا میں اپنے سیاسی مقصد کے لیے فدائی حملوں کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ اس بارے میں حسن الصباح، روس، یونان کی مثالیں دی جاتی ہیں

پاکستان انسٹیٹوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر اور شدت پسندی و عسکرت پسندی کے ماہر عامر رانا کا کہنا ہے کہ جو بھی سیکولر تحریکیں رہی ہیں ان میں بھی فدائی مشن کا سلسلہ رہا ہے، پھر چاہے وہ جاپان کی ہو یا تامل ٹائیگرز کی

وہ کہتے ہیں ’سری لنکا کے تامل ٹائیگرز نے بھی فدائی حملے خود شروع نہیں کیے تھے بلکہ انھوں نے یہ تصور یونان سے لیا تھا۔ یہ تحریکیں ایک دوسرے کو کاپی کرتی ہیں۔ ایک عام تاثر یہ ہوتا ہے کہ اس میں مذہبی اثرات ہیں جبکہ قوم پرستی کی اپنے اثرات اور روایات ہیں۔‘

یاد رہے کہ مذہبی شدت پسند تنظیمیں نوجوانوں کو خودکش حملوں کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ان نوجوانوں کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مؤقف ہے کہ ان کا برین واش کیا جاتا ہے

بشیر زیب کا دعویٰ ہے کہ مجید بریگیڈ، بلوچ لبریشن آرمی کا مکمل طور پر ایک رضاکار ونگ ہے، اس میں کسی کو شامل نہیں کیا جاتا بلکہ نوجوان خود شعوری فیصلہ کرکے شامل ہوتے ہیں

وہ کہتے ہیں کہ شمولیت کے بعد تمام فدائیوں کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت، اپنا فیصلہ واپس لے سکتے ہیں

اپنے خودکش حملوں کے متعلق ان کا کہنا ہے ”مذہب سب کا ذاتی معاملہ ہے، اجتماعی حوالے سے مجید بریگیڈ کسی سے جنت کا وعدہ نہیں کرتا۔“

بلوچستان کی مزاحمتی تحریک زیادہ تر پہاڑوں میں رہی ہے جبکہ مجید بریگیڈ نے شہری علاقوں میں بھی اہداف کو نشانہ بنایا ہے جس میں کراچی اور گوادار کے حملے شامل ہیں

عامر رانا کا کہنا ہے کہ بلوچ لبریشن فرنٹ نے ایران میں 1973 کی دہائی میں یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔ پہلے شاہ ایران کے خلاف، اس کے بعد جو انقلاب آیا اس کی حکومت کے خلاف شہروں میں کارروائیاں کی گئیں

ان کے مطابق پاکستان میں بلوچ عسکریت پسندی میں اس طرز کے حملوں کی شدت بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تحریک میں تعلیم یافتہ نوجوان بھی آرہے ہیں

’ان تک معلومات کی رسائی آسان ہو گئی ہے اور انہیں معلوم ہے کہ پوری دنیا میں کس قسم کی گوریلا تحریکیں جاری ہیں، کونسا حملہ زیادہ طاقتور ہو سکتا ہے۔‘

ان کے مطابق اس میں مشن بے شک ناکام بھی ہو جائے، پر اس کو کوریج اتنی مل جاتی ہے کہ ریاست کے لیے وہ ایک مسئلہ بن سکتا ہے کیونکہ ان حملوں کا مقصد پیغام پہنچانا ہوتا ہے، جس میں وہ کامیاب رہتے ہیں

افغانستان میں تبدیلی اور حملوں میں شدت

پاکستان میں عسکریت پسند تنظیموں کی کارروائیوں کی نگرانی کرنے والے ادارے پاکستان انسٹٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2020 کے مقابلے میں 2021 میں بلوچستان میں حملوں میں 43 فیصد اضافہ ہوا

رپورٹ کے مطابق درحقیقت بلوچستان دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ خطہ تھا، جہاں ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں 93 فیصد اضافہ ہوا

رپورٹ کے مطابق افغانستان میں پناہ گزین رہنما اور عسکریت پسندوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ بلوچستان منتقل ہوں، حملوں کی شدت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے

پاکستان کا دعویٰ رہا ہے کہ افغانستان میں بلوچ مزاحمت کاروں کے کیمپ موجود ہیں۔ اس حوالے سے انڈیا پر ان کی پشت پناہی کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے

تجزیہ نگار شہزادہ ذوالقفار کا کہنا ہے کہ جب سے طالبان افغانستان میں اقتدار آئے ہیں، حملے بڑھے ہیں اور وہاں نامعلوم افراد کے حملے میں بعض عسکریت پسند رہنما مارے بھی گئے ہیں

’افغانستان میں تبدیلی کے باوجود جو ایکشن ہوئے ہیں ان میں اضافہ ہوا ہے، خیال تو یہ ہی کیا جا رہا تھا کہ طالبان کے آنے سے یہ سارے معاملات ختم ہو جائیں گے۔‘

عامر رانا کہتے ہیں کہ ’اس میں طالبان نے کوئی زیادہ تعاون نہیں کیا۔ انھوں نے ان عسکریت پسندوں کو فی الحال وہاں رہنے کی اجازت دی ہے اور کہا ہے کہ آپ کا فیصلہ بعد میں کریں گے۔ دوسرا کیمپ انھیں ایران میں ملا ہے، وہاں تربیتی کیمپ تو نہیں ہیں لیکن آپریش کے بعد انھیں پناہ گاہیں مل جاتی ہے، یہ ایک نیا پہلو ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close