واشنگٹن – امریکی حکام کا کہنا ہے کہ روس نے اپنی کم از کم 70 فیصد فوجی طاقت کو جمع کر لیا ہے
امریکی حکام نے ایک مرتبہ پھر خبردار کیا ہے کہ صدر ولادی میر پوتن رواں ماہ کے وسط تک یوکرین پر پوری طاقت سے حملے کا حکم دے سکتے ہیں
یوکرین کی سرحدوں پر ایک لاکھ سے زیادہ فوج اکٹھی کرنے کے بعد بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے، کہ روس کے صدر ولادی میرپوتن حملے کی تیاری کر رہے ہیں
امریکا کا ماننا ہے کہ یقینی طور پر ایسا ہی ہے۔ صدر جوبائیڈن یوکرین کے صدر ولودی میر زیلنسکی کو خبردار بھی کر چکے ہیں کہ فروری میں یوکرین پر حملہ کیا جا سکتا ہے، لیکن دوسری طرف روس حملے کی تیاری کی تردید کر رہا ہے اور پوتن کے ارادے پردے میں ہیں
خبر رساں ادارے (اے پی ایسوسی ایٹڈ پریس) کے مطابق امریکی اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جو اشارے مل رہے ہیں، ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روسی صدر چند ہفتوں میں یوکرین پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تاہم اس حملے کی شدت ابھی واضح نہیں ہے
امریکی حکام کی جانب سے بیان کیے گئے اندازوں کے مطابق روس کی اسٹریٹجک نیوکلیئر فورس ایک مشق، جو عام طور پر ہر موسم خزاں میں منعقد کی جاتی ہے، اب فروری کے وسط سے مارچ کے لیے دوبارہ ترتیب دی گئی ہے
امریکی انٹیلیجنس حکام بھی حملے کے لیے ممکنہ طور پر اسی عرصے کا اندازہ لگا رہے ہیں
تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ممکنہ جنگ میں جوہری ہتھیاروں کا استعمال شامل ہو گا یا نہیں، لیکن روسی مشق، جس میں ممکنہ طور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے تجربات بھی شامل ہیں، کو ایک سخت پیغام کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جس کا مقصد مغرب کو یوکرین کے معاملے میں مداخلت سے باز رکھنا ہے
واضح رہے کہ امریکی حکام کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں کئی بار اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ روس کے حملے کی صورت میں یوکرین کی فوج نسبتاً تیزی سے مغلوب ہو سکتی ہے، تاہم ماسکو کے لیے اس قبضے کو برقرار رکھنا اور ممکنہ شورش سے نمٹنا مشکل ہو سکتا ہے
ہفتے کو امریکی جریدوں نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ میں امریکی حکام کے حوالے سے شائع ہونے والی خبروں میں بتایا گیا تھا کہ ’امریکی حکام خبردار کر رہے ہیں کہ پوری طاقت سے حملے کرنے پر روس کیف پر فوری قبضہ کر سکتا ہے اور اس جنگ میں ممکنہ طور پر پچاس ہزار ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔‘
ایک امریکی اہلکار نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو ان اندازوں کی تصدیق کی ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ امریکی ایجنسیوں نے ان اعداد و شمار کا تعین کیسے کیا ہے
جبکہ اس کے علاوہ اس بارے میں کوئی پیشن گوئی نہیں کی گئی کہ یہ حملہ کس طرح آگے بڑھے گا اور یہ کہ جنگ کے انحراف کی صورت میں انسانی ہلاکتیں غیر یقینی ہیں
امریکی صدر جو بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ وہ جنگ کے لیے امریکی فوجیوں کو یوکرین نہیں بھیجیں گے، تاہم وہ اضافی فوجی دستے پولینڈ اور رومانیہ بھیجنے کا حکم دے چکے ہیں تاکہ ان نیٹو اتحادیوں کو یقین دلایا جائے کہ واشنگٹن نیٹو ممالک کے خلاف روسی جارحیت کا جواب دینے کے لیے اپنے معاہدے کو پورا کرے گا
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ یوکرین نیٹو کا رکن نہیں ہے لیکن اس کے باوجود امریکی اور اتحادی ممالک کیف کو فوجی مدد اور تربیت فراہم کر رہے ہیں
دوسری جانب خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یوکرین پر روس اور مغربی ممالک کے درمیان تناؤ میں اضافے کے بعد امریکی کمک میں شامل فوجی جرمنی اور پولینڈ پہنچ چکے ہیں
امریکی ملٹری کی یورپین کمانڈ کے مطابق ان فوجیوں کو بھیجنے کا مقصد یوکرین کی سرحد پر روس کی موجودگی کے تناظر میں مشرقی یورپ اور جرمنی میں نیٹو اتحاد کے موجودگی کو مزید مضبوط کرنا ہے
کمانڈ ترجمان کا کہنا تھا کہ ’اٹھارویں ایئربورن کور کے فوجی ویزباڈن پہنچ چکے ہیں۔‘
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان فوجیوں کی آمد کا مقصد پولینڈ روانہ کیے جانے والے سترہ سو پیراٹروپرز کے لیے جرمنی میں ہیڈکوارٹرز قائم کرنا ہے۔‘
بیان کے مطابق ’پینٹاگون کے اعلان کے بعد یورپ بھیجے جانے والے یہ فوجی دو ہزار فوجیوں کی کھیپ کا پہلا دستہ ہیں۔ جن کا مقصد امریکا کی جانب سے اپنے نیٹو اتحادیوں کو حمایت فراہم کرنا ہے۔‘
پینٹاگون کے مطابق جرمنی کے علاقے ولسیک میں تعینات اسٹرائیکر اسکواردن کے لگ بھگ ایک ہزار فوجیوں کو رومانیہ بھیجا جائے گا جب کہ بیاسیویں ایئر بورن ڈویژن کے سترہ سو فوجیوں کو پولینڈ روانہ کیا جائے گا
ان کے علاوہ تین سو امریکی فوجیوں کو بھی جرمنی روانہ کیا جائے گا
یاد رہے کہ روس نے مطالبہ کیا ہے کہ نیٹو مشرقی یورپ سے اپنے فوجی اور ہتھیار ہٹا لے، جبکہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت پر بھی پابندی عائد کی جائے
امریکا اور اس کے نیٹو اتحادی روس کے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ روس کے ساتھ اعتماد کی بحالی سمیت ہتھیاروں کے کنٹرول جیسے معاملات پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں
یوکرین پر حملے کے علاوہ روس کے پاس کیا امکانات موجود ہیں؟
ایسوسی ایٹڈ پریس کے تجزیہ کاروں بین فوکس اور ولادی میر آئزیکنکوف کے مطابق روس جس سے نیٹو یہ وعدہ چاہتا ہے کہ وہ اپنا دائرہ یوکرین تک نہیں بڑھائے گا، اس کے پاس یوکرین پر مکمل حملے کے علاوہ بھی راستے موجود ہیں جنہیں وہ اختیار کر سکتا ہے
سال 2014 میں روس نے جزیرہ نما کریمیا کو یوکرین سے چھین لیا تھا۔ اس سال روس نے مشرقی علاقے ڈونبس میں باغیوں کو مسلح کرنا بھی شروع کر دیا۔ اس طرح ایسی خوفناک لڑائی شروع کی گئی جس میں 14 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ روس کے معاملے میں بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ یوکرین کی سرحد پر روسی فوج اور بحریہ کا حالیہ اجتماع یوکرین کو کمزور کرنے کی بڑی کوشش کا اگلا باب ہے
روس شاید اس موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے کہ یورپ میں امریکا اور اس کے اتحادی کووڈ 19 اور دیگر مسائل میں الجھے ہوئے ہیں
ان حالات کے پیش نظر روس کی طرف سے ممکنہ اقدامات میں اس کے حمایت یافتہ باغیوں کو اضافی مدد فراہم کرنا یا محدود حملہ شامل ہے، جو یوکرینی صدر زیلنسکی کو غیر مستحکم کرنے اور کریملن کے حامی رہنما کو اقتدار میں لانے کے لیے کافی ہوگا
یورپ میں امریکی فوجوں کے سابق کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل بین ہوجز کا کہنا ہے کہ یوکرین پر مکمل حملہ نہ کرنے کی صورت میں روس کو سرحد پر مزید فوج لانے سمیت امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے بطور سزا پابندیاں عائد کرنے کے اعلان کو آزمانے کا موقع مل جائے گا۔
معاشی جنگ
روس توانائی کے عالمی شعبے میں ایک بڑا ملک ہے۔ وہ امریکا اور سعودی عرب کے بعد تیل پیدا کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ یورپ میں استعمال ہونے والی قدرتی گیس کا تقریباً 40 فیصد روس فراہم کرتا ہے۔ خاص طور پرروس ترقی پذیر ممالک کو گندم کا بڑا برآمد کنندہ بھی ہے۔ توانائی کی فراہمی میں کمی کا کوئی بھی اقدام سردیوں میں یورپ کے لیے تکلیف دہ ہو سکتا ہے جہاں گیس اور تیل کی قیمتیں پہلے سے زیادہ ہیں۔ اسی طرح خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں دنیا بھر میں ایک مسئلہ ہے
اٹلانٹک کونسل یورشیا سنٹر میں سینیئر فیلو اور امریکی محکمہ خارجہ کے سابق عہدے دار ایڈورد فشمین کے مطابق پوتن کے پاس کچھ معاشی طاقت بھی ہے، لیکن ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ وہ اسے استعمال کریں گے جب کہ ایسا کرنے سے مستقبل میں روس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یورپ کو گیس کی فراہمی روکنے کا کوئی بھی قدم یورپی ملکوں کو مستقبل کے توانائی کے متبادل تلاش کرنے پر مجبور کر دے گا
سائبر حملے
اس میں کوئی شک نہیں کہ روس یوکرین سمیت پوری دنیا میں بڑے سائبر حملے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ کسی بھی کارروائی کے حصے کے طور پر اپنے ہمسایہ ملک پر یقیناً دوبارہ سائبر حملہ کرے گا۔ امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی نے 23 جنوری کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خبردار کیا تھا کہ اگر روس نے یہ سمجھا کہ یوکرین پر حملے کی صورت میں اس کے خلاف جوابی کارروائی اس کی’طویل المدت سلامتی‘کے لیے خطرہ ہے تو روس امریکہ پر سائبر حملہ شروع کرنے پر غور کرے گا۔ ان حملوں میں اہم بنیادی ڈھانچے کے خلاف ممکنہ کارروائیاں بھی شامل ہیں
روس پر مغرب کو شبہ ہے کہ اس نے 2015ع میں یوکرین میں بجلی کی فراہمی کے نظام پر سائبر حملہ کیا تھا جب کہ اس ماہ ہیکرز نے یوکرین کی سرکاری ویب سائٹس بند کر دی تھیں۔ ہوجز نے خبردار کیا ہے کہ’روس کے زمینی یا فضائی حملے جتنے بھی بڑے پیمانے پر ہوں، وہ جو کچھ بھی کرے، سائبر حملے اس کا بڑا حصہ ہوں گے۔‘
چین کا کردار
یوکرین کے بحران میں چین کا براہ راست کوئی کردار نہیں ہے لیکن اس کا ایک اہم پہلو ضرور ہے۔ مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ ماسکو، چین کے ساتھ فوجی تعلقات کو مضبوط بنا کر واشنگٹن کی طرف سے اپنے سکیورٹی مطالبات کو مسترد کیے کا جواب دے سکتا ہے
روس اور چین کئی مشترکہ جنگی مشقیں کرچکے ہیں جن میں بحری مشقیں اور بحیرہ جاپان اور مشرقی بحیرہ چین پر طویل پرواز کرنے والے بمبار طیاروں کا گشت شامل ہے
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ کی طرف سے بیجنگ میں سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں صدارت کا موقع اہم ہو گا، اس لیے وہ نہیں سمجھتے کہ روس یوکرین پر حملہ کرے گا۔ امریکی حکام کے مطابق: ’جنگ کی صورت میں اولمپکس میں رکاوٹ پیدا ہونے پر چینی خوش نہیں ہوں گے۔‘واضح رہے کہ پوتن بیجنگ اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ چین پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگاتے ہوئے کھیلوں میں حصہ نہیں لے رہے۔
لاطینی امریکہ میں روسی فوج کی تعیناتی
سینیئر روسی حکام خبردار کر چکے ہیں کہ ماسکو، کیوبا اور وینزویلا میں فوج یا فوجی اثاثے تعینات کر سکتا ہے۔ اگرچہ اس عمل کے امکانات کم ہیں حالانکہ روس کے ان دونوں ممالک اور نکاراگوا کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں
قومی سلامتی کے امریکی مشیر جیک سلیون نے اس خیال کو مسترد کر دیا ہے اور خطے اور دنیا بھر کے ماہرین اسے ایک ایسی حکمت عملی کے طور پر دیکھتے ہیں جو ممکنہ طور پر زیادہ کچھ حاصل نہیں کر سکے گی، سوائے اس کے کہ درکار روسی افواج کو کہیں اور منتقل کیا جائے، اور اس طرح ہونے کا امکان نہیں ہے
زیادہ امکانی منظر نامہ یہ ہے کہ روس لاطینی امریکہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ سمیت دیگر جگہوں پر تقسیم کو تیز کرنے کے لیے پہلے سے ہی وسیع پروپیگنڈے اور غلط معلومات کی کوششوں کو تیز کر رہا ہے
علاقائی اور دنیا کے دوسرے حصوں کے ماہرین کی رائے میں شائد اس حکمت عملی کا کا زیادہ فائدہ نہ ہو سوائے اس کے وہ روسی فوج یہاں منتقل کر دی جائے جس کی کہیں اور ضرورت ہے۔ اس لیے لاطینی امریکہ میں روسی فوج کی تعیناتی کا امکان نہیں ہے
سفارتی حل
بحران کا یہ نتیجہ مسترد نہیں کیا گیا کہ روس یوکرین پر حملہ کر دے گا۔ اگرچہ بائیڈن انتظامیہ کہہ چکی ہے کہ وہ روس کے سکیورٹی کے مطالبات تسلیم نہیں کرے گی لیکن ایسا لگتا ہے کہ سفارت کاری کے لیے اب بھی کچھ گنجائش موجود ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے جمعرات کو کہا کہ امریکی ردعمل سے’دوسرے سوالات پر سنجیدگی کے ساتھ بات چیت شروع کی امید پیدا ہوئی ہے۔‘
ادھر فرانس، جرمنی، یوکرین اور روس نے 2015 کے معاہدے کی بحالی کے لیے دو ہفتے میں مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے تا کہ مشرقی یوکرین میں کشیدگی کم کی جا سکے۔ بعض مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایسا ہوا تو روس کے خلاف متحدہ محاذ دکھانے کی امریکہ اور نیٹو کی کوششیں مشکلات کا شکار ہو جائیں گی
روسی صحافی یولیا لیتی نینا نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں کہا ہے کہ کشیدگی میں کمی دنیا کے لیے تو اچھی ہو سکتی ہے لیکن پوتن کو مہنگی پڑے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ روسی صدر نے فوج کو دھمکانے کے یوکرین کی سرحد پر جمع کیا ہو جس سے انہیں امید ہو کہ وہ امریکہ اور یورپ کو یوکرین کے قریب ہونے کے ارادے سے باز رکھ سکیں گے۔ روسی صحافی کے مطابق: ’امریکہ کو جال میں پھنسانے کی بجائے پوتن خود پھنس گئے ہیں۔ لڑائی یا ذلت آمیز پسپائی کے درمیان پھنسے ہوئے وہ کسی بھی کارروائی کے لیے اپنے لیے گنجائش کو اس انداز میں کم ہوتا دیکھ رہے جس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘