قیمت تو وہ چھلکا بھی رکھتا ہے، جسے کیلا کھا کر تم نے سڑک پہ پھینکا
اگر کوئی پھسل گیا تو علاج پہ لگنے والے ہزاروں روپے قیمت اور گل سڑ کے مٹی کے ساتھ مل گیا تو کھاد، کہ جو اور کچھ نہیں تو خود رو پودے ہی اگا دے گی
عین اسی طرح قیمت ہر لمحے کی ہوتی ہے! قیمت ہر سانس کی ہوتی ہے اور قیمت ہر فیصلے کی ہوتی ہے
کچھ جاننا چاہتے ہو تو جواب کی قیمت ہوگی۔ وہ قیمت اپنی بے فکری بیچ کر تم ادا کرو گے۔ آزاد رہنا چاہتے ہو تو لوگوں سے بندھے رشتے لٹانا ہوں گے، گرفتار رہے تو زنجیروں میں رہنے کا سودا آزادی کے بھاؤ پر ہو گا!
محبت کرلی تو سکون کے مول کی، دھوکا دیا تو کئی اعتباروں کا خاتمہ کیا، دائیں ہاتھ گئے تو بائیں طرف کو چھوڑا اور جو بائیں جانب رخ کیا تو داہنی سائیڈ جاتی رہی۔ سوال مگر یہ ہے کہ تم نے کس چیز کا مول چکایا؟
زندگی نری سودے بازی ہے۔ اچھی یادیں بنانی ہیں تو ان کی قیمت ہوگی، اچھا مستقبل بنانا ہے تو وقت اور محنت کا سرمایہ درکار ہوگا، حال اچھا رکھنا ہے تو مستقبل کا سودا پہلے طے کرنا ہوگا اور ماضی جو کبھی اچھا تھا، تو اس کے دام تم حال میں چکا رہے ہو اور چکاتے رہو گے
بے دام کچھ نہیں، انمول کچھ نہیں، بے قیمت کچھ نہیں اور مفت تو ایک سانس بھی نہیں!
یہ تمہارا چہرہ، یہ جو اس پہ لکیریں ہیں.. یہ آنکھیں، جو اب دھنستی جا رہی ہیں.. یہ تمہارے بال، جو اب کم رہے جاتے ہیں.. یہ سب قیمت ہے، اس وقت کی جب کبھی یہ سب اپنی پوری موج میں تھے۔
تب تمہیں ان سب کا خیال نہیں تھا، اب انہیں تمہارا سراپا بگاڑنے پر کوئی افسوس نہیں
یہ خراج ہے اس وقت کا، جو تم نے اس احساس کے بغیر گزارا کہ اس کی بھی کوئی قیمت ہوگی بھلا؟
سوچو، تم نے اب تک کس چیز کے لیے قیمت ادا نہیں کی؟
بڑھتی عمر کے ساتھ زیادہ ہوتا پچھتاوا بھی ایک قیمت ہے، جو گزرے برسوں کی تم ادا کرتے ہو
جب ہر چیز کی ایک قیمت ہے اور وہ ادا بھی کرنی ہے تو بھاؤ تاؤ میں سوچنا کیسا؟ مزا تو یہ ہے کہ جو قیمت بھرو گے، اس کا علم بھی پہلے نہیں ہوگا
لیٹے ہو تو بیٹھ جاؤ، بیٹھے ہو تو کھڑے ہو جاؤ، کھڑے ہو تو چل پڑو، چلتے ہو تو ذرا سا دوڑ لو اور دوڑتے ہو تو اڑنے کی کوشش کرو۔ جب مول دینے ہیں تو اڑنے کے لیے کیوں نہ دو؟
دل وہ ہے کہ جو پانچوں طرف سے اڑتی خواہشوں کو پکڑنے کے لیے مچلتا ہے، ہلکان ہوتا ہے لیکن قیمت ادا کرنے کی تاب اس کو بھی نہیں ہے۔ جب طے ہے کہ جائے گا تمہاری ہی جیب سے اور جب نہیں معلوم کہ جانا کیا ہے تو کیوں نہ سب سے اچھی شے پہ ہاتھ رکھا جائے؟ جب دل زور سے چاہے تو کمزور نہ بنو اور جب بے آسرا ہونے لگو تو یاد رکھو کہ جانا مقدر تھا
سارے اچھے کام کرنے کے ذمے دار تم نہیں ہو۔ تم چاہتے ہو کہ تم دنیا بھر سے بھلائی کرو لیکن بات پھر وہی ہے، اس اچھائی کے عوض تمہارے پلے سے جانا کیا ہے، یہ حساب پہلے لگا لو۔ تم عاجز ہو، تم بے بس ہو، جب بس چلتا ہو تو پھر چلا لو، چھوٹی اچھائی کسی کو یاد نہیں رہتی اور بڑی اچھائی صرف مہاتماؤں کو زیب دیتی ہے
مجھ پہ یقین نہیں کرنا، مت کرو۔ یقین مول تول کی ان فضاؤں سے اڑ کر بہت اوپر جا چکا ہے
فرض کرو تم مہاتما بن جاؤ اور میں اگر تم سے پوچھوں کہ ’تم ہی مہاتما ہو کیا؟‘ تو مجھے اپنے سفید بالوں کی قسم، جھجھکتے ہوئے تمہارا جواب ہوگا: ’ہاں شاید، ممکن ہے کہ میں مہاتما ہوں، یا شاید نہیں ہوں۔‘ تمہیں، خود اپنی ذات کا ادراک تب بھی نہیں ہوگا!
یقین اس چیز کا نام ہے، جو تم سوالوں کی دھند میں کھو دیتے ہو.. سوال وہ سانپ ہیں، جو خزانے کی دیگچی پر پہرا دیتے ہیں اور یقین خزانے کا ڈھکن تبھی کھلتا ہے، جب سانپوں کو تم اپنی جگہ سے بھگا دو..
سانپ تمہیں ڈس بھی سکتا ہے میرے بچے، عین یہی صورت علم کی ہے۔ علم ہو جانا کبھی کبھی علم نہ ہونے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے
جان لو کہ تمہاری بے یقینی کی جو قیمت ہے، وہ یقین سے کئی گنا زیادہ ہے اور لازم نہیں کہ جو دیگچی تمہیں دفن ملے، اس میں خزانہ ہی موجود ہو!
علم کی قیمت عالم ادا کرتا ہے، تاجر کا وقت اس کا منافع ہے اور علم والے کی سرمایہ کاری اس کے شاگرد ہیں
عالم کے پاس بیٹھو گے تو علم ملے گا لیکن نفع روپیوں میں نہیں ہوگا، تاجر کے پاس جاؤ گے تو روپے پاؤ گے لیکن اصل کا علم وہ تم سے چھپا لے گا
ساری زندگی لین دین ہے، سودا ہے، ویہار ہے، مول بیاج ہے، تکڑی بٹہ ہے۔ اب یہ تمہارے ہاتھ میں ہے کہ تم اپنا سرمایہ کدھر لگاؤ
قیمت ہر لمحے کی ہوتی ہے! قیمت ہر سانس کی ہوتی ہے اور قیمت ہر فیصلے کی ہوتی ہے…!
(حوالہ: انڈپینڈنٹ اردو، عرب میڈیا)