بابا عمرو نے محنت مزدوری کرکے جوانی گزاری، ادھیڑ عمر میں شادی کی، چار مہنیوں کے بعد بیوی دق میں مبتلا ہوگئی اور جب مری تو بابا عمرو کو خدا کا شکر ادا کرتے سنا گیا۔کہتے ہیں بیوی کو دفنا کر جب وہ گاؤں میں آیا تو سیدھا مسجد میں جا گھسا اور شکرانے کے نفل ادا کئے اور ہاتھ اٹھا کر بلند آواز میں دعا کی، میرے اللہ تو بڑا پروردگار ہے اس لئیے شکایت فضول ہے، تو جو کرتا ہے، اچھا کرتا ہے، تیری مرضی یہی تھی، تو میں کون ہوتا ہوں ناک بھوں چڑھانے والا، شکر ہے تیرا، شکر ہے، شکر ہے!!! زمیندار تو جہاں کھڑا تھا، وہیں جم کر رہ گیا۔ جو شخص بغیر حیل و حجت کے دو روپے ماہوار پر نوکری کرنے پر رضا مند ہوجائے، وہ مالک سے ناراض ہو کر چل دے، تو کیا اسے مرنے کا خوف نہیں ہوتا….؟
جب منڈیروں پر پھدکتی ہوئی چڑیاں ایک دم بھرر سے فضا میں ابھرا جاتیں اور کھرلیوں کے قریب گٹھڑیاں بنے ہوئے بچھڑے اپنے لمبے لمبے کانوں کے آخری سرے ملا کر محرابیں سی بنا لیتے، تو جھکی ہوئی دیواروں کے سائے میں بیٹھے ہوئے کسان مسکراتے اور خشک تمباکو کو ہتھیلیوں سے ملتے ہوئے یا کھیس کے دھاگوں میں بل ڈالتے ہوئے کہتے، بابا عمرو کھانسا ہے۔
بابا عمرو کی کھانسی بہت گونجیلی تھی، یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے تانبے سے بنے ہوئے کنوئیں میں یکبار چند پتھر گر پڑے ہیں… وہ اپنے جھونپڑے کی چوکھٹ پر بیٹھا بکریوں کے بال بٹتا رہتا اور جب کھانستا تو پسلیوں کو دنوں ہاتھوں سے جکڑ لیتا، اس زور سے تھوکتا کہ اس کی مونچھوں کے جھکے ہوئے بال لوہے کے تنے ہوئے تار بن جاتے، خربوزے کے مرجھائے ہوئے چھلکوں کے گالوں پر چھریوں کا جال سا تنا جاتا، اور جھکی ہوئی بھوسلی بھووں کے نیچے سے ندی کنارے کے گول کنکروں کی سی آنکھوں پر پانی کی پتلی سی لہر تیر جاتی، پڑوسن کے بچے تالیاں بجاتے اور چلاتے، بابا عمرو کھانسا ہے… بابا عمرو کے کانوں میں ان چیخوں کی بھنک پڑجاتی تو بکریوں کے گولے پر بے تابانہ انگلیاں پھیرتا، رسی میں اتنے بل ڈالتا کہ وہ تن کہ ٹیڑھی ہوجاتی اور پھر پاس ہی بیٹھی ہوئی بلی کو گردن سے پکڑ کر اپنی جھولی میں بٹھا لیتا اور کہتا بابا عمرو کیا کھانسا، مداری نے پٹارے سے ڈھکنا ہٹا دیا… چھچھوندر کہیں کے.. دیکھوں گا، میری عمر کو پہنچ کر کیسے نہیں کھانستے، میں بھی تو جب جوانی میں کھانستا تھا تو ایسا لگتا تھا جیسا کوئی طبلہ بجا رہا ہے۔
اچانک پڑوس کی ایک لڑکی لپک کر گھر سے نکلتی اور جب بابا عمرو کو اپنے آپ سے سرگوشیاں کرتے دیکھتی تو آگے بڑھ کر کہتی، بابا عمرو میں آ گئی۔
بابا عمرو چونک اٹھتا اور پھر اس کے لبوں پر ایسی جناتی مسکراہٹ نمودار ہونے لگتی، جیسے ٹوٹے پھوٹے قبرستان میں چاندنی، کہتا: میں جانتا تھا میری ولیتو آئے گی، تو اتنی دیر تک کیا کرتی رہی ولیتو بیٹا؟
ہمارے گھر چاول پکے ہیں، ننھی ولیتو تالی بجا کر کہتی، میٹھے چاول….لے آؤں تمہارے لئے بابا عمرو؟ ہیں بابا عمرو؟
چاول قابض ہوتے ہیں، وہ ہونٹ سکیڑ کر کہتا اور جب لڑکی کے صاف چہرے پر انکار کے صدمے کا احساس شفق کی پھوار سی چھڑک دیتا تو وہ انداز گفتگو بدل کر کہتا، پر ولیتو تیری خاطر مٹھی بھر کھا لوں گا میں بھی، ولیتو بچی کا جی برا کروں، تو کہاں جاؤں میں بڈھا کھوسٹ؟
ننھی ولیتو اچھلتی کودتی اپنے گھر میں گھس جاتی، گھڑے کے ڈھکنے پر مونگ کی گھنگھنیاں ڈالے پلٹتی اور بابا عمرو کے سامنے گھٹنوں پر ٹھوڑی رکھے بانہوں کو پنڈلیوں پر لپیٹے بیٹھ جاتی، بابا عمرو چاولوں کے تصور کو منگ میں بدلتے دیکھ کر یوں ہنستا، جیسے نیا نیا رہٹ رک رک کر چل رہا ہو اور پھر اس کے قہقہے گونجیل کھانسی میں تبدیل ہوجاتے، پسلیوں کو دونوں ہاتھوں سے جکڑ کر سامنے پڑوسی کی دیوار پر چٹاخ سے تھوک کر کہتا، یہ چاول کہاں سے آئے ننھو؟
کرپالو کی دکان سے، ولیتو پلکیں جھپکا کر مسکراتی
اور بابا عمرو کہتا میں سمجھا ولیتو نے ولایت سے چاول منگائے ہیں..
گاؤں بھر میں مشہور تھا کہ بابا عمرو کا دل بھٹیارن کے توے کی طرح کالا ہے، اس بڈھے نے کسی سے محبت نہیں کی، یہ دوزخی ہے دوزخی!
بابا عمرو نے محنت مزدوری کرکے جوانی گزاری، ادھیڑ عمر میں شادی کی، چار مہنیوں کے بعد بیوی دق میں مبتلا ہوگئی اور جب مری تو بابا عمرو کو خدا کا شکر ادا کرتے سنا گیا ۔کہتے ہیں بیوی کو دفنا کر جب وہ گاؤں میں آیا تو سیدھا مسجد میں جا گھسا اور شکرانے کے نفل ادا کئے اور ہاتھ اٹھا کر بلند آواز میں دعا کی، میرے اللہ تو بڑا پروردگار ہے اس لئیے شکایت فضول ہے، تو جو کرتا ہے، اچھا کرتا ہے، تیری مرضی یہی تھی، تو میں کون ہوتا ہوں ناک بھوں چڑھانے والا، شکر ہے تیرا، شکر ہے، شکر ہے!!!
مولوی جی نے نماز جنازہ کے رپوں کو جیب میں ٹٹول کر کہا اسے کہتے ہیں توکل!!!
اور کسان جو توکل کا مطلب نہیں جانتے تھے بولے ”دل ہی کوئلہ ہوگیا کم بخت کا، کچھ آنچ ہوتی اس میں تو جوانی میں بیاہ کر لیتا، اب تک بچے جوان ہوتے، وہ کماتے یہ کھاتا اور اللہ کا نام جپتا، بے وقوف ہے، سودائی ہے، سڑی ہے، بھوت کا سایہ ہے بے چارے پر!“
بابا عمرو نے زندگی بھر میں تین چیزوں سے محبت کی، خدا سے، ننھی ولیتو سے اور بوڑھی بلی شکری سے، جوانی میں ایک لڑکی سے انس پیدا ہوا تھا، کہ وہ پردیس بیاہ دی گئی اور محبت کی نومیدہ کلی بابا عمرو کے دل میں گھٹ کر مرجھائی اور خاکستر بن کر رہ گئی
کبھی کبھی مسجد کی دیواریں لیپ آتا، گلیوں سے کنکر ہٹاتا رہتا، مسافروں کے لئے گھر گھر سے روٹی مانگتا، گاؤں کی معاشرتی زندگی میں اس کا صرف یہی دخل تھا کہ کوئی مرے تو جنازے کو کاندھا دے دے، کوئی بیاہا جائے تو دعائے خیر میں شریک ہو کر مٹھی بھر تل اور شکر لے ننھے بچوں میں بانٹ دے، گاؤں کا کنواں صاف کیا جائے تو جگت پر آ کر بیٹھ جائے، رسی بٹتا رہے اور گنگناتا رہے، لا الہ الااللہ۔ لا الہ الااللہ… اسے نہ سرما کی راتوں میں چوپال کی محفلیں لبھا سکتی تھیں، نہ ساون کے دنوں میں کھلیانوں کی سنگیت سبھائیں، اس کی کھانسی گاؤں والوں کو اس کے وجود سے منکر نہ ہونے دیتی تھی ورنہ وہ گاؤں میں رہ کر بھی گاؤں میں نہ تھا۔
جب رات کا اندھیرا اپنے پوربی آنچل کو پو کے چشمے میں بگھو لیتا اور کائنات کی نیندوں میں انگڑائیاں کنمنانے لگتیں، تو بابا عمرو آنکھیں کھولتا اور دیمک خوردہ دروازے کے رخنوں میں دھندلے اجالوں کو مسکراتا دیکھتا تو آدھے گنجے سر پر ہاتھ پھیر کے کلمہ پڑھتا، خرخراتی شکری کو بغل سے نکال کر پائنتی پر بٹھا دیتا، کونے میں ایک گھڑے سے کوزہ بھرتا، وضو کرتا اور نماز پڑھتا.. وہ کہا کرتا تھا، صبح کی نماز پڑھی تو سمجھو اللہ کی نگری میں داخل ہوگئے، دوسری نمازوں کی توفیق ہو تو پڑھو، پر ہمیں تو اللہ کی نگری کا ایک کونہ چاہئے، جیسے یہاں رہے ویسے وہاں بھی کہیں سمٹے پڑے رہیں گے.. بس صبح کی نماز قضا نہ ہو۔
جب شفق کا سیلاب مدھم پڑجاتا اور منڈیریوں اور پیڑوں پر چڑیاں چراچراتیں تو وہ کمر پر ہاتھ باندھے قریب کے کھیتوں میں گھومنے نکل جاتا، کبھی کبھی شکری بھی اس کے ساتھ ہو لیتی، مینڈوں کے سوراخوں کو سونگھتی، نرم نرم گھاس پر لوٹتی اور پھر بابا عمرو کے پاؤں سے لپٹ کر اس کے ٹخنوں سے اپنے ریشمیں پنجے رگڑتی، بابا عمرو مسکرا کر کہتا، ہٹ جا شکری…
اور جب شکری لپک کر کھیت کے پرلے پر پہنچتی اور لمبی تھر تھراتی میاؤں کرتی، تو بابا عمرو ہنس کرکہتا، شریر!
واپس آ کر آٹا گوندھتا، روٹی پکاتا اور پیاز، گڑیا ولیتو کے ہاں کی دال سے کھانا کھاتا، پچھلی کمائی میں سے کبھی کبھی ایک پیسہ نکالتا اور کرپالو کی دکان سے شکر بھی لے آتا، کھانے سے فارغ ہو کر رسیاں بٹتا، فضا میں تیرتی ہوئی ابابیلوں کو دیکھتا، جو دور سے ننھی منی قوسیں سی معلوم ہوتیں، رسی بٹتے بٹتے تھک جاتا توشکری کو گود میں بٹھا لیتا، گردن سے چمٹا لیتا، اس کے چاروں پنجے ہتھیلی پر جما کر اسے نچاتا اور پھر اس کی نیلی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گاڑ کر کہتا
”شکری، تو بچی کھچی شکر چاٹتے چاٹتے شریر ہوگئی ہے، میاؤں کرتی ہے؟ مسمی کہیں کی، دیکھ چڑیاں نہ کھایا کر، میں نے دیکھا ہے کہ جس روز تو نے چڑیا کھائی، تجھے بد ہضمی ضرور ہوئی ہے.. میرے ساتھ ایک دو لقمے زہر مار کرلیا اور اللہ اللہ کیا کر، سمجھی..؟“
شکری آنکھوں کو نیم وا کرکے ایک بہت لمبی میاؤں کرتی اور اپنا جسم بابا عمرو کے مرجھائے ہوئے بازو سے رگڑتی، بابا عمرو خوش ہو کر ہنستا اور کھانستا.. نیا نیا رہٹ رک رک کر چلنے لگتا، تنابے کے کنوئیں میں پتھر لڑھکنے لگتے، ولیتو آ نکلتی تو اس سے عجیب عجیب باتیں کرتا، ”ننھو تو نے مجھے را کے بار یاد کیا؟“
ولیتو اس کے گھٹنے پر ٹھوڑی ٹیک کر کہتی، ”دس بار، بیس بار، چار بار۔“
وہ ہنستا تو ولیتو کہتی ”بابا عمرو میں نے نئی گڑیا بنائی ہے، دکھاؤں؟ بابا عمرو.. میری نئی گڑیا ہے نا؟ وہ بولتی ہے، نا بابا عمرو وہ کہتی ہے بابا عمرو بڑا اچھا بابا عمرو ہے۔“
”ٹھیک کہتی ہے، تمہاری گڑیا“ بابا عمرہ کہتا، ”بابا عمرو سچ مچ بہت ہی اچھا بابا عمرو ہے، پر تو خود کیا سمجھتی ہے بابا عمرو کو…؟ بتا…. بابا عمرو کیسا ہے؟“
”بابا عمرو بابا عمرو ہے بس!“ وہ کچھ سوچ کر کہتی ”عید کب آئے گی… ہیں بابا عمرو؟“
بابا عمرو انگلیوں پر حساب کرکے کہتا ”بس کوئی دس دن کم پانچ مہینے بعد…“
اور ننھی ولیتو ہونٹ سکیڑ کر کہتی، ”کل کیوں نہیں آتی بابا عمرو؟ ہم تو کل عید منائیں گے۔ کیوں نہیں؟ کیوں نہیں؟“
بابا عمرو رسی بٹنا بھول جاتا، ”ابھی کیوں نہ منالیں، میں اس ٹہنے پر جھولا ڈال دوں گا تمہیں، تم گھر سے پکانا حلوہ۔
بس بس کرتا سوجی حلوہ… تم پینگ بڑھانا میں حلوہ کھاؤں گا۔“
”میں بھی کھاؤں گی حلوہ بابا عمرو“ ولیتو بابا عمرو کے کاندھوں پر اپنی کہنیاں ٹیک دیتی ہے
بابا عمرو کہتا ”اچھا تو پینگ بڑھاؤں گا اور اگر میرے ہاتھ چھوٹ گئے تو جانتی کہاں گروں گا….؟ حلوے پر….“
ولیتو چہکنے لگتی اور پھر اچانک سنجیدہ ہو کر کہتی، ”بابا عمرو… نئے نئے کپڑے بھی ہوں گے، ہے نا؟“
”ہاں۔“
”اور گڑیاں؟“
”ہاں۔“
”اور پٹاخے؟“
”ہاں ہاں..“
”اور پھلجھڑیاں؟“
”ہاں ہاں پھلجڑیاں بھی۔“
ولیتو تالیاں بجاتی ناچتی گھر کی طرف دوڑنے لگی اور پکارتی عید آ گئی، بابا عمرو کہتا ہے! اچھا بابا عمرو!
شام پڑے تک ولیتو اور شکری اس کا دل لبھاتیں، اندھیرا پڑتے ہی وہ کھانا کھاتا، کڑوے تیل کا دیا جلا کر لاالہ الا اللہ کا ورد کرتا اور جب سونے لگتا تو پکارتا، شکری بی، ہے شکری بی۔
میاؤں…. چوکھٹ پر سے آواز آتی۔
”اوپر آجا“ بابا عمرو پیار سے کہتا
شکری اچک کر بابا عمر کی بغل میں گھس جاتی اور خر خر کی لوری اس پر غنوندگی سی طاری کردیتی
ایک روز وہ دیر تک گلی کے اس نکڑ کو پلٹ پلٹ کر دیکھتا رہا، جہاں سے ولیتو تالیاں بجاتی ناچتی نمودار ہوا کرتی تھی، جب سائے ڈھلنے لگے تو گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھا، رسی اندر کھاٹ پر پھینک دی اور ولیتو کے گھر کی طرف چل دیا، شکری اس کے ساتھ ساتھ تھی
آنگن میں قدم دھرا تو دیکھا ولیتو کھاٹ پر پڑی کراہ رہی ہے، اس کا باپ اس کے سرہانے بیٹھ کر تسبیح کر رہا ہے اور ماں قریب ہی الاؤ پر اینٹ کا ایک ٹکڑا گرم کر رہی تھی
ولیتو کا باپ کہہ رہا تھا، ”ابھی بلا لیتا ہوں بابا عمرو کو، پر اس کی کھانسی بڑی خراب ہے نا تمہیں نیند نہیں آئے گی۔“
”میں آ گیا ہوں ننھو، میں بالکل نہ کھانسوں گا یہاں“ بابا عمرو شکری کو اپنے پاؤں سے الگ کرتے ہوئے بولا
ولیتو مسکرانے لگی اور دونوں ہاتھ اٹھا کر بولی، ”بابا عمرو بڑا اچھا بابا عمرو ہے۔“
باب عمرو کی آنکھیں بھیگ گئیں بولا، ”میں حیران تھا کہ ولیتو بیٹی نے آج میری خبر کیوں نہ لی اسی فکر میں کئی بار رسی کو الٹے بل دیتا رہا، کئی بار شکری نے بھی میاؤں کی جیسے ولیتو کو پکار رہی ہو، کہ ری ننھو، تم بیمار ہو گئیں اور مجھے پتہ تک نہ چلا… کیا ہوگیا اسے؟“
ولیتو کا باپ بولا۔ ”کل شام سے پیٹ میں درد کی شکایت کر رہی تھی، صبح کو اٹھی تو بخار سے تپ رہا تھا سارا جسم، کئی بار تمہیں یاد کیا، پر میں نے کہا تم پریشان ہو جاؤ گے، کب سے تمہارے نام کی رٹ لگا رکھی ہے، کہتی ہے، بابا عمرو بڑا اچھا بابا عمرو ہے، بابا عمرو پھلجھڑیاں لا دے گا۔“
”ہاں ہاں پھلجڑیاں بابا عمرو پھلجڑیاں لا دو نا“ ولیتو نے اپنا تپتا ہوا ننھا ہاتھ بابا عمرو کی مرجھائی ہوئی انگلیوں پر رکھ دیا
ولیتو کا باپ بولا، ”کرپالو کی دکان پر پھلجڑیاں ہیں نہیں، مسجد کی پرلی طرف گاموں کے بیٹے وارث نے دکان کھولی ہے، پر گڑ اور تمباکو کے سوا اور دھرا کیا ہے، وہاں قصبے میں کوئی جانے والا ملتا نہیں، اور ولیتو ہے کہ بابا عمرو اور پھلجڑیوں کو بھولتی نہیں، بابا عمرو تو مل گیا اسے، اب پھلجڑیاں کہاں سے آئیں؟“
”قصبے سے…” بابا عمرو بولا.
”پر لائے گا کون؟“
”میں۔“
”تم؟“
”ہاں ہاں میں۔“
”پر بابا وہ گھٹا ٹوپ بادل اٹھ رہا ہے اُتّر سے… میں تو کہتا ہوں پل بھر میں جل تھل ایک ہوجائیں گے، تم بڈھے نڈھال آدمی کہاں بھٹکتے پھرو گے؟“
اچانک ولیتو پکاری…. ”بابا عمرو پھلجڑیاں اچھی سی، بہت اچھی سی…“
”جو نیلے پیلے تارے برسائیں؟“ بابا عمرو ولیتو پر جھک گیا.
”ہاں ہاں بابا عمرو۔“
”جو رات کو دن کردیں؟“
”ہوں۔“
”جو کر پالو کی دکان جلا دیں؟“
”ہاں ایسی ہی، کرپالو بڑا برا ہے، بابا عمرو بڑا اچھا ہے۔“
”تو میں ابھی آیا۔“ بابا عمرو اٹھا ، شکری اس کے ساتھ ہولی، ولیتو کے ماں باپ نے اسے بہت سمجھایا مگر وہ بولا، ”چار ہی تو قدم ہیں، اور اگر ولیتو کے لئے ولایت بھی جانا پڑا تو سمندروں کو چیرتا نکل جاؤں گا، میں ایسا گیا گزرا نہیں ہوں، اچھا بھلا ہوں، کھانسی نہ ہوتی تو قرآن مجید کی قسم لاہور سے ہو آتا ایک دن میں۔“
اور جب ولیتو کے باپ نے اسے پھلجھڑیوں کے لئے رقم دینا چاہی تو وہ بے تابانہ ہاتھ جھٹک کر بولا، ”میرے من جو بات آئی ہے وہ کہنے کی نہیں ورنہ کہہ دیتا، میں تمہارے لئے غیر سہی ولیتو کے لئے نہیں۔“
جھونپڑے میں پہنچ کر اپنی پونجی سے اٹھنی نکالی، شکری کو بڑی مشکل سے اندر بٹھایا اور دروازہ بند کرکے قصبے کو چل دیا۔
ابھی وہ گاؤں سے ایک ہی کوس دور گیا ہوگا کہ تیز ہوا سے درخت انگڑائیاں لینے لگے، خشک پتے کھڑکھراتے ہوئے ٹوٹے اور زمین پر لوٹ پوٹ ہونے لگے، بادل دھاڑا اور بوندا باندی شروع، مگر بابا عمرو لمبے لمبے ڈنگے بھرتا، عصا ٹیکتا بڑھتا چلا گیا اور جب قصبے میں پہنچا تو ٹھٹھر رہا تھا۔
اٹھنی کی پھلجڑیاں خرید کر چادر میں لپیٹیں اور تہبند کے کونے میں اڑس کر پلٹا، یوں چلا جیسے بیس بائیس سال کا گھبرو اڑا جا رہا ہو، گاؤں کے قریب برساتی ندی گرج رہی تھی، پھلجھڑیوں کو پگڑی میں لپیٹ کر چکراتے ہوئے پانی کو چیر گیا
ابھی گاؤں میں نہیں پہنچنے پایا تھا کہ گھٹانے ایک دم اپنا دامن نچوڑ دیا، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے آسمانوں سے سمندر انڈیل دئیے گئے ہیں، بوندوں کی جگہ آبشار گرنے لگے۔
بابا عمر کو پھلجڑیوں کی اتنی فکر تھی کہ بدن پر صرف تہبند کو رہنے دیا اور باقی سب کپڑوں میں پھلجڑیوں کو لپیٹ لیا، کبھی بغل میں دباتا، کبھی مٹھی میں جکڑ لیتا، پھسلتا تو پھلجڑیوں والا ہاتھ اوپر ہی رکھتا، جب وہ گاؤں میں پہنچا تو چوپال کے دروازے پر بیٹھے ہوئے لوگوں نے زور زور سے قہقہے لگائے اور بولے، ”بڈھا ویسے ہی گھناؤنا ہے، پر جب بھیگ جاتا ہے.. توبہ توبہ…. بالکل بھوت….!“
بابا عمرو کوئی جواب دینے کے لئے ٹھٹکا، مگر فوراً اس کے دماغ میں پھلجڑیاں چھوٹنے لگیں، قدم بڑھائے او جب ولیتو کے گھر پہنچا تو دہلیز الانگتے ہی پوچھا ”کیسی ہے ننھو؟“
اور پھر ولیتو کو مسکراتا دیکھ کر اس نے پھلجڑیوں پر لپیٹے ہوئے کپڑے کو کھولا، سولہ پھلجڑیوں کا انبار سا ولیتو کے سامنے رکھ دیا، داڑھی سے پانی نچوڑ کر بولا، ”چھوڑوں ایک پھلجڑی؟….دیا سلائی دینا بھیا!“
ولیتو کے ماں باپ بڈھے کی حالت دیکھ کر بھونچکا سے رہ گئے، اس کے اردگرد ننھی ننھی ندیاں بل کھاتی فرش کے چاروں طرف رینگی جا رہی تھیں، سر کے بچے کھچے بالوں کا پانی اکھٹا ہو کر اس کی ناک کے بانسے پر سے چاندی کا ایک تار بناتا اس کے کپکپاتے ہوئے سینے پر گر رہا تھا، ولیتو کی ماں نے بڑھ کر دیا سلائی کی ڈبیا اٹھا دی، باپ نے بابا عمرو کے قریب آ کر کہا، ”پر بابا تم تو آگ سینک لو، ٹھٹھر رہے ہو، نیلے پڑ رہے ہو۔“
”کون ٹھٹھر رہا ہے؟کون نیلا پڑا رہا ہے؟“ بابا عمرو دیا سلائی جلا کر بولا، ”واہ کیوں ری ننھو؟“
کانپتے ہاتھ بڑی مشکل سے دیا سلائی اور پھلجڑی کو ایک دوسرے کے قریب لا سکے اور جب پھلجڑی چھوٹی تو بابا عمرو کو وہ ہنسی چھوٹی، وہ ہنسی چھوٹی کہ چہکتی ہوئی ولیتو کے ہاتھ پھلجڑیاں تھما کر زمین پر بیٹھ گیا اور جب ہنسی نے گونجیلی کھانسی کی شکل اختیار کرلی، تو وہ سینے کو دونوں ہاتھوں سے دباتا اٹھا اور بولا، ”ولیتو بیٹا مجھے تو کھانسی آنے لگی، کل صبح پھر آؤں…. گا…. ہیں ننھو؟“
”بابا عمرو بڑا اچھا ہے“، ولیتو بستر پر اٹھ بیٹھی، ”بابا عمرو ایک پھلجڑی تم بھی لے لو۔“
ہنستا کنپتا، کھانستا وہ ولیتو کے قرب آیا، پھلجڑی لے کر مٹھی میں دبائی اور اپنی جھونپڑی کو چل دیا، جہاں شکری اپنے نکیلے پنجوں سے دروازے کو لگاتار کھرچ رہی تھی
آدھی رات تک ولیتو کا بخار بھی اتر گیا اور درد بھی رک گیا اور جب صبح کو اٹھی تو بابا عمرو کے ہاں جانے کو مچل پڑی، باپ نے اسے اٹھایا اور بابا عمرو کے پاس لے چلا
جھونپڑے کا دروازہ کھلا تھا، دونوں بابا عمرو کے قریب پہنچے تو ایک عجیب سی مکھی بابا عمرو کے ادھ کھلے منہ سے نکلی اور اس کے چہرے کا طواف کرتی ولیتو کے سر سے ٹکراتی دروازے سے باہر نکل گئی، بابا عمرو کے پیٹ پر بیٹھی ہوئی بلی نے زور سے میاؤں کی اور پنجہ مار کر بابا عمرو کی داڑھی میں پھنسی ہوئی پھلجڑی کونیچے گرا دیا…