کیا آنے والے دنوں میں پاکستان اور افغانستان کی طالبان حکومت آمنے سامنے کھڑے ہونگے؟

اسلام آباد – دوحہ میں امن معاہدے کے تحت افغان طالبان نے یقین دہانی کروائی تھی کہ افغانستان کی سرزمین خطے میں بدامنی پھیلانے کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
15 اگست 2021ع کو افغان طالبان کے کابل میں برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان کا واضح موقف رہا ہے کہ افغان طالبان اس عالمی معاہدے کی پاسداری کریں گے۔
پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے اس معاملے پر متعدد بار طالبان حکومت پر یقین کرنے پر زور دیتے ہوئے عالمی برادری سے بھی ان کی حکومت پر شک نہ کرنے کا مطالبہ کیا

جبکہ گذشتہ برس 23 اگست کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہوئے افغان حکومت کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’افغان طالبان کے بیانات حوصلہ افزا ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، اور عالمی برادری کو ان سے اپنے روابط برقرار رکھنے چاہیے۔‘

اس کے علاوہ 20 ستمبر 2021 کو پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’پاکستان کے پاس طالبان کی افغان سرزمین کسی دوسرے ملک بشمول پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانیوں پر شک کی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا تھا کہ ’طالبان نے کئی مواقع پر دہرایا ہے کہ کسی گروہ یا دہشت گرد تنظیم کو کسی ملک بشمول پاکستان کے خلاف کسی دہشت گرد سرگرمی کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہمارے پاس ان کی نیت پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘

تاہم اس ساری صورتحال میں حال ہی میں پاکستان میں افغان سرحد پر ہونے والے واقعات کے بعد پاکستان نے افغان طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد پہلی مرتبہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کا الزام عائد کیا ہے

6 فروری کو پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’خیبر پختونخواہ کے ضلع کرم میں افغانستان سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کی جانب سے کی گئی فائرنگ کے نتیجے میں پاک فوج کے کم از کم پانچ جوان شہید ہوئے ہیں۔‘

آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’پاکستان دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کے استعمال کی شدید مذمت کرتا ہے اور توقع کرتا ہے کہ عبوری افغان حکومت مستقبل میں پاکستان کے خلاف ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دے گی۔‘
پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کی شدید مذمت کرتا ہے۔ پاکستان، افغان حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ دہشت گردوں اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کو ہدف بنانے کے لیے افغانستان میں پناہ گاہیں تلاش کرنے والے دہشت گرد گروہوں کے خلاف فوری کارروائی کرے۔‘

اس سے قبل تین فروری کو آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’پنجگور اور نوشکی میں سکیورٹی فورسز پر حملہ کرنے والے دہشت گرد اور ان کے ہینڈلرز بھارت اور افغانستان میں را سے رابطے میں تھے۔‘

اس حوالے سے دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان کا کہنا ہے کہ ’افغان حکومت اس وقت دیوالیہ ہے۔ اس کے پاس فوج ہے اور نہ پولیس ہے کہ وہ اپنے بارڈر کو محفوظ بنا سکیں اور عالمی برادری کے ساتھ کیے گئے دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کروا سکیں۔ تاہم وہ اس کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ‘افغان طالبان نے اپنی سرزمین دہشت گردی میں استعمال نہ ہونے کے لیے کوشش کرتے ہوئے ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے مذاکرات کی کوشش کی، لیکن ٹی ٹی پی کی جانب سے پیش کی گئی شرط قابل قبول نہ ہونے کی وجہ سے مذاکرات آگے نہ بڑھ سکے اور ٹی ٹی پی نے سیز فائر کا معاہدہ ختم کر دیا۔‘

پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈی کے ڈائریکٹر اور سکیورٹی تجزیہ نگار عامر رانا کے مطابق ’پاکستان کی افغان حکومت سے متعلق پالیسی تبدیل نہیں ہوئی، لیکن پاکستان کی جو توقعات افغان قیادت سے تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ افغان طالبان کا اس وقت ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ وہ بلوچ عسکریت پسندوں اور ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی کرے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کے لیے اس وقت ایک نازک صورتحال ہے کہ اگر وہ افغان طالبان پر دباؤ ڈالتے ہیں تو عالمی برادری کی طرف سے بھی افغان طالبان پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ ابھی پاکستان بیک ڈور چینلز کے ذریعے یہ کوشش کر رہا ہے کہ وہ افغان حکومت کو پاکستان کے ساتھ یہ تعاون کرنے پر آمادہ کریں کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘

سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل آصف یٰسین نے کہا کہ ‘ایران سے افغانستان کے لوگ آپریٹ کر رہے ہیں۔ اب تبدیلی یہ آئی ہے کہ افغانستان کی ریاست اب ٹی ٹی پی کو سپورٹ نہیں کرتی لیکن طالبان مشکل میں ہیں اس لیے وہ مکمل طور پر ان کو کنٹرول نہیں کر پا رہے ہیں۔‘

حالیہ واقعات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’انڈین سپانسرشپ اور مغربی ایجنسیاں اس میں ملوث ہیں اور یہ چین کے خلاف مہم کا حصہ ہیں۔‘

میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان کے خیال میں بھی ’پاکستان کے خلاف ایران کی بھی سرزمین استعمال ہو رہی ہے اور حکومتی سطح پر بھی ایران کے ساتھ اس معاملے کو اٹھایا گیا ہے اور ایران کی حکومت نے بارڈر ایریا میں ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کروائی ہے۔‘

میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان کے مطابق ‘پاکستان نے افغان حکومت کو سفارتی سطح پر واضح پیغام دے دیا ہے کہ اگر آپ کنٹرول نہیں کریں گے تو پھر پاکستان خود ان کے خلاف اسٹرائیک کرے گا اور سرحد پار جا کر پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنے والوں کو ماریں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اس پیغام پر افغان حکومت نے ردعمل دیا ہے کہ ‘ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہماری سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو، ہم اس معاملے کو سفارتی طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں۔‘

میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان نے کہا کہ ’اگر افغان طالبان اپنی سرزمین دہشت گردوں کو استعمال کرنے سے روکنے میں کامیاب نہ ہوئے تو پاکستان تو اپنا دفاع کرے گے اور پاکستان ‘ہاٹ پوسیوٹ‘ آپریشن کرے گا قطع نظر اس کے، کہ اس سے افغان حکومت سے پاکستان کے تعلقات خراب ہوتے ہیں یا نہیں۔‘

انہوں نے کہا ”پاکستان ان (افغان حکومت) کے لیے وہ سب کر رہا ہے جو دنیا کا کوئی ملک نہیں کر رہا اور افغان طالبان بھی پاکستان کی ان کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔“

سکیورٹی تجزیہ نگار عامر رانا کے مطابق افغان طالبان کا موقف ہے کہ ان مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے لیکن پاکستان کا موقف ہے کہ دہشت گردی کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل ہونے والا نہیں ہے

’ابھی بات چیت چل رہی ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ افغان طالبان کا تعاون حاصل کیا جائے، اور کچھ اطلاعات آ رہی ہیں کہ کچھ ایریاز میں آپریشن کیے جا رہے ہی۔ اگر افغان طالبان تعاون نہیں کرتے تو پاکستان کے پاس آپریشن کے علاوہ کوئی حل نہیں رہے گا۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close